برازیل: بائیں بازو کے صدارتی امیدوار لُولا ڈا سلوا کی کم مارجن سے کامیابی اور بولسونارو کے خلاف جنگ

30 اکتوبر 2022ء کو ورکرز پارٹی (پی ٹی) کے لولا ڈا سلوا نے انتہائی دائیں بازو کے امیدوار بولسونارو کو صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں چھوٹے مارجن کے ساتھ شکست دے دی۔ اگرچہ محنت کشوں اور نوجوانوں کا اس نتیجے پر جشن منانا بنتا ہے، مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ بولسونارو کو توقعات سے زیادہ ووٹ ملے، جو دو مرحلوں کے دوران اپنے ووٹوں میں 60 لاکھ کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا، جبکہ اس کے مقابلے میں لولا کے ووٹوں میں 26 لاکھ کا اضافہ ہوا۔

[Source]

کچھ مہینے قبل، رائے شماریوں میں لولا ڈا سلوا کو بھاری اکثریت سے فوقیت حاصل تھی، جس کی ایک وجہ کرونا وباء کے حوالے سے بولسونارو کی مجرمانہ بد نظمی تھی، جو 7 لاکھ برازیلی شہریوں کی اموات کا باعث بنا۔ البتہ، آخر میں انتخابات کے اندر انتہائی کم مارجن کا فرق دیکھنے کو ملا۔ اس کی وضاحت کیسے ممکن ہے؟

ووٹروں پر جبر اور طبقاتی مفاہمت

بولسونارو نے ملک کی پسماندہ ترین پرتوں کو اپنی جانب مائل کیا۔ زرعی خوراک (وہ شعبہ جس پر برازیل کے جی ڈی پی کا 22 فیصد اور ملکی برآمدات کا 40 فیصد مبنی ہے) کے سرمایہ دار جوش و خروش سے اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس نے ریاستی مشینری کو بھرپور انداز میں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔

حالیہ صدارتی دوڑ میں بولسونارو اور اس کی پارٹی کی جانب سے جھوٹی خبروں اور اشتعال انگیزی کا ایسا طوفان برپا کیا گیا کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، حتیٰ کہ اس کی پارٹی کے ایک سیاستدان نے پولیس کے اوپر بندوق اور گرینیڈ سے حملہ کیا۔ ووٹنگ کے دن فیڈرل ٹریفک پولیس (پی ایف آر)، جن کی اکثریت بولسونارو کی حامی ہے، کھلے عام پی ٹی کے ووٹروں کو جبر کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں پولنگ سٹیشن جانے سے روکتی رہی۔ پی ایف آر کے کمانڈنگ آفیسر نے ووٹروں کو بولسونارو کے حق میں ووٹ ڈالنے کا ٹویٹ بھی کیا۔

برازیلی سماج میں بڑے پیمانے پر پولرائزیشن موجود ہے۔ شمال اور شمال مشرق کے اندر غریب ترین پرتوں نے بڑے پیمانے پر لولا ڈا سلوا کو ووٹ دیا۔ نسبتاً امیر، وسطی اور جنوبی علاقوں کے اندر بولسونارو سبقت لے گیا۔ ملک کی 10 گنجان ترین ریاستوں میں لولا اور بولسونارو دونوں نے پانچ پانچ ریاستوں کے اندر جیت حاصل کی۔ ساؤ پاؤلو، جو ملک کا گنجان ترین شہر اور صنعتی مرکز ہے، کے اندر بائیں بازو کامیاب رہا مگر ریاست کا گورنر بولسونارو کا امیدوار بنا۔ کانگریس اور سینیٹ دونوں کے اندر اس کی پارٹی اکثریت میں ہے اور تین گنجان ترین ریاستیں یعنی ساؤ پاؤلو، رِیو دے ژانیرو اور میناس جرایس اس کے قبضے میں ہے۔

