Urdu

مئی میں ہالینڈے کے اقتدار میں آنے کے بعدسے فرانس میں بیروزگاری کی شرح ہر مہینے تیزی سے بلند ہوتی چلی جارہی ہے۔اس وقت یہاں بیروزگاروں کی تعدادتیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اگر ہم ان میں وہ لوگ بھی شمارکرلیں کہ جو محض چند گھنٹوں کی جاب کررہے ہیں یا جنہیں کوئی باقاعدہ روزگار میسر نہیں ہے تو یہ تعدادساڑھے چارملین تک جا پہنچتی ہے۔اندازہ لگایاگیاہے کہ مزید دس لاکھ افراد روزگار سے باہرہیں۔وہ مراعات سے بھی محروم ہیں اور ان کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی۔اس بات کے بہت ہی کم امکان ہیں کہ مستقبل قریب تک بیروزگاری کی شرح میں یہ اضافہ کسی طور بھی کم ہو پائے گا۔آنے والے دنوں میںCitro235n-PSAآٹھ ہزار روگار ختم کررہی ہے،جبکہ ائرفرانس بھی پانچ ہزار روزگار ختم کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔ان کے

...

آج 7اکتوبر 2012ء کو وینزویلا میں ہو رہے انتخابات تاریخ ساز اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات کے تنائج کے اثرات نہ صرف وینزویلا اور لاطینی امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہوں گے بلکہ ان سرحدوں کے پار بہت دور تک عوام کے شعور اور طبقاتی جدوجہد کی رفتار پر اثر انداز ہوں گے۔یہ حادثاتی طور پر یا محض کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مغربی سامراجی ممالک کے حکمران اشرافیہ کے ماہرین، منصوبہ سازوں اور میڈیا کی ان انتخابات کے نتائج میں بہت زیادہ دلچسپی اور توجہ مرکوز ہے۔ ان کی جانب سے شاویز کو ڈکٹیٹر، جابر، مطلق العنان حاکم، منشیات کا سوداگر، امریکہ کا دشمن اور دہشت گردجیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔ان کی پیش کردہ تصویر کے مطابق وینزویلاایک پر تشدداور غیر محفوظ ملک ہے جہاں جرائم، کرپشن اور افرا تفری کا راج

...

گزشتہ شام سرمایہ داروں کا دلال میڈیا جس وقت تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، ہوگو شاویز کی الیکشن کیمپین کے اختتام پر مرکزی کاراکاس کی شاہراہیں سرخ طوفان کی زد میں تھیں۔

آج 3اکتوبر کو اچانک شروع ہونے والے بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد تہران کے بازار میں سڑکوں پر نکل آئے۔نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین پورے بازار میں پھیل گئے اور ایک بنک کی عمارت کو تباہ کر دیا۔مظاہرے دراصل حالیہ عرصے میں ہونے والی تیز ترین مہنگائی، ایرانی ریا ل کے انہدام اور حکومت کی جانب سے ان دونوں حقیقتوں کو تسلیم نہ کرنے کے خلاف تھے۔

28ستمبر کو بر صغیر کے معروف ترین انقلابی بھگت سنگھ کا 105واں یومِ پیدائش تھا۔ لڑاکا جدوجہد کے ذریعے انقلابی تبدیلی اور برطانوی راج کا تختہ الٹنے کی اس کی دلیرانہ جدوجہد کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ 23مارچ 1931ء کی صبح طلوعِ آفتاب کے وقت،23 برس کی کم سن عمر میں سامراجی غاصبوں نے بھگت سنگھ کو موت کی نیند سلا دیا، لیکن وہ اس خطے کی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ مارکسی تھیوری کو سمجھنے اورانقلابی کیڈر بنانے کے لیے قید اورشدید سیاسی سرگرمی کے دوران اپنے ساتھیوں کی تربیت کرنے کا جذبہ اس کی ان تھک جدوجہد کا خاصا تھا۔

سولہ برس قبل 20ستمبر1996ء کی شام جب رات میں ڈھل رہی تھی، اس وحشی ریاست نے بیالیس سالہ میر مرتضیٰ بھٹو کا بدن گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اسے پاکستانی سیاست کی سب سے معروف رہائش گاہ ، اس کے گھر 70کلفٹن کراچی کے سامنے اسکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس پر ستم یہ ہے کہ اس وقت اس کی بہن ملک کی وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹیو تھی۔ اس دن سے سازش کی ان گنت تھیوریاں (Conspiracy Theories)اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن کوئی بھی مجرم پکڑا نہیں گیا اور نہ ہی کوئی قانونی کاروائی ہوئی ہے ۔ ریاستی اداروں کے جن افراد کو اس قتل میں نامزد اور گرفتار کیا گیا تھا وہ آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔

امریکہ میں رجعتی عیسائی بنیاد پرستوں کی جانب سے’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ نامی ایک گھٹیا، بے ہودہ اور اسلام مخالف فلم جسے جولائی میں انٹر نیٹ پر لگایا گیا، کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں امریکی سفارت خانوں پر حملے اور لیبیا میں بن غازی میں امریکی کونسل خانے کے چار سفارت کاروں کا قتل بھی شامل ہے۔ہم ان سب کی وجوہات کا جائزہ لیں گے۔

