جو یوں برباد ہوتے ہیں

Urdu translation of Pakistan: Conflict between factions of the state provoke devastation and misery for the oppressed (May 20, 2009)

چنگاری ڈاٹ کام،18.05.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کے حکمران طبقات عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اپنے بد ترین اور سنگین ترین حالات سے گزر رہا ہے ۔ اس لئے عوام کے معیار زندگی پر معاشی حملے کیے جا رہے ہیں ۔ پاکستان کے بننے سے لے کر اب تک تمام حکمران حالات کو سنگین ترین ہی قرار دیتے رہے ہیں اور اب پھر یہی بات دہرائی جا رہی ہے۔لیکن سوات/مالاکنڈ سے بلوچستان اور کراچی تک حالیہ صورتحال بربریت کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ اس تمام سنگینی میں ہمیشہ حکمرانوں کی دولت کے انبار بڑھتے ہی گئے ہیں اور غریب عوام کی زندگی بد تر ہوتی گئی ہے۔ملک کے حالات کتنے ہی سنگین اور بد تر کیوں نہ ہوں حکمرانوں کی امارت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ماضی کی تمام ناکامیوں اور بربادیوں کے بعد آج کی صورتحال کہیں زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن ہے اور آج پاکستان کی ریاست کا زوال نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ مارکسسٹوںنے کئی برس پہلے پاکستان کی ریاست کے شدید داخلی تضادات کے پھٹنے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ آج کے مسائل کی بنیاد پاکستان کے جنم میں موجود تھی کیونکہ انیس سو سنتالیس میں جنم لینے والی ریاست کے لئے کبھی بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بن سکتی اور تاریخ کے میدان میں دیر سے آنے کے باعث یہاں کے لاغر اور بدعنوان سرمایہ دار حکمران طبقات کوہمیشہ ترقی یافتہ ریاستوں کا غلام بن کر رہنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی شدت میںاضافہ ہوتا چلا گیا اور اس زوال میں تیزی آتی گئی۔ ضیاءآمریت کے دور میں پاکستانی ریاست نے ”سٹریٹجک گہرائی“ کی پالیسی کو اپنایا جسے سٹاف کالجزاور اعلیٰ دفاعی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وہ مغربی سرحد پر افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بظاہر جس خطرے کو وہ عوام کے سامنے پیش کرتے تھے وہ مشرقی سرحد پر تھا۔ افغانستان میں مداخلت کے دوران پاکستان کی معیشت میں کالے دھن کاایک بڑا حجم سرایت کر گیا جس کے باعث اس ریاست کا انتشار مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ عمل ابھی تک جاری ہے لیکن اب یہ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔پاکستان کے بورژوا تجزیہ نگار بھی اب اس خطرے کو رد نہیں کر سکتے۔ چھ مئی کا ڈان اخبارلکھتا ہے۔۔ ”عوام کو اس ریاست میں حصہ دینے اور ان میں اپنے پن کا شعور دینے میں حکومت کی ناکامی پاکستان میں ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی بے حسی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہی وہ بے حسی ہے جس کا اظہار لوگ انتخابات میں اور سیاستدانوں کی طرف رویے میں کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی بھی جیت جائے ہماری گھٹیا، محروم اور مختصر زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اکثریت طالبان کی حامی نہیں ہے لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی کی بھی جیت ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔ہم ریاست میںامید چھوڑ چکے ہیںکیونکہ حکومت جس ریاست کا اظہار کر رہی ہے وہ اکثریت کے لئے کچھ کرنے میں ناکام رہی ہے۔