کورونا ویکسین اور دوا ساز کمپنیوں کی منافع خوری

کورونا ویکسین کی مختلف اقسام کے دھیرے دھیرے گردش میں آنے سے کروڑوں عوام کے لیے امید کی کرن جاگ اٹھی ہے، جنہوں نے وباء کی وجہ سے سال کا زیادہ تر حصّہ بظاہر نہ ختم ہونے والی عمر قید میں گزارا ہے۔ دوا ساز سرمایہ داروں کے لیے صحت جیسی بنیادی سہولیات (جس کی ترقی عوام کے پیسوں سے ممکن بنائی جاتی ہے) کسی کھلی تجوری سے کم نہیں، جس کو لوٹنے کا کوئی بھی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کے ساتھ ساتھ سامراجی قوتوں کی ذخیرہ اندوزی اور بڑی دوا ساز کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس کی وجہ سے دنیا کے غریب ترین حصوں میں ویکسین کی رسائی ممکن نہیں ہو پاتی۔


[Source]

متعدد ویکسینوں کو تیسرے مرحلے کی جانچ میں کامیابی کے بعد منڈی میں داخلے کی اجازت ملی ہے، جس میں بڑی امریکی دوا ساز کمپنی فائزر (Pfizer) اور اس کی جرمن شراکت دار بائیو این ٹیک (BioNTech) اور چینی کمپنی سینوواک (Sinovac) کی ویکسین شامل ہے۔ برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرا زینیکا (AstraZeneca) کی مشترکہ ویکسین اور امریکی شہر بوسٹن میں مقیم ادارہ موڈیرنا (Moderna) کی ویکسینوں نے بھی تیسرے مرحلے کی جانچ میں اچھے نتائج حاصل کیے ہیں جو عنقریب منظوری کے بعد منڈی میں داخل ہوں گی۔

ان مسلسل کوششوں سے کامیاب ویکسین کی فوری ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے تقریباً ہر ایک ملک میں سیاسی قائدین وباء کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ عالمی اموات 20 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام بد ترین تاریخی بحران کا شکار ہے۔ کئی ممالک کے اندر کرسمس اور نئے سال کی چھٹیوں کے پیشِ نظر نئے سرے سے لاک ڈاؤن لگائے جا رہے ہیں، خصوصاً برطانیہ میں جہاں وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آئی ہے جو زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔

قوت مدافعت کے چکر میں بے تحاشہ جانوں کے ضیاع سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن ہی واحد حل ہے۔ نتیجتاً دنیا کی بڑی معیشتوں کے حکمران طبقات کامیاب ویکسین بنانے کی جدوجہد میں لگ چکے ہیں، تاکہ پیداوار کو معمول پر لایا جا سکے اور منافعے پھر سے جاری ہو سکیں۔

دوا ساز کمپنیاں شروعات میں انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال کے باوجود سُستی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ پوری تاریخ میں ویکسین کے معاملے میں منافعوں کو اتنی ترجیح نہیں ملی ہے، خاص کر وباء کے دور میں۔ نئی ویکسین کی دریافت کا عمل سست ہوتا ہے، نتائج کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، اور غریب ممالک کو اکثر بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جسے خریدنے کی سکت وہ نہیں رکھتے۔ اس کے بر عکس فیشن کے متعلق اور جنسی ادویات (جیسا کہ Viagra) کمائی کا اچھا ذریعہ ہوتا ہے جو مالدار ممالک میں مشہور ہوتی ہیں۔

جب دوا ساز سرمایہ دار، سرمایہ کاری کے متعلق فیصلے کرتے ہیں تو وہ زندگیوں کو کبھی بھی مد نظر نہیں رکھتے بلکہ ان کی اولین ترجیح منافعے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر زیکا کے لیے کوئی ویکسین تیار نہیں کی گئی جبکہ ایبولا کی ویکسین کی منظوری دسمبر 2019ء میں کہیں جا کر دی گئی، کیونکہ یہ بیماریاں زیادہ تر دنیا کے غریب ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ سارز CoV-01 پر تحقیقات اسی وجہ سے بند کی گئی تھیں کیونکہ اس میں منافع نہیں تھا، جس کی وجہ سے COVID-19 پر کی جانے والی تحقیقات بھی متاثر ہوئی ہیں۔

