پاکستان کا موجودہ بحران اور پیپلز پارٹی

Urdu translation of The present crisis and the Pakistan People’s Party (November 11, 2008)

 

لال خاں،07.11.2008۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ آج پاکستان اپنے بد ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی سماجی بدحالی اور پشتونخواہ اور شمال مغربی سرحد پر خانہ جنگی کی صورتحال بھی موجودہے۔ پاکستان میں خود کش بم دھماکوں کی تعدادعراق اور افغانستان سے زیادہ ہے۔ ریاست اور فوج میں دراڑیں نظر آرہی ہیں اور مختلف دھڑے جو مالیاتی سرمائے کے مخالف گروہوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اس خونی جنگ میں پوری طرح شریک ہیں۔ یہ مختلف سیاستدانوں کے بیانات میں واضح نظر آرہا ہے۔ مسلم لیگ ،، نواز ،، کی قیادت میں روایتی دایاں بازو اسے ’ان کی‘ ،،یعنی امریکہ کی،، جنگ قرار دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت امریکی اشاروں پر آنکھیں بند کر کے عمل پیرا ہے اور اسے ’ہماری‘(یعنی پاکستان کی) جنگ قرار دے رہی ہے۔حال ہی میں پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ ان کیمرہ اجلاس میں ایک قومی سلامتی کی پالیسی ”اتفاق رائے“ سے تیار کی گئی۔یہ ایک اور بوسیدہ سمجھوتہ ہے جو اپنے عملدرآمدکے پہلے لمحے ،،اگر عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو،، پر ہی بکھر جائے گا۔ پچھلے چند ماہ میں بہت سے ایسے معاہدے اور حلف بنا کسی افسوس کے توڑ دئے گئے ہیں۔ پچیس اکتوبر دو ہزار آٹھ کے شمارے میں اکانومسٹ لکھتا ہے،، پاکستان کے اعلیٰ فوجیوں اور سیاستدانوں میں اس بات پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں کہ جنگ کیسے لڑی جائے۔اس ماہ پارلیمنٹ کو فوج کی طرف سے بند کمرے میں بریفنگ دینے کے بعداختلافات کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔ اسی ہفتے پارلیمنٹ نے ایک قراردادمنظور کی ہے جس میں انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی گئی ہے©۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرضے اور دیوالیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشی محاذپر ملک کو قرضوں کی مد میں دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے اور بورژوازی کے معاشی ماہرین مدد کے لئے امریکہ ، چین، یورپ اور سعودی عرب بھاگ رہے ہیں تاکہ انہیں کسی بھی طرح فوری طور پر دس سے پندرہ ارب ڈالر مل جائیں اور وہ معاشی بربادی سے بچ سکیں۔ اس طرح وہ ایک،، ناکام ریاست‘کے لیبل سے بچ جائیں گے۔ آخر کار وہ اپنے بچاو¿ کےلئے آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔ لیکن اس دفعہ آئی ایم ایف کے قرضے کے لئے ایسی شرائط رکھی ہیں جن کی مثال اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ابھی تک سامراج کے خوف سے طلباءیونین اور مزدور یونین کی بحالی کے کمزور دعوے بھی پورے نہیں کر سکی۔ مندرجہ ذیل رپورٹ جو انگریزی روزنامے،، دی نیوز،، میں چھپی ہے اس معاہدے کو بے نقاب کرتی ہے جو آئی ایم ایف کے اہلکاروں اور پاکستانی حکومت کے درمیان دبئی میں طے پانے جا رہا ہے۔ اگر پاکستان دبئی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی شرائط مان لیتا ہے تو اسے اپنے دفاعی بجٹ میں تیس فیصد کمی کرنا پڑے گی،یہ بات ہمارے نمائندے نے ایک دستاویز دیکھنے کے بعد بتائی۔ انتہائی سخت شرائط پر پاکستان کو اگلے تین سالوں میں آئی ایم ایف کی طرف سے نو اعشاریہ چھ ارب ڈالر ملیں گے جن پر سولہ اعشاریہ سات فیصد سالانہ مارک اپ ہو گا۔ دستاویز کے مطابق اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لیتا ہے تواسے پنشن والی نوکریاں ساڑھے تین لاکھ سے کم کر کے ایک لاکھ بیس ہزار کرنا ہوں گی۔آئی ایم ایف فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ذریعے نئے ٹیکس لاگو کرے گااور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں پچاس ارب روپے کے ٹیکسوں کا اضافہ کیا جائےگا۔ گندم کی پیداوار پر سات فیصد زرعی ٹیکس جبکہ دوسری فصلوں پر تین اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ دستاویز کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیوآئی ایم ایف کے اسلام آباد آفس میںجائزے کے لئے تمام بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوںکی سہ ماہی رپورٹ باقاعدگی سے جمع کروائے گا۔ دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف کا نمائندہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے انتظامی امور کا حصہ ہو گا اور جنرل سیلز ٹیکس کے حصول پر نظر رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کے دفاتر تمام صوبائی دارلحکومتوں میں قائم کئے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف کے چھ اور ورلڈ بینک کے دو ڈائریکٹر وزارت خزانہ میں سالانہ بجٹ کی تیاری کا جائزہ لیں گے۔ وہ بجٹ کے لئے تجاویز دیں گے اور حکومت پاکستان ان تجاویز کو ماننے کی پابند ہو گی۔ اس قرضے کی ستاویزات پر دستخط کرنے سے آڑتالیس سے پہلے تک حکومت پاکستان ان تمام قرضوں کی تفصیل آئی ایم ایف کو فراہم کرے گی جو اس نے چین سمیت دوسرے ممالک سے حاصل کئے ہیں۔اس کے علاو ہ حکومت کے پچیس فیصد اثاثہ جات اس قرضے کی سکیورٹی کے لئے آئی ایم ایف کی ملکیت میں دئے جائیں گے۔ دوسری سخت شرائط میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میں آئی ایم ایف کی مداخلت ، غیر ملکی زر مبادلہ کی تفصیلات اور بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم کی تفصیل اور دوسرے کمرشل بینکوں کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدو رفت پر نظر رکھنا شامل ہے۔اس نمائندے کی تمام کوششوں کے باوجود کوئی بھی پاکستانی یا آئی ایم ایف کا افسر اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لئے موجود نہیں تھا۔©©،،دی نیوز، اسلام آباد، چو بیس اکتوبر دو ہزار آٹھ،،۔ اکانومسٹ آئی ایم ایف کے اس بیل آو¿ٹ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے،، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم ملک ، پاکستان کو معاشی دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ آئی ایم ایف کی مدد انتہائی سخت شرائط کے ساتھ آئے گی۔ دفاعی اور ترقیاتی اخراجات شاید ختم کرنے پڑیں۔ نہ ہی فوج خوش ہوگی اور نہ ہی عام آدمی،، پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے گزشتہ سات ماہ میں عوام کی حالت زار میں تیز ترین گراوٹ آئی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ دیہاتی اور شہری علاقوں میں سو لہ سے بیس گھنٹے تک ہو گئی ہے جبکہ اس کی قیمت میں چھالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اگلے چند ماہ میں اسے اکہتہر فیصد تک لے جانے کا ٹارگٹ ہے۔ تیل اور خوراک کی اشیاءکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کی اکسٹھ سالہ تاریخ میں غربت ، بیروزگاری اور غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں سات کروڑ ستر لاکھ لوگوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت آٹھائیس فیصد زیادہ ہے۔ بجلی کے بحران کے خلاف مظاہروں کی شدت میںاضافہ ہو رہا ہے اور لوگ اپنے بل جلا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی بیگانگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ساری صورتحال میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے عوام کی حالت زار سے بے رخی اپنا رکھی ہے اور اسکے رویے سے ظاہرہوتا ہے کہ اسے عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ابھی تک مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اہم وزارتوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں ۔مسلم لیگ(نواز)کے جانے بعد اب مخلوط حکومت میں ایم کیو ایم(نسل پرست فاشسٹ)، جمعیت علمائے اسلام(اسلامی بنیاد پرست)اور اے این پی (بورژوا پشتون قوم پرست) شامل ہیں۔ زرداری صدر پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے ساتھ مشترکہ طور پر پیپلز پارٹی کا چئیر مین بھی ہے۔ یوسف رضا گیلانی جواس ضیاءالحق کا سابقہ وزیر ہے جس نے بھٹو کو پھانسی دی تھی، اس وقت ملک کا وزیر اعظم ہے۔آٹھارہ فروری کے انتخابات میں عوام نے ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت میں ووٹ ڈالے تھے جیسا کہ ہمیشہ ان کی سیاسی جدوجہد کی روایت رہی ہے۔ عوام نے دراصل اپنی تکلیفوںسے چھٹکارا پانے کی ایک اور کوشش کی تھی۔ آج پیپلز پارٹی کے تمام دفاتر میں اس کے حامیوں کی بھیڑ ہے جن کے پاس ’فائلوں‘ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔لیکن اب اس بھیڑ میں بتدریج کمی ہو رہی ہے اور لوگوںپر مایوسی چھا رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تکلیفیںاتنی بڑھ رہی ہیں کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دوسرے مسائل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شامل ہونے پر مجبور ہیں۔ یہ مظاہرے زیادہ اشتعال انگیز ہوتے جارہے ہیں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ مظاہرے بکھرے ہوئے اور غیر منصوبہ بندہیں کیونکہ دایاں بازو انتہائی کمزور ہے اور اس نے زرداری کے ساتھ مفاہمت کر رکھی ہے جبکہ بائیں بازو پر کوئی ایسی طاقت نہیں جو انہیں قیادت اور راہنمائی فراہم کر سکے۔ جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالے نہ صرف وہ پریشان ہیں بلکہ پارٹی کے اپنے کارکنان میں بھی بد دلی اور بد گمانی بڑھ رہی ہے۔ گو کہ بہت سے کارکنوں کو سرکاری عہدے دیے گئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹھیکے دیے گئے ہیں لیکن اس وقت معیشت میں اتنی گنجائش نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں کارکنوں کو کچھ دیا جا سکے۔بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے رکھے جانے والے فنڈ پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔اس فنڈ کو موجودہ حکومتی اخراجات اور قرضے واپس کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔پچھلے حکومت میں شروع کئے جانے والے ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔اس وجہ سے عوام کی زندگی کی اذیتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیپلزپارٹی کی صفوں میں دباو¿ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر پیپلز پارٹی کی صفوں میں بے چینی پھیل رہی ہے اور کارکنان کا دباو¿ بڑھ رہا ہے۔ زرداری اور پیپلز پارٹی کی عوامی حمایت ، جو کچھ عرصہ پہلے تک بہت زیادہ تھی، اب بہت کم رہ گئی ہے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق اب زرداری کی حمایت صرف اکتیس فیصد ہے۔ اس وجہ سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں کے لئے انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہوتی ہے جب وہ ان ظالمانہ پالیسیوں کا نہ تو دفاع کر سکتے ہیں اورنہ ان کی صفائی میں کچھ کہہ سکتے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں وہ عام لوگوں سے بچنے اور چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صرف ٹریڈ یونین اشرافیہ،دکانداراور درمیانے طبقے کے کاروباری اور وہ حصے جن کے پاس کچھ ”مال“ ابھی بچا ہوا ہے وہی پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں میں شریک ہو رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے صورتحال مختلف تھی۔ اس صورتحال کے باعث باشعور کارکنان اور نوجوانوں پر دباو¿ بڑھا رہا ہے اور وہ نہ صرف پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت کے خلاف بغاوت کے موڈ میں نظر آرہے ہیں بلکہ از خود پیپلز پارٹی کے خلاف بغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے اقتدار کے دور میں ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ لیکن اس دفعہ صورتحال پہلے کی نسبت بہت زیادہ خراب ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جسے عوام کی خراب ہوتی ہوئی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن اپنی تیزی سے گرتی ہوئی سیاسی اور سماجی ساکھ سے پریشان ہے۔اس لئے وہ اپنے نامزد پارٹی ڈھانچے پر زیادہ سختی سے کنٹرول کر رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی بائیں بازو کی مخالفت کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں کچھ ناراض لوگ نظر آتے ہیں لیکن اس ناراضگی کی وجہ اہم وزارتوں اور حکومتی عہدوں کا نہ ملنا ہے۔ لیکن زرداری ان کو کسی نہ کسی طریقے سے خریدنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔اور وہ لوگ بک چکے ہیں۔ زرداری نے اپنی طاقت مختلف حربوں اور سامراج کی مکمل غلامی کے بعد حاصل کی ہے اور اب وہ پاکستان کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔نواز شریف زیادہ دور نہیں اور وہ چوتھے نمبر پر ہے۔لیکن زرداری کی سیاسی طاقت اس کے مالیاتی اثاثوں کی طرح مستحکم نہیں۔بلکہ عالمی مالیاتی اور معاشی بحران میں دولت کے یہ ذخائر بھی قابل اعتبار نہیں ۔ فوج بھی اس سے خوش نہیں۔ زرداری جیسے ماضی کا حامل ،، کمانڈر انچیف،، فوجی جرنیلوں کے لئے زیادہ خوشی کاباعث نہیں۔لیکن امریکی سامراج ان پر مداخلت نہ کرنے کا دباو¿ ڈال رہاہے۔ امریکہ یہ سب ایک ایسے ملک میں کرنا چاہتا ہے جس کی نصف تاریخ فوج کی براہ راست حکمرانی سے عبارت ہے۔ لیکن نچلی اور درمیانی سطح کے فوجیوں میں صورتحال بہت اشتعال انگیز ہے اور اس ابلتی ہوئی نفرت کو ڈھانپناامریکہ اور فوجی جرنیلوں کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ زرداری اور اس کے درباریوںکی تمام عیاشیوں اور اقتدار کے پر تعیش ایوانوں میں چلنے والی تمام محفلوں کی وجہ سے نیچے سے نفرت کا لاوا بھڑک رہا ہے جس کی وجہ سے دائیں بازو جس کی قیادت نواز شریف کر رہا ہے،کو کسی حد تک مواقع ملے ہیں ۔ نواز شریف کی جماعت اسلامی جیسی بھیانک بنیاد پرست جماعت میں بھی حمایت موجود ہے۔ اگر دایاں بازو حکومت میں آتا ہے تو وہ کتنا عرصہ حکومت کر پائے گا یا پھر ایک فوجی آمریت کتنا عرصہ گزار سکتی ہے اور اس نظام کو لگی گھن کو کتنی دیر تک روک سکتی ہے۔وہ اس گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ شاید زیادہ نہیں کر سکتے۔ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور زرداری کے دست راست واجد شمس الحسن نے ایک اخبار میں چھپنے والے مضمون میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کوان لوگوں سے اتنا بڑا خطرہ نہیں جنہیں اعلیٰ عہدے نہیں ملے بلکہ اسے سب سے بڑا خطرہ مارکسسٹوں کی موجودگی سے ہے۔ درحقیقت پیپلز پارٹی کی قیادت نے بائیں بازو کو پارٹی سے نکالنے کی پوری کوشش کی ہے۔انہوں نے پرانے بائیں بازو کو ہر طرح سے استعمال کیا ہے اور مارکسسٹوں کو عہدے اور مراعات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرانے ، دھمکانے اور جبر کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارکسسٹوں کا کردار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ اس محاذ پر بھی پیپلز پارٹی کی اس قیادت کو شکست ہوئی ہے۔ بلکہ ان علاقوں میں جہاں پیپلز پارٹی کی نظریاتی اور سیاسی سرگرمی ہو رہی ہے وہاں مارکسسٹ آگے بڑھے ہیں۔ کوئٹہ ، کراچی، ملتان اور پیپلز پارٹی پنجاب ایگزیکٹو میں حالیہ دنوں میں ہونے والی مداخلت میںانہوں نے ایک واضح انقلابی مو¿قف کے ذریعے نوجوانوں اور محنت کشوں کے دلوں پر اثر کیا ہے۔مارکسسٹوں نے یہ عہدے پیپلز پارٹی میں نیچے سے انقلابی پروگرام رکھتے ہوئے حاصل کئے ہیں۔ مارکسسٹ آج بھی درست سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں اور قیادت کی غلط پالیسیاں اور باشعور نوجوانوں اور محنت کشوں کادباو¿ انہیں صحیح رستے سے بہکا نہیں سکا۔ وہ عوام کے ساتھ مستقل مزاجی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور لینن کے اس قول پر عمل پیرا ہیں،، صبر، مسلسل، مستقل،،۔ مارکسسٹوں کو پہلی بار اس چیلنج کا سامنا نہیں ۔ وہ اس عوام کو زرداری اور اس کے درباریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جا سکتے جن کی ابھی بھی امیدیں ، گو کہ اب بہت کم، باقی ہیں۔ ایک متبادل نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے پاس کوئی اور رستہ نہیں۔پیپلز پارٹی کی تمام نامزد قیادت میں اس وقت سوشلزم ایک ممنوع لفظ ہے۔ گو کہ پیپلز پارٹی کا جنم1968-69ءکی انقلابی تحریک کے دوران ہوا تھا اور اس کی بنیاد اس کا سوشلسٹ پروگرام تھا جس نے اسے یہاں ایک روایت بنایاتھا ۔ اس کی قیادت نے سوشلسٹ پروگرام کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کے ایک بڑے حصے کے ابھی تک اس پارٹی میں ابہام موجود ہیں جو اسے اپنی زندگی کی اذیتوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔عام حالات میں عوام بظاہر آسان رستہ اختیار کرتے ہیں۔لیکن تجربات اور تاریخی واقعات انہیں انقلابی رستے پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔لینن اپنی کتاب ”بائیں بازو کا کمیونزم-ایک طفلانہ بیماری“ میں اس موضوع پر لکھتا ہے، ،، اگر آپ ’عوام‘ کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور عوام کی ہمدردیاں اور حمایت جیتنا چاہتے ہیں، تو آپ کو مشکلات، تکلیفوں،بے عزتی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی قیادت کی جانب سے نکالے جانے کا خوف(جو قیادت موقع پرست اور سوشل شاونسٹ ہونے کی وجہ سے بلواسطہ یا بلاواسطہ پولیس اور بورژوازی کے ساتھ ملی ہوتی ہے)، لیکن اس جگہ کام کریں جہاں بھی عوام موجود ہوں،،۔ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک فوجی آمریت کے ساتھ اکھاڑا جاتا ہے یا دائیں بازو کی جماعتیں اس کی جگہ لیتی ہیں تو پیپلز پارٹی واپس اپوزیشن میں آجائے گی۔اگر موجودہ بحران کی گہرائی کا اندازہ لگائیں تو یہ صورتحال زیادہ دور نہیں۔لیکن جب پیپلز پارٹی حکومت میں ہے پارٹی کے اندر ایک خاطر خواہ اختلاف موجود ہے۔ حادثات ہو سکتے ہیں اور جیسا کہ اینگلز نے کہا تھا کہ وہ ایک ناگزیر ضرورت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اس صورتحال میں کوئی اور حادثاتی شخصیت انقلابی نعروں اور تقریروں کے ساتھ سامنے آسکتی ہے۔