دراصل، لولا ڈا سلوا کی کمپئین میں بائیں بازو کے ایک ایسے پروگرام کا سخت فقدان تھا جس کے ذریعے طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں اور غریبوں کو راغب کیا جا سکے۔ اس کے باعث بولسونارو کو ثقافتی میدان کے اندر بحث کھولنے کا موقع ملا۔ انتخابات میں زیادہ تر مذہب، اسقاطِ حمل، خاندانی اقدار، جرائم کاری، اور کرپشن جیسے موضوعات کو زیرِ بحث لایا جاتا رہا۔ یہ عمل بولسونارو کے لیے فائدہ مند تھا، جس نے سماج کی متعصب پسماندہ ترین پرتوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی خاطر اپنی سماجی قدامت پرستی کا سہارا لیا۔

لولا ڈا سلوا شروع سے ہی سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے ساتھ بے اصول اتحادوں کی بنیاد پر کمپئین چلا رہا تھا، جس نے نائب صدر کے امیدوار کے طور پر جیرالدو الکمین کو چنا تھا۔ الکمین، جو مکمل طور پر ایک سرمایہ دار سیاستدان ہے، 2006ء میں اس کا حریف اور برازیلی بورژوازی کی اہم پارٹی پی ایس ڈی بی کا قائد رہا ہے۔ ساؤ پاؤلو کے گورنر کے طور پر وہ 2013ء میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے حوالے سے چلنے والی تحریک کے اوپر پولیس کے شدید جبر کا ذمہ دار تھا اور 2016ء میں پی ٹی سے تعلق رکھنے والی دیلما روسف کو صدارتی عہدے سے ہٹائے جانے کا کھلے عام حامی تھا۔ اس قسم کے اتحاد ہر سطح پر قائم کیے گئے۔ مثال کے طور پر، پی ٹی نے الاگواس کے گورنر کے لیے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاستدان پاؤلو دانتاس کی حمایت کی۔ یہ اپنے خطے کے ایک با اثر سیاسی خاندان کا فرد ہے، جس کی پوری کمپئین کسی سیاسی پروگرام کے تحت ہونے کے برعکس محض شخصیت پرستی کی بنیاد پر کی گئی۔

طبقاتی مسائل کی جانب توجہ مبذول کرانے کی بجائے لولا نے اپنے حریف والا طریقہ کار اپناتے ہوئے اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کی، جو دائیں جانب جھکتا گیا اور حتیٰ کہ عیسائیت پر اپنے ایمان کے حوالے سے بھی زور دیا۔ اس دوران، اس نے حکمران طبقے کے سامنے خود کو قابلِ اعتماد، قابلِ انحصار شخص کے طور پر پیش کرتے ہوئے ریاستی مشینری سے وعدہ کیا کہ منتخب ہونے کی صورت وہ ”اداروں“ کا دفاع کرے گا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ یہی ادارے تھے جنہوں نے لولا کو 18 مہینوں کے لیے 2018ء میں جیل بھیج دیا تھا۔ سرجیو مورو نامی وہی جج جس نے اس پر مقدمہ چلایا تھا، کچھ عرصہ بعد بولسونارو کا وزیر برائے انصاف بن گیا تھا!

اس کے علاوہ، بولسونارو نے اپنی صدارتی کمپئین کے لیے ریاستی بجٹ کا بھرپور استعمال کیا، مثلاً صدارتی انتخابات کے دونوں مرحلوں کے دوران حکومتی سوشل ویلفیئر پروگرام آؤسیلیو برازیل کے بینیفیشریز کی رقم کو 5 لاکھ تک بڑھا دیا گیا۔

ظاہر ہے، اہم ترین مسئلہ برازیل کا شدید سماجی بحران اور انتہائی نا برابری ہے: 3 کروڑ 30 لاکھ برازیلی غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ دوسری جانب حالیہ سالوں کے دوران ارب پتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ایسے حالات میں سماجی اصلاحات کی تجاویز پر مشتمل ایک بیباک لڑاکا اور طبقاتی پروگرام مذہبی اور ثقافتی تقسیم پر غالب آ کر بولسونارو کی مکاری کا خاتمہ کر سکتا تھا۔