نقصان سب کا، منافع کچھ کا

مگر جیسے ہی کورونا وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے بحران شدید ہونا شروع ہوا، سرمایہ دار حکومتوں نے ویکسین کی تیاری میں مدد کے لیے بڑی دوا ساز کمپنیوں پر اربوں روپے خرچ کرنے شروع کر دیے۔ تب کہیں جا کر ویکسین کی تیاری کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ موڈیرنا کو ٹرمپ کے جاری کردہ پروگرام ’آپریشن وارپ سپیڈ‘ کے تحت 2.5 ارب ڈالر دیے گئے۔ جبکہ فائزر اور بائیو این ٹیک کو جرمن حکومت کی جانب سے 44 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، اور یورپین انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے 11 کروڑ 80 لاکھ ڈالر امداد فراہم کی گئی۔ فائزر نے اس سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی امریکی حکومت سے امداد نہیں لی ہے۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ اور آسٹرا زینیکا کی ویکسین کو برطانوی حکومت کی جانب سے 8 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈ امداد فراہم کی گئی۔

کورونا ویکسین بنانے کیلئے مختلف ممالک نے مجموعی طور پر 6.5 ارب پاؤنڈ عطیہ کیے ہیں، جن کے علاوہ این جی اوز کے 1.5 ارب پاؤنڈ بھی شامل ہیں۔ ان دیوہیکل عطیات کے علاوہ، اکثر ویکسینوں کو یونیورسٹی یا ریاست کے تحت کی جانے والی تحقیقات کے تحت بھی بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فائزر اور موڈیرنا کی ویکسین میں استعمال کی جانے والی mRNA ٹیکنالوجی امریکی اور جرمن حکومتوں کی لیبارٹریوں میں بنائی گئی ہے۔

جب زندگی بچانے والی ان اہم ادویات کا ایک بڑا حصہ اور اس میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کا انحصار ٹیکس کے پیسوں اور عوامی خزانے پر ہوتا ہے، تو پھر اصولاً تو یہ ہونا چاہیئے کہ عوام کی ان تک رسائی مفت بنائی جا سکے۔ مگر آسٹرا زینیکا کا کہنا ہے کہ وہ محض پیداوار کی لاگت وصول کرے گی، جو آکسفورڈ یونیورسٹی کی دریافت کی ہوئی ویکسین کو بنا کر سپلائی کرے گی، جس کو مکمل طور پر این جی اوز اور ریاستی امداد کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ البتہ پیداوار کی لاگت وصول کرنے کی یہ شرط محض ”وباء کے دور تک“ رہے گا، یعنی مستقبل میں وہ منافعے کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جہاں تک بڑے مگرمچھوں کی بات ہے، وہ اپنی سرمایہ کاری کا بھرپور بدلہ چاہیں گے۔

اگرچہ فائزر اور موڈیرنا نے ویکسین کے متعلق درست معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے (ان کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات، جانچ پڑتال اور ویکسین بنانے کے اخراجات سے نا واقف ہیں)، اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ دو کمپنیاں کورونا ویکسین کی مد میں صرف 2021ء میں 32 ارب ڈالر کمائیں گی۔ یہ موڈیرنا کے شیئر ہولڈرز کے ساتھ ساتھ برطانوی خزانے کے چانسلر رشی سونک کے لیے بھی خوشخبری ہے، جس نے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی تھی۔

مالدار ممالک کے اندر شروعات میں موڈیرنا کا فی کس 50 سے 74 ڈالر تک (دو ضروری ٹیکوں کے لیے) لینے کا ارادہ تھا، جبکہ فائزر فی کس 40 ڈالر لینے کا سوچ رہی تھی۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ ویکسینیں ایک جانب جہاں منافعے کے لیے فروخت کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری جانب یہ انہی ریاستوں کو واپس فروخت کی جاتی ہیں جنہوں نے اس کی تیاری میں امداد کی ہے، جیسا کہ امریکی ریاست، برطانیہ اور یورپ کی ریاستیں لاکھوں کی تعداد میں خرید رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب عوام کی ویکسین تک رسائی ہوگی، اس کے اوپر پہلے سے دو دفعہ خرچ کیا جا چکا ہوگا۔ اس حوالے سے بیلجیم کی وزیر برائے بجٹ ایوا ڈی بلیکر نے ٹویٹر پر ایک راز فاش کیا جب اس نے ویکسین کی قیمتوں کے حوالے سے معلومات ٹویٹ کیں جو یورپی یونین خریدے گا اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ بیلجیم کا ان پر کل کتنا خرچہ آئے گا۔