زرداری کو اپنی بیوی کی پارٹی تو وراثت میں مل گئی ہے لیکن وہ اس کی اتھارٹی حاصل نہیں کر سکا۔اوراس کے نام کے ساتھ ”بھٹو“ بھی نہیں لگتا، جو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بہت اہم ہے۔ مارکسسٹ پیپلز پارٹی میں گم نہیں ہو جاتے۔ہم زرداری اور اس کے حواریوں کے ساتھ نہیں پہچانے جاتے۔ وہ مزدور دشمن پالیسیاں لاگو کر رہے ہیں اور بہت سے دیانتدار پارٹی کارکنوں کو مایوس کر رہے ہیں اور خاس طور پر اس محنت کش طبقے کو جو پارٹی کی حمایت کرتا ہے۔ان حالات میں مارکسسٹ اپنے کام میں انتہائی لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مارکسسٹ پیپلز پارٹی کے اندر کام کرتے ہوئے ،، بہت صبر،، سے اپنے پروگرام کی وضاحت کررہے ہیںلیکن اس کے ساتھ ہی وہ پی ٹی یو ڈی سی اور بی این ٹی کے پلیٹ فارم سے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔ہم ہر اس جگہ کام کریں گے جہاں عوام موجود ہوں گے۔ مارکسسٹ عوام کی ہربائیں بازو کی روایت کو آزمائیں گے۔ہم ہر اس رستے پر چلیں گے جو پرولتاریہ اور انقلابی نوجوانوں تک جاتا ہے۔مارکسسٹوں کا حتمی مقصد ایک عوامی انقلابی طاقت کو تعمیر کرنا ہے۔خاص طور پر اس وقت جب پیپلز پارٹی کی حکومت مزدوروں کے خلاف بد ترین پالیسیاں لاگو کر رہی ہے۔اسکے خلاف ابھرنے والی عوامی مزاحمت میں مارکسسٹوں کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔ حالیہ مداخلت ثابت کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی صفوں کے اندر اور عوام میں ان نظریات کی پیاس موجود ہے۔یہ مداخلت پیپلزپارٹی کی بنیادی دستاویزات اور انیس سو ستر کے انقلابی منشور پر مبنی تھیں۔ان دستاویزت میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ بحرانوں کی شدت، بے یقینی کی کیفیت اور موجودہ قیادت کے حقیقی کردار کے بے نقاب ہونے کے ساتھ ساتھ اس تبدیلی میں اضافہ ہو گا۔ ساتھ ہی مارکسسٹوں کو پیپلز پارٹی میں علیحدہ شناخت کے ساتھ ابھرنا ہو گااور وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے عوام کے خلاف حملوں میں معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنا سکتے۔پیپلز پارٹی کے باہر کی جدوجہد پیپلز پارٹی کے اندر کام کو تقویت دے گی۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے اندر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کی گونج پیپلز پارٹی کی حدود سے باہر بھی سنائی دے گی۔ آنے والے طوفانوں میں پیپلز پارٹی کے اندر بہت سے تضادات اور اختلافات ابھریں گے۔ دائیں بازو اور بنیاد پرستی کے ابھار اور حملوں میں مارکسسٹوں کو یونائیٹد فرنٹکا طریقہ اختیار کرنا ہو گا جس میں وہ پیپلز پارٹی کے اندر محنت کشوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین اور نوجوانوں اور محنت کشوں کی روایتوں کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اگر مارکسسٹ ایک مناسب مقداری اور معیاری قوت تعمیر کر لیتے ہیں توصورتحال بہت مختلف ہو گی۔1968-69ءکے خطوط پر ایک نئی تحریک جب پیپلز پارٹی ایک انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں روایت بنی تھی ، اس وقت مختلف ہو سکتی ہے اگر ایک مارکسی انقلابی متبادل وقت پر تعمیر ہو جائے ۔ اس دفعہ ہم انقلابی تحریک کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔یہ ایک سوشلسٹ فتح کا رستہ ہموار کرے گا۔ہم نے الٹر الیفٹ ازم اور موقع پرستی سے پہلے بھی جنگ لڑی ہے اور اسے شکست دی ہے۔ہم ایک بار پھر ایسا کریں گے۔ہم اپنا رستہ تبدیل کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔

 

Source: Chingaree.com