یہ سطور لکھتے وقت، بولسونارو نے ابھی تک شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ در حقیقت، اس نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔ (بعد میں اس نے ایک مختصر بیان دیتے ہوئے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور اس کے چیف آف سٹاف نے کہا کہ حکومت منتقلی کا عمل شروع ہوگا۔) مگر اس کے حامی (خاص کر ٹرک ڈرائیور) ملک کی 16 ریاستوں کے اندر اہم سڑکیں بلاک کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ (ایس ٹی ایف) کے صدر مورایس نے پی ایف آر، بولسونارو کی حامی وہی پولیس جو انتخابات کے دن لولا کے ووٹروں کو روک رہی تھی، کو سڑکوں کی بندش کھولنے کا حکم جاری کیا! اگرچہ پی ایف آر نے اس حکم پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مگر وہ یقیناً سڑکیں بلاک کرنے والے بولسونارو کے حامیوں سے ہمدردی رکھتی ہے، اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف، بے گھر محنت کشوں کی تحریک (ایم ٹی ایس ٹی) نے اپنے حامیوں کو سڑکوں کی بندش ختم کرانے کے لیے مظاہروں اور انتخابات کے نتائج کا دفاع کرنے کی کال دی ہے۔

الیکشن کمپئین کے دوران، بولسونارو نے لولا کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کی مدد حاصل کرنے اور اپنے کٹر حامیوں کو متحرک کرنے کی دھمکی دی تھی۔ نتائج میں باریک فرق ہونے کے پیشِ نظر، ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا حربہ اپنائے گا جیسا 2021ء میں ٹرمپ نے واشنگٹن کے اندر احتجاجوں کو بھڑکایا تھا۔ اس کا نتیجہ تشدد کی صورت نکل سکتا ہے۔ ممکن ہے بولسونارو اپنا وقت لیتے ہوئے جائزہ لے رہا ہے کہ واقعات کس جانب بڑھتے ہیں، اور اگر اس کے حامی خود رو طور پر متحرک ہوتے ہیں تو شاید وہ نتائج کو مسترد کرے گا۔ اس نے احتجاجوں کی کال تو نہیں دی مگر وہ ایسا نہ کرنے کا بھی کچھ نہیں کہہ رہا، اور اپنے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

بولسونارو کے نائب صدر موراؤ نے الکمین کو پیغام دیتے ہوئے شکست تسلیم کی ہے، اور لولا کی ٹیم بولسونارو کے وزیر برائے صدارت نوگیرا کے ساتھ حکومتی منتقلی کے لیے رابطے میں ہے۔ ریاستی مشینری، حکمران طبقے اور سامراجیت کے مختلف حصوں کی جانب سے بلا رکاوٹ منتقلی یقینی بنانے کے لیے دیوہیکل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار چاہے بولسونارو کے بارے میں جو بھی سوچیں (اور ان کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہے)، مگر وہ انتشار اور عدم استحکام کے حق میں بالکل نہیں ہے۔

بولسونارو شکست خوردہ، مگر ’بولسونارزم‘ باقی

بہرحال، بولسونارو کو شکست حالیہ انتخابات سے بھی کافی پہلے دی جا سکتی تھی۔ اس کے پورے دورِ اقتدار کے دوران عوامی احتجاج ہوتے رہے تھے، اور پہلے دن سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر ”فورا بولسونارو!“ (بولسونارو واپس جاؤ!) کا نعرہ لگا رہے تھے۔ البتہ، پی ٹی اور ٹریڈ یونینز کی قیادت عوام کو روکتی رہی، جو انہیں ’بولسونارو کے جمہوری مینڈیٹ کا احترام کرنے‘ اور اسے عہدے سے ہٹانے کے لیے انتخابات کا انتظار کرنے کی گزارش کرتے رہے۔ اس دوران، وہ اپنی بزدلی اور دائیں جانب جھکاؤ کا جواز بولسونارو کے ’فاشسٹ‘ ہونے کا خوف پھیلا کر دیتے رہے!