فائزر کا سی ای او البرٹ بورلا (جس نے تیسرے مرحلے کی جانچ میں کامیابی کے بعد اپنی کمپنی کے 56 لاکھ ڈالر کے اسٹاک خود فروخت کیے) نے اس ”انتہا پسند“ خیال کا مذاق اڑایا کہ کمپنیوں کو کورونا کی ویکسین سے منافعے نہیں کمانے چاہئیں۔ اس نے کہا کہ یہ نجی شعبہ ہی ہے جو کورونا کا مسئلہ حل کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کارپوریٹ ترجمان نے کہا کہ ”ہماری سرمایہ کاری شروع سے خطرے سے خالی نہیں تھی“، کیونکہ فائزر کو اس کا بدلہ محض کامیاب ویکسین بنانے کی صورت میں ملتا۔

مگر در حقیقت یہ عوام ہی تھے جن کی جیبوں سے اس خطرے کا بوجھ اٹھایا گیا۔ سرمایہ داری کے اندر نجی دوا ساز پیداوار کی یہی حقیقت ہے؛ یہ خونخوار ہے، چارہ گر نہیں۔ بڑی دوا ساز کمپنیاں نئی ادویات اور ٹیکنالوجی کے کاپی رائٹ حاصل کرنے میں دیر نہیں لگاتیں جو زیادہ تر ریاستی امداد کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں، وہ حکومتی خزانے کو قابلِ فروخت اجناس تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بھاری بھر کم منافعے کمانے کے لیے اس کی قیمتیں بھی متعین کرتے ہیں۔

امریکی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے 2017ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق ایف ڈی اے (Food and Drug Administration) نے 2010ء اور 2016ء کے بیچ 210 نئی ادویات کی منظوری دی، جو سارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی امداد سے تیار ہوئے، جن کی مجموعی قیمت 100 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ ان ادویات سے حاصل ہونے والے پیسے میں سے ذرا بھی ریاستی تحقیقات کے لیے مختص نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے یہ سارے پیسے ان بڑی دوا ساز کمپنیوں کی جیبوں میں جاتے رہے جنہوں نے اس کا کاپی رائٹ حاصل کیا تھا، جن میں سے کچھ کا منافع ہزار گنا تک بھی پہنچ گیا۔ ان منافعوں کا ایک حصّہ نجی تحقیقات کے شعبوں کو تو دیا جاتا ہے، مگر ان کا ایک بڑا حصّہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پہلے سے موجود ادویات کی تیاری پر لگایا جاتا ہے اور افسران کو بونس کی صورت میں دیا جاتا ہے۔

یہ ان مگرمچھوں کی خود غرضی کی معراج ہے جب یہ ’خطرے‘ کی بات کرتے ہیں، جبکہ عام لوگ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر کام پر جاتے ہیں یا وباء کے دور میں بدحالی کا شکار ہیں۔ جس وباء میں دس لاکھ سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں اور مزید لاکھوں ہو رہی ہیں، اور جس نے لاکھوں افراد کو بیروزگاری اور غربت کا شکار کیا، بڑی دوا ساز کمپنیاں اس وباء کے ذریعے منافعے کما رہی ہیں۔ یہ صورتحال دیکھنے کے بعد مزید جواز کی ضرورت نہیں رہتی کہ اس بوسیدہ شعبے کو محنت کشوں کے جمہوری اختیار میں لینے کی ضرورت ہے۔

غریبوں کیلئے تمام راستے بند

ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ کورونا وباء پوری دنیا کا مشترکہ دشمن ہے، کہ یہ سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتا، اور ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ مگر نجی ملکیت کے طوق اور قومی حدود کی زنجیروں کی وجہ سے غریب ممالک کے کروڑوں لوگ ان انتہائی اہم ادویات تک رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے۔

ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک نے دوا ساز کمپنیوں کو پیسوں کے ڈھیر کچھ شرائط پر دیے ہیں، جس میں ان کی رسائی کو اولین ترجیح دینا شامل ہے۔ امریکی ریاست نے فائزر اور موڈیرنا سے 30 کروڑ ویکسینں خریدی ہیں، اور مزید 80 کروڑ بھی خریدے گی۔ اس کے علاوہ آسٹرا زینیکا، جانسن اینڈ جانسن، نووا ویکس اور سانوفی سے 81 کروڑ ویکسینیں پہلے سے آرڈر کی جا چکی ہیں جن کی تعداد میں 1.5 ارب تک مزید اضافہ ممکن ہے۔ مذکورہ بالا کمپنیوں سے برطانیہ نے 35 کروڑ 70 لاکھ ویکسینوں کا سودا کیا ہے، جس کے علاوہ والنیوا سے 15 کروڑ 20 لاکھ ویکسینیں خریدی جائیں گی۔ انہی کمپنیوں سے یورپی یونین نے بھی 1.3 ارب ویکسینوں کا سودا کیا ہے اور اس کے علاوہ جرمن کمپنی کیور ویک سے بھی 66 کروڑ ویکسینیں خریدی جائیں گی۔

آزاد منڈی میں کورونا ویکسین کی پیداوار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کئی ساری مختلف دوا ساز کمپنیوں نے کورونا ویکسین تیار کرنے کیے عمل کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور خفیہ رکھا۔ چونکہ یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان میں سے کامیابی کس کو ملے گی، چنانچہ مالدار ممالک نے مختلف ویکسینیں خریدنے کا جوا کھیلا۔ ویکسین کی مختلف اقسام خرید کر ذخیرہ اندوزی کرنے سے جہاں ایک طرف کروڑوں غریب لوگ محروم رہ جاتے ہیں، وہاں یہ طریقہ اس لیے بھی غلط ہے کیونکہ ان میں سے بعض ویکسینیں (جیسا کہ mRNA ٹیکنالوجی پر بنائی گئی) کو انتہائی ٹھنڈے خصوصی فریج میں ہی سٹور کیا جا سکتا ہے، جس پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ دوا ساز کمپنیاں کتنی تیری سے اتنے بڑے پیمانے کے آرڈر تیار کریں گی، کیونکہ ویکسین کا تیار ہونا اور تقسیم کرنا ایک مشکل عمل ہے۔

دنیا کے امیر ترین ممالک نے اپنی آبادی سے تقریباً تین گنا زیادہ ویکسینیں خریدی ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا اپنی آبادی کو پانچ دفعہ ویکسین فراہم کر سکتا ہے۔ یہ احمقانہ ذخیرہ اندوزی آنے والے عرصے میں غریب ممالک کے لیے تباہی ثابت ہو سکتی ہے (جو غریب بھی سامراجی ممالک کے ہاتھوں استحصال کی وجہ سے ہوئے ہیں)، جو ویکسین حاصل کرنے کی قطار میں سب سے آخر میں کھڑے ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، آکسفیم اور گلوبل جسٹس ناؤ کے مشترکہ نیٹ ورک ’پیپلز ویکسین الائنس‘ نے اندازہ لگایا ہے کہ 70 غریب ترین ممالک محض 10 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کر پائیں گے۔

غریب ممالک کے بعض امیر ’سخی‘ لوگوں نے ویکسین تک رسائی حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر آدار پونا والا (سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کا سربراہ) نے آسٹرا زینیکا اور نووا ویکس ویکسین کی ایک بڑی تعداد خریدتے ہوئے کہا کہ ”بھارت کو اس لیے ترجیح دینی چاہیئے کیونکہ یہ میرا وطن ہے۔“ اسی طرح میکسیکو کے ارب پتی کارلوس سلم نے لاطینی امریکہ میں آسٹرا زینیکا کی 15 کروڑ ویکسینیں خریدنے کے سودے میں مدد کی۔ بل گیٹس فاؤنڈیشن بھی 92 غریب ممالک کے لیے ایک ارب ویکسینیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مکمل بے ہودگی ہے کہ اربوں لوگوں کی ویکسین تک رسائی کا انحصار مٹھی بھر سرمایہ داروں کے اقدامات پر ہوتا ہے، جن کی اولین ترجیح بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانا ہے۔ مزید برآں ان کی ’خیرات‘ طبقاتی خلیج کو پُر کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے، البتہ اگر ان کی دولت کے انبار کو پوری طرح استعمال کیا جائے تو اس کے مختلف اثرات پڑیں گے۔