گزشتہ دنوں آدھے سے زیادہ بھارت بجلی کی بندش کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب گیااور زندگی معطل ہو کے رہ گئی۔اس ایک واقعے سے ہی ’’چمکتے بھارت‘‘ (Shining India)کی معاشی ترقی کا پول کھل گیا جس کا ڈھنڈورا پوری دنیا کے سامنے پیٹا جا رہا ہے۔تیسری دنیا کے ممالک میں منڈی کی معیشت کے تحت حاصل ہونے والی زیادہ شرح نمو اور بوسیدہ سماجی انفراسٹرکچر کے درمیان پایا جانے والا تضاد بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔در حقیقت بھارت کے جی ڈی پی کی زیادہ شرح نمو سے غربت کم ہونے کی بجائے اسی شرح سے بڑھی ہے۔پچھلے عشرے میں جب بھارتی معیشت کی شرح نمو اوسطاً9فیصد رہی ہے، خطِ غربت کے نیچے ایک ڈالر یومیہ پر گزارہ کرنے والے افراد کی تعداد 770ملین سے بڑھ کے 860ملین ہو چکی ہے۔

کراچی میں کپڑے کے کارخانے میں لگنی والی ہولناک آگ جس میں 289مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے اور کئی سو جھلس کر شدید زخی ہو گئے، جہاں کسی قید خانے کی طرح دروازے مقفل تھے، ایسے واقعات پاکستانی مزدوروں کے لیے معمول بن چکے ہیں۔اس واقعے سے وہ حالات عیاں ہو گئے ہیں جن میں مزدوروں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

چند سال پہلے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتاتھا کہ جب ماحولیاتی تبدیلیاں اخبارات کی شہہ سرخیاں نہ بنتی تھیں۔ امریکی سیاستدان ایلگور کی جانب سے بنائی جانے والی ماحولیات پر بننے والی دستاویزی فلمAn Inconvenient Truth’’ایک ناخوشگوار حقیقت‘‘کو لاکھوں لوگوں نے دنیا بھر میں سینماؤں پر دیکھا۔کنزرویٹوپارٹی نے خودکو ماحولیات کا چمپئین ثابت کرنے کیلئے نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ماحولیات بارے رنگ بازیاں کرتے ہوئے لوگوں کو اس بات کیلئے تیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ سبز رنگ کی بقا اور بحالی کیلئے نیلے رنگ کو ووٹ دیاجائے۔یہاں تک کہ رجعتیت کے مہان رہنما جارج بش کو بھی اس بات پر مجبورہونا پڑگیا تھاکہ وہ ماحولیات کو ایک قابل ترجیح مسئلہ تسلیم کرے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں، خاص طور پر ایم کیوایم، اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حالت زار کی اصل وجہ جاگیر داری ہے اور اس کا خاتمہ کر کے ہی ملک کو تمام تر مصائب سے نکالا جا سکتا ہے۔یہ نقطہ نظر در اصل ان چھوٹے کاروباری عناصر (Petty Bourgeois)اور مافیوزی سرمایہ داری (جرائم اور کالے دھن پر مبنی سرمایہ داری) کو بچانے کے لئے اپنایا گیا ہے جس کے سہارے یہ پارٹیاں اپنی سماجی و معاشی ساکھ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔سابقہ بائیں بازو اور لبرل دانشور پچھلی کئی دہائیوں سے یہ گردان دہرا رہے ہیں کہ پاکستان ایک جاگیردارانہ ملک ہے اور جاگیرداری کا خاتمہ ’قومی جمہوری‘ یا سرمایہ دارانہ انقلابات سے ہی ممکن ہے۔لیکن پچھلے 65سالوں سے پاکستانی بورژوازی،

...

پاکستان معرض وجود میں آنے ساتھ ہی شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر بنائے گئے اس ملک کی بقا اور یکجہتی کے متعلق شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ملک ٹوٹ جانے کی اس بحث میں شدت آئی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دانشوروں کے اس حصے کے خیالات کو تقویت ملی جن کے اس ملک کی لمبے عرصے تک بقا کے متعلق شکوک و شبہات تھے۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کی قیاس آرائی زبان زد خاص و عام ہو چکی ہے خاص طور پران صوبوں میں جہاں قومی جبر واضح شکل میں موجود رہا ہے۔

نسلی امتیاز کی پالیسی کے خاتمے اور جمہوریت اور آزادی کی نئی شروعات کے اٹھارہ برس بعد، ماریکانا کے علاقے میں لون من کمپنی کی ملکیت میں پلاٹینم کی کانوں کے 44کان کنوں کا گزشتہ جمعرات کے روز پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اور 100 محنت کشوں کوشدید ز خمی کرنے کے واقعے نے جنوبی افریقہ کے پرولتاریہ کے اذیت ناک حالات اور تکلیف دہ زندگی کو دنیا بھر کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ سفید فام نسل پرست حکومت سے نام نہاد آزادی حاصل کرنے کے بعد کے سالوں میں بے شمار تحریکوں کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلا جا چکا ہے۔اس واقعے نے 1960ء میں اس وقت کی نسل پرست حکومت کے ہاتھوں شار پ ویل میں60سیاہ فاموں کے سفاکانہ قتل عام کی یاد تازہ کر دی ہے۔