اپنی ذمہ داریوں کو نجی شعبے کی طرف منتقل کر کے اس نے صرف ایک مراعات یافتہ طبقے کی فلاح کو بڑھوتری دی ہے،،۔ آج ریاست کے تضادات واضح ہو کر عام آدمی کے سامنے آگئے ہیں۔ اس وقت تمام دہشت گرد گروہوں کی جڑیں ریاست میں ہیں اور ریاست خود دہشت گردی کی حمایت کرتی رہی ہے۔ پختونخواہ میں محروموں کا قتل عام جاری ہے اور جو مسئلہ ادھر ابھارا جا رہا ہے وہ اس طرح ہے نہیں جس طرح حکمران اور ذرائع ابلاغ پیش کررہے ہیں۔ جس کا عام لوگوں کے بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تنازعہ خود ریاست کا پیدا کردہ ہے۔ لیکن اب یہ تضادات زیادہ گھناو¿نے اور خونریز ہوتے جا رہے ہیں اور کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ آج کے مسلط کردہ دانشوریہ بحث کر رہے ہیں کہ ”گڈگورنس،، کے ذریعے ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ اچھا ہے یا برا تھا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جو ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ فوج نے ہم پر ظلم کیے ہیں‘ فوج نے مارشل لاءلگائے ہیں ‘ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا ہے آج فوج کی مکمل حمایت کر رہی ہے اور تمام لبرل بایاں بازو اور این جی اوز بھی یہی بات دہرا رہے ہیں اور فوج کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج نے اپنے ہی عوام پر ظلم کی انتہا کر دی ہے اور طالبان کے خلاف آپریشن کے نام پرعام لوگوں کا زیادہ قتل عام ہو رہا ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں معصوم لوگوںکا خون بہایا جا رہا ہے جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس ماہ کے ہیرالڈ کا اداریہ یہ کہتا ہے،۔ ۔ ۔ ۔ ”ملک کے شمال میں ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں اس میں اطلاعات کو سب سے بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہات میں سٹریٹجک ماہرین کی عدم موجودگی،گھٹیا رپورٹنگ، فوج کا اطلاعات فراہم نہ کرنے کا کلچر اور سیاسی طبقے میں حقائق طلب کرنے کی اہلیت نہ ہونا شامل ہے۔ بہت ہی کم سوالات پوچھے جاتے ہیں اور ان کے جواب اس سے بھی کم ملتے ہیں۔ تصاویر اور واقعات کی اطلاعات جو کہیں سے برآمد ہو جاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ اصل حقائق کیا ہو سکتے ہیں۔ایسا ہی ایک لمحہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اطہر عباس کی پریس کانفرنس کے دوران آیا جب اناتیس اپریل کی شام اس نے کہا کہ بنیر میں پانچ سو کے قریب عسکریت پسند ہیںاور فوج اس آپریشن میں جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کر رہی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیوں ہوائی طاقت کو استعمال کیاجا رہا ہے جب سات لاکھ آبادی میں صرف پانچ سو مسلح لوگ موجود ہیں۔۔۔ ہوا سے بمباری کرنے کا مطلب ہے کہ” باہمی،،( عام انسانوں کا)نقصان ہو گا اور ہو رہا ہے۔ بعض اوقات لیزر گائیڈڈ اسلحہ بھی غلط نشانے پر جا لگتا ہے اور پاکستانی فوج کے پاس تو وہ بھی نہیں ہیں،،۔ ہماری اطلاعات کے مطابق نو مئی کو تھانہ( مالاکنڈ)میں فوج نے گیارہ معصوم لوگوں کو قتل کیاجن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھے لیکن تمام ٹی وی چینلوں پر کہا گیا کہ دہشت گردوں کو مارا گیا ہے۔ فوج نہ تو طالبان کو قتل کر رہی ہے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہتی ہے۔ امریکی مداخلت بھی ماضی کی نسبت سب سے زیادہ ہے اور اس میں بھی واضح تضادات نظر آ رہے ہیں۔جب زرداری اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے امریکہ جا رہا تھا اسی وقت اوباما نے اس حکومت کے خلاف بیان دے دیا۔ اس کی بنیاد میں خود امریکہ کے داخلی تضادات اور معاشی بحران ہیں جن کی شدت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی ریاست کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ( وزارت خارجہ)پینٹاگان( وزارت دفاع)سی آئی اے اور وائٹ ہاﺅس کے اداروں کی پالیسیوں اور بیانات میں تضادات کھل کر واضح ہوگئے ہیں۔ تمام غیر ملکی سنجیدہ میڈیا پاکستانی فوج پر تنقید کر رہا ہے اور ان کا فوج پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ گزشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا گیا ،”فیصلہ کن طاقت فوج کے پاس ہے جس کے پچھلی تین دہائیوںسے تذبذب‘ دوہرے پن اور عسکریت پسندوں کی کھلی اور خفیہ حمایت نے آج ہمیں اس مقام پر لا کھڑ اکیا ہے،،۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اور دوسرے مذہبی جنونی جتھے جس وحشت اور درندگی سے قتل و غارت گری کررہے ہیں وہ نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ ان کے خلاف ایک مسلح جنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن یہ سمجھنا کہ جس ادارے ( سی آئی اے+ فوج) نے ان کو جنم دیا ہے اس کے ذریعے ان کا خاتمہ ہوسکے گا محض خود فریبی اور دھوکہ دہی ہے۔ پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میںپاک افواج نے خارجی جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ داخلی جنگیں لڑی ہیں۔ موجودہ جنگ ریاست کے اپنے پیدا کردہ جنونیوں اور فوج کے دھڑوں کے درمیان ہے ۔ پہلے انہوں نے امن معاہدہ کیا۔ اس سے پہلے اور اسکے بعد طالبان اور ریاست یہاں کے غریب عوام کے ساتھ جو وحشت ناک سلوک کرتے رہے اس پر حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ تیرہ مئی دو ہزار نو کا ڈ ان لکھتا ہے” معاشی وسماجی نچلی پرتوں سے تعلق رکھنے والے عوام یہ تفریق نہیں کررہے کہ طالبان زیادہ ظالم ہیں یا فوج ‘ حکمرانوں نے ان غریبوں کی کسمپرسی کی کبھی پرواہ ہی نہیں کی اب جب ان کے اپنے مفادات کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا ہے تو تب انہوں نے یہ آپریشن کیا ہے،،۔ لیکن اتنا بڑا آ پریشن کرتے وقت یہ خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ اس آگ اور خون سے دلبرداشتہ ہو کر گھروں سے نکلنے والے لاکھوں افراد کے لیے ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت اور ان کے انخلاءکی اذیتوں میںکمی لانے کا کوئی بندو بست کیا جائے۔ یہ کوئی آسمانی آفت بھی نہیں تھی بلکہ اس نظام کے بحران سے جنم لینے والی حکمرانوں کی پالیسیاں تھیں جن کی ناکامی سے یہاں کے معصوم اور مظلوم عوام پر یہ قہر ٹوٹا ہے۔ حکومت اور ریاست کی ریلیف کی ناکامی کی صورت میں اسی ریاست کی پروردہ بنیاد پرست جماعت الدعوہ اور جماعت اسلامی نے ریلیف کیمپ لگائے ہیں ۔ ان کیمپوں میںمذہبی بنیاد پرستی( جس کے خلاف جنگ کا دعویٰ کیا جارہا ہے) مزید پروان چڑھے گی! ملک میں ان جماعتوں کی حاصل کردہ ریلیف کی رقوم کا استعمال کیا ہوگا؟ اس کا جواب پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کی حالیہ تاریخ جانتے ہوئے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ فوج اگر چند مشہور جنونی ملاﺅں کو مار بھی رہی ہے لیکن ریاست اسلامی بنیاد پرستی کے ہتھیار کو انقلابی تحریکوں کے خلاف ایک رجعتی درندگی کے اوزار کے طور پر کبھی ختم نہیں ہونے دے گی۔ مشہور جرمن جنرل کلازوٹز نے کہا تھا کہ”جنگ انسان کی سب سے غیر یقینی کاروائی ہے--- اس لئے کچھ بھی ہوسکتاہے،،۔ اس آپریشن کے دورانیے کی مختلف قیاس آرائیں ہورہی ہیں۔لیکن یہ جتنا طویل ہوگا اتنا ہی غیر موثر اورناکام ہوگا۔ اگر یہ جلد ختم بھی ہوجاتا ہے تو پھر بھی بحران ختم نہیں ہوگا۔ دہشت گردی اور عدم استحکام کی صورت میں یہ بحران ابھرتا رہے گا۔ کیونکہ اس کی اصل وجہ غربت‘ بے روزگاری‘ بیماری اور ناخواندگی ہیں۔ موجودہ نظام میں ان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کا حل کیا ہے ؟ یقینا بورژوازی کے پاس اس کا کوئی حل دور دور تک موجود نہیں اوران کے تما م حل اس مسئلے کی شدت میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ ہر طرف مایوسی کا تنا ظر ہے ۔ میڈیا کے مطابق دائیں اور بائیں کی تفریق ختم ہو چکی ہے ۔ در حقیقت اب سرمایہ داری کے زوال کے باعث اصلاح پسندی اور قدامت پرستی کی پالیسیوں کے درمیان بحث ممکن نہیں رہی۔ ان کی تفریق ختم ہوئی ہے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش جاری رہے گی۔ ہمیشہ انقلاب اور رد انقلاب ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔ اگر رد انقلابی قوتیں سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائیگی تو انقلابی طاقتوں کے مضبوط ہونے اور آگے بڑھنے کے امکانات بھی موجود ہیں اور انہیں بھی سماج میں ابھر کر کامیابی کے مواقع ملیںگے۔ ایک اور تناظر جو حکمران فکر کی غمازی کرتا ہے وہ پاکستان کے ٹوٹنے کا ہے اور ہر شخص یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا پاکستان ٹوٹ جائے گا؟کسی بھی ملک کی ٹوٹ پھوٹ اور نئے ممالک کے بننے کا ہمیشہ حکمران طبقات کو فائدہ ہوتا ہے۔ یوگو سلاویہ اور بلقان کے علاقے میں نئے ممالک بننے کا فائدہ امریکی سامراج اور وہاں کے حکمران طبقات کو ہوا ہے۔ اسی لئے مارکسی محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔پاکستان کے ٹوٹنے کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دفعہ اگر کوئی ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو اس کے سامنے انیس سو اکہتر کی خونریزی بچوں کا کھیل لگے گی۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس ٹوٹ پھوٹ سے پہلے ایسے مواقع ضرور آئیں گے جب محنت کش طبقہ اپنی یکجہتی اور طاقت کا اظہار کرے گا اور پورے برصغیر اور جنوبی ایشیا کے محنت کشوں کو جوڑنے اور جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن بنانے کی طرف آگے بڑھے گا۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے باعث معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور کالے دھن کی معیشت واضح برتری حاصل کر چکی ہے۔ دو ہزار ایک کے بعد سے منشیات کی تجارت میں ایک سو اسی فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ عالمی کساد بازاری کا پاکستان کی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی بڑی سرکاری معیشت ہے ہی نہیں تھی جس پر کوئی اثر پڑتا۔ بربادیوں کو مزید کتنا برباد کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کا بینکنگ کا اور جائیداد کی خرید و فروخت کا شعبہ اس لئے بڑے بحران کا شکار نہیں ہوا کیونکہ یہاں ان شعبوں کی بنیاد کالا دھن ہے۔ پاکستان کی معیشت کی اصل بنیادیں بہت کمزور ہیں اور ان بنیادوں میں سے بھی کلیدی شعبہ ٹیکسٹائل کا ہے جس کا انہدام ہو رہا ہے۔حکومت کے پاس واحد حل نجکاری ہے اور سوات آپریشن کے پردے میں پاکستان کی سب سے بڑی نجکاری کی جا رہی ہے۔ اس میں سب سے بھیانک نجکاری زمینوں کی ہو رہی ہے۔ دوسرے خطوں کے علاوہ بھکر اور کلور کوٹ کے علاقے میں قطر کے حکمران دس لاکھ ایکڑ اراضی کاشت کے لیے خرید رہے ہیں جس سے پچیس ہزار دیہات متاثر ہوں گے اور ایک نیا بحران جنم لے گا۔ اس نجکاری سے بھی معیشت کو سنبھالا نہیں دیا جا سکے گا اور یہ مزید دیوالیہ پن کی جانب بڑھے گی۔ پانی کی قلت غریب دہقانوں کے لیے تباہ کن ہوجائے گی۔ شوکت عزیز کے دور میں معاشی ترقی کی رفتار سات فیصد تھی اس میں بھی غربت اور مہنگائی میں جو اضافہ ہو رہا تھا یہاں کے عوام جانتے ہیں کہ اس شرح ترقی نے غربت اور ذلت میں مزید اضافہ کیا تھا۔ لیکن اب اگلے سال کے لئے ترقی کی شرح کا ہدف دو اعشاریہ چار فیصد ہے جبکہ اکنامک ریویو کے مطابق ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کا ہدف حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔ اس تمام بدحالی کے باوجودمحنت کش طبقے نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے ۔ قادر پور گیس فیلڈ میں نجکاری کیخلاف جنگ میں محنت کش طبقہ ایک طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ اس وقت بھی اساتذہ کی جدوجہد تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ حبیب بینک کے برطرف کیے گئے ملازمین بھی اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پی آئی اے کے پائلٹ بھی ہڑتال کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس سال یوم مئی پر ہونے والے تاریخی مظاہرے ، جلسے اور ریلیاں محنت کش طبقے کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کا ثبوت ہیں ۔ یہ چھوٹی چھوٹی تحریکیں واضح کرتی ہیں کہ اس بد ترین معاشی زوال میں جہاں بھی کہیں ٹھہراو¿ آئے گا وہاں پر ایک بڑی عوامی تحریک ابھرنے کے امکانات موجود ہیں۔ جلد یا بدیر عوامی نفرت کا یہ لاوا اپنی پوری شدت سے پھٹے گا اور اس نظام کی غلاطت کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ سوات ‘مالاکنڈ اور دوسرے کارزار کے علاقوں میں انقلابی نوجوانوں نے ”انقلابی دفاعی اور ریلیف کمیٹیاں تشکیل دینی شروع کی ہیں۔ محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی پر مبنی یہ کمیٹیاں نہ صرف طالبان کے مظالم کا منہ توڑ جواب دیں گی بلکہ فوج کی ریشہ دوانوں کےخلاف بھی مزاحمتی تحریک ابھاریں گی۔ وہ ریلیف کے نام پر کاروبار اور دوسرے مفادات حاصل کرنے کے عمل کو روک کر یہ بھی یقینی بنانے میں برسرپیکار ہیںکہ اصل مستحق متاثرین کو ان کے عذابوں سے نکالا جائے اور ہر قسم کی جعل سازی اور امداد کو کاروبار بنانے کے عمل کو تلف کیا جائے۔ ایک بڑی تحریک سے پہلے اس وقت چھوٹی چھوٹی تحریکیں مختلف جگہوں پر موجود ہیں جن میں ایک متبادل کی تلاش موجود ہے۔ لیکن یہ متبادل ایک دن میں وجود میں نہیں آئے گا بلکہ ایک لمبے اور مسلسل عمل کے نتیجے میں بنے گا ۔ آج مارکسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس متبادل کی تعمیر کے عمل کو تیز کریں اور محنت کش طبقہ جس تلاش میں سر گرداں ہے اور معروضی حالات جس قیادت کا تقاضا کر رہے ہیں اسے ایک انتھک جدوجہد کے ذریعے منظر عام پر لائیںاور درست نظریات اور طریقہ کار کے ذریعے ان تمام مسائل کے حل ۔۔۔ایک سوشلسٹ انقلاب کی منزل کو عوام کے قریب کریں۔