ایم ایس ایف (Médecins Sans Frontières) ایکسیس کمپئین کے ایگزیکٹیوکو-ڈائریکٹر ڈاکٹر سڈنی وونگ نے کہا کہ ”اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ پہلی ویکسین کی محدود تعداد کے ایک بڑے حصّے پر امریکی ریاست، برطانیہ اور یورپی یونین کے مٹھی بھر ممالک نے قبضہ کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دیگر ممالک کو کچھ عرصے تک ویکسین میسر نہیں ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ویکسین کی فراہمی کو عالمی سطح پر یقینی بنایا جائے تاکہ ہر جگہ پر عالمی ادارہ صحت (WHO) کے معیار کے مطابق لوگوں کو ویکسین میسر ہو، نہ کہ اس بنیاد پر کہ کونسا ملک کتنا خرید سکتا ہے۔“

مگر سرمایہ داری میں سب سے اہم سوال یہی ہوتا ہے کہ کونسا ملک کتنا خرید سکتا ہے۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس معیار کو ترک کرنے کی ساری کوششیں بے کار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کو ویکس پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس میں غریب ممالک کے لوگوں کو کورونا ویکسین فراہم کی جائے گی۔ اس کا ہدف 2021ء کے اختتام تک 91 ممالک کے لوگوں کو 2 ارب ویکسینوں کی فراہمی ہے، جن میں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک شامل ہیں۔ مگر اندرونی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس پروگرام کو ناکامی کا ”بہت بڑا خطرہ“ ہے، جس سے اربوں لوگوں کا 2024ء تک ویکسین سے محروم رہنے کا امکان ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں، امریکی ریاست اور چین نے کوویکس کی مالی امداد سے خود کو دستبردار کیا ہوا ہے اور خریدی ہوئی ویکسینوں میں سے بھی اس پروگرام کے لیے کچھ مختص نہیں کیا۔ چین اپنے حلقہ اثر میں موجود غریب ممالک کو ویکسین مہیا کرنے کے لیے اپنے طور پر اقدامات لے رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد اپنے جغرافیائی اور سیاسی مقاصد ہی پورے کرنا ہے تاکہ امریکی ریاست کو عالمی سطح پر مات دی جا سکے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ ویکسین کی تیاری کے معاملے میں بھی لگایا ہے، جبکہ غیر مساوی رسائی کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔

بعض تجزیہ نگار امید کر رہے ہیں کہ جنوری میں جو بائیڈن کے صدارتی حلف اٹھانے کے بعد پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ مثلاً جیسا کہ بائیڈن نے عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت کا وعدہ کیا ہے۔ البتہ حکومت کی تبدیلی سے یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود رہے گی کہ ویکسین کی عالمی سپلائی مکمل طور پر بڑے ممالک کے قبضے میں ہے۔ ایک امید یہ بھی ہے کہ جب اگلے سال ویکسینیشن شروع ہوگی تو اس کی مانگ میں کمی آنے سے اس کی قیمتیں گر جائیں گی۔ البتہ اگر فلو ویکسین کی طرح کورونا ویکسین کی بھی سالانہ بنیادوں پر ضرورت ہوئی، تو پھر جیسا کہ ڈیوک گلوبل انوویشن سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرشنا ادایا کمار کا کہنا ہے ”غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہوگا۔“ بڑی دوا ساز کمپنیاں، جو ادویات کی نجی پیداوار کی مالک ہیں، تب تک قیمتیں زیادہ رکھیں گی جب تک اس کی پیداوار کی مانگ زیادہ رہے۔ اس عمل میں امیر مغربی ممالک ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ میں آگے رہیں گے جبکہ غریب ممالک انتظار کرتے رہ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ لاکھوں زندگیوں کو منافعوں کے نام پر قربان کر دیا جائے گا۔

قومی ریاست اور نجی ملکیت

کوویکس کی اندرونی دستاویزات میں ”خطرے“ کے مسئلے پر کافی بات کی جا چکی ہے، جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ نجی کمپنیاں کس طرح غریب ممالک کو ویکسین فراہم کریں گی۔ عالمی ادارہ صحت کی سکیم کا انحصار آسٹرا زینیکا جیسی کمپنیوں کی سستی ویکسین کے اوپر ہے، جس کو تقسیم کرنا اس وجہ سے بھی آسان ہوگا کہ انہیں انتہائی ٹھنڈے درجہ حرارت پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس فائزر اور موڈیرنا غریب ممالک کے لیے اپنی ویکسین (جس کے جانچ کے بہتر نتائج آئے ہیں) کی قیمتیں کم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔

حالیہ عرصے میں فائزر اپنی ویکسین کے بارے میں یورپی میڈیسن ایجنسی کو معلومات فراہم کر رہی تھی جس کو ہیک کیا گیا اور کمپنی اپنی دانشورانہ ملکیت (Intellectual Property) کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی۔ اس حادثے سے ایک قابلِ غور سوال ابھرتا ہے۔ اگر اس ویکسین کو ریاستی امداد اور ریاستی لیبارٹریوں کے ذریعے بنایا گیا ہے تو پھر اس کا فارمولہ سب کو فراہم کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر اس کی تیاری کے طریقہ کار کو پبلک کیا جائے تو غریب ممالک اپنے طور پر ویکسین تیار کر پائیں گے، جس پر دوسرے ممالک سے برآمد کرنے کی نسبت کم خرچہ آئے گا۔

ایم ایس ایف نے خبردار کیا ہے کہ عالمی وباء کے خاتمے کے لیے ان معلومات کو پبلک کرنا ضروری ہے، اور کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام ضروری معلومات فراہم کریں تاکہ جتنا زیادہ ممکن ہو، ویکسین کی تیاری یقینی بنائی جا سکے۔ عالمی ادارہ صحت کے ٹیکنالوجی ایکسیس پول جیسے پلیٹ فارم اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ 2001ء دوحہ ڈکلیئریشن اور 1994ء ایگریمنٹ آن ٹرپس (Trade-Related Aspects of Intellectual Property Rights) کے مطابق، جس پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سارے ممبران نے اتفاق کیا تھا، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ دانشورانہ ملکیت کے حقوق کو موجودہ وبائی دور جیسی صورتحال میں ترجیح نہیں دی جائے گی۔

مگر سرمایہ داری کے اندر نجی ملکیت ایک مقدس چیز ہوتی ہے۔ بڑی دوا ساز کمپنیاں سالوں سے دوحہ ڈکلیئریشن کا منہ چڑا رہی ہیں، اور اس کے برعکس (2019ء کی آکسفیم رپورٹ کے مطابق) ”آزاد تجارت کے معاہدوں اور یکطرفہ فیصلوں کے ذریعے دانشورانہ ملکیت کے قوانین کو مزید سخت بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں“۔ موجودہ خطرناک وباء کے دور میں بھی دوا ساز کمپنیوں کے دانشورانہ ملکیت کے حقوق جوں کے توں برقرار رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں بھارت اور جنوبی افریقہ کی حکومتوں نے کوشش کی ہے کہ وباء کی شدت کم ہونے تک ان حقوق میں نرمی کی جائے، جس کو بڑی دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک عالمی منصوبہ بند معیشت کے تحت یہ ممکن ہوتا کہ دقیانوسی قومی سرحدوں کو بالائے طاق رکھ کر سارے انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور تمام وسائل کو کامیاب ویکسین بنانے پر مرتکز کیا جاتا۔ اس حوالے سے ساری معلومات مشترکہ پلیٹ فارم پر فراہم کرنے سے یہ عمل تیز تر ہو جاتا۔ جب کامیاب ویکسین تیار ہو جاتی تو بڑے پیمانے پر اس کی تیز ترین پیداوار شروع کر دی جاتی تاکہ دنیا کے ہر کونے میں اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مگر یہ عمل قومی ریاست اور نجی ملکیت کی رکاوٹوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہے، جس سے انسانی نسل خطرے میں پڑ چکی ہے۔

عوامی عدم اعتماد

جن ممالک میں ویکسین دستیاب ہے، وہاں پر بھی عوام اس کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ کانٹار کے حالیہ سروے کے مطابق مغربی ممالک میں کورونا ویکسین حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے افراد میں مسلسل کمی نظر آئی ہے۔ حالیہ طور پر برطانوی آبادی کے محض 43 فیصد نے کہا ہے کہ وہ موقع ملنے پر لازمی ویکسین لیں گے۔ اس کے مقابلے میں امریکی ریاست میں یہ تعداد 30 فیصد، اٹلی میں 38 فیصد، جرمنی میں 35 فیصد اور فرانس میں 21 فیصد ہے۔

ماضی میں ’ویکسین مخالف‘ سازشیں سماج کی پسماندہ پرتوں کو شدید تشویش کا شکار بناتی رہی ہیں۔ مگر بڑے پیمانے کے موجودہ شکوک و شبہات کی ایک اور وجہ ہے۔ سروے میں حصّہ لینے والوں کی اکثریت نے اس وجہ سے شک کا اظہار کیا کیونکہ ویکسین بہت تیز رفتاری سے تیار کی جا رہی ہے۔ بلاشبہ بڑی دوا ساز کمپنیوں نے قوانین و ضوابط میں نرمی لانے کی کوشش کی ہے تاکہ تیز منافعوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ البتہ ویکسین کی فوری ضرورت کی وجہ سے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، اور اس بات پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے کہ کورونا کی بڑی اور مشہور ویکسینوں نے جانچ کے اچھے نتائج دکھائے ہیں۔ اس کے علاوہ سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ”جن ممالک میں حکومتوں پر کم اعتماد کیا جاتا ہے، جیسا کہ فرانس (18 فیصد) اور امریکی ریاست (14 فیصد)، ادھر ویکسین حاصل کرنے کی خواہش بھی کم پائی جاتی ہے۔“

وباء پر قابو پانے میں بری طرح ناکامی، قوانین و ضوابط میں مسلسل تبدیلی، متضاد بیانات، اور نہ ختم ہونے والے لاک ڈاؤن، جس کے اثرات بظاہر نظر نہیں آتے، کے ساتھ ساتھ دہائیوں سے جاری کٹوتی اور مہنگائی کے حملوں کی وجہ سے حکومتوں کی حمایت میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں لوگ اب سیاستدانوں کے منہ سے نکلنے والے کسی بھی لفظ پر یقین نہیں کرتے۔ کئی لوگوں کے لیے یہ عدم اعتماد ’سائنسی اشرافیہ‘ کے حوالے سے بھی پایا جاتا ہے۔

اس صورتحال سے طبقاتی غصّے کا اظہار ہوتا ہے، جو گو کہ ابھی مسخ شدہ شکل میں ہے، جس کو ڈونلڈ ٹرمپ، نائجل فاراج اور بولسونارو جیسے انتہائی دائیں بازو والے سیاستدان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، جنہوں نے وباء کے عرصے میں مایوسی اور غصے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور وباء کے حوالے سے شکوک (حتیٰ کہ اس کے وجود سے انکار) کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود یہ ٹرمپ کا ساتھی مائیک پینس ہی تھا جس نے حالیہ دنوں میں براہ راست ٹی وی پر فائزر ویکسین کا ٹیکا لگوایا۔

وباء کے نتیجے میں لاکھوں اموات واقع ہو جانے کے بعد بھی بڑے پیمانے پر عوام کی جانب سے عدم اعتماد کا یہ رویہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی شدید گہرائی کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مزدور تحریک کے قائدین اس غصے کو درست رخ میں موڑنے اور سرمایہ داروں کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر ان شکوک و شبہات کا نتیجہ کم سطح پر ویکسینیشن کی صورت میں نکلا تو ممکن ہے کہ وباء کے خاتمے کے لیے درکار 70 فیصد آبادی کا وائرس سے محفوظ رہنے کے ہدف کو حاصل نہ کیا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر ویکسین پر خرچ کیا گیا سارا پیسہ اور کوششیں بے کار میں چلی جائیں گی۔

چنانچہ یہ بائیں بازو کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بحران کی اصل وجہ سے لوگوں کو آگاہ کریں؛ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے منحوس سیاسی نمائندوں سے۔ اگر ویکسینیشن کے عمل کو ایک سوشلسٹ ریاست منظم کرتی، جس نے اس سے پہلے مؤثر لاک ڈاؤن اور روزگار سے محروم لوگوں کی مناسب مالی معاونت کی ہوتی، تو حالیہ غصّے اور عدم اعتماد کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ بڑی دوا ساز کمپنیوں کو مزدوروں کے اختیار میں دینے کے بعد یہ ممکن ہوتا کہ ویکسین تیار کرنے کے عمل کو سب کے سامنے کھلے عام کیا جائے، جس سے لوگوں کا اعتماد یقینی ہوتا۔ اس بھیانک وباء سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے لوگ بخوشی ویکسین وصول کرتے۔ مگر اس کے بجائے سائنس کی عمدہ حاصلات، خزاں رسیدہ معاشی نظام کے اندر پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتیں۔ موجودہ بحران کے تجربے نے سرمایہ دارانہ سماج کی شدید بیماری بے نقاب کر دی ہے، جس کا واحد علاج ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