دوسرے مرحلے سے کچھ دن قبل، لولا نے ”کل کے برازیل کے لیے خط“ شائع کیا، جو ”جمہوریت“، ”آزادی“، ”پائیدار ترقی“، ”امید“ وغیرہ جیسے خوبصورت الفاظ سے بھرا تھا، مگر اس میں سرمائے کے بنیادی مفادات یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا تھا: ”ایک ہی وقت میں مالیاتی ذمہ داری، سرکاری قرضوں میں کمی، سماجی ذمہ داری اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ممکن ہے۔“ سرمایہ داری کے عالمگیر گہرے بحران کے تناظر میں، ’مالیاتی ذمہ داری‘ کا مطلب ناگزیر طور پر کٹوتیاں اور محنت کش طبقے کے اوپر حملے ہیں۔

اہم بورژوا اخبارات ابھی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ لولا کو چھوٹے پیمانے پر بھی سوشل ڈیموکریٹک پالیسیوں کا خیال تک ترک کرنا چاہیے اور پختگی سے حکمران طبقے کے مفادات میں ہی حکومت کرنی چاہیے، اور یہ سب ”قومی اتحاد کی بحالی“، ”برازیلی سماج کے استحکام“ وغیرہ کے نعرے کے تحت کیا جائے۔ مثال کے طور پر ’او گلوبو‘ کے ایک مضمون میں اس کلیدی کردار پر زور دیا گیا جو نائب صدر الکمین کو لازماً ادا کرنا ہوگا:

”یہ حیثیت حاصل ہونے کے بعد، پی ٹی ممبران اور پی ایس ڈی بی کے سابقہ ممبران دونوں سمجھتے ہیں کہ اسے اہم حکومتی عہدوں، کے لیے تعیناتیاں کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، خصوصاً معاشی میدان میں، جہاں مالیاتی ذمہ داری کے حوالے سے اس کے پختہ ارادوں کی تکمیل کی خاطر سابقہ پی ایس ڈی بی ممبران قابلِ اعتماد رہیں گے۔ وہ ملک بھر کے دورے بھی کرے گا اور اندرونی بحث مباحثوں میں مناسبت لانے کا کردار ادا کرے گا۔ مثلاً کیتھولک ہونے کے باعث وہ روحانیت پر یقین رکھنے اور نہ رکھنے والے دونوں چرچوں کے قائدین کے ساتھ ہمیشہ آسانی سے تعلقات استوار رکھتا تھا۔“

کئی لوگوں نے 2003ء اور 2011ء کے بیچ لولا کی پچھلی صدارت کی یاد کی بنیاد پر اسے ووٹ دیا۔ اس دور میں، سرمایہ دوست پالیسیاں (پنشن اصلاحات، مالیاتی استحکام وغیرہ) لاگو کرتے ہوئے وہ خام مال کی بڑی قیمتوں کا فائدہ اٹھا رہا تھا، جس کا مطلب برازیل کی معاشی بڑھوتری تھی۔ محنت کشوں کی اجرتوں میں افراطِ زر کی مناسبت سے اضافہ کیا جا رہا تھا اور لولا (ورلڈ بینک سے متاثرہ) بولسا فیمیلیا جیسے سوشل ویلفیئر پروگرام متعارف کرانے کا اہل تھا۔ جب 2014ء میں قیمتوں کی گراوٹ کا دور شروع ہوا تو لولا پہلے ہی اقتدار سے ہٹایا گیا تھا اور اس کی پارٹی سے تعلق رکھنے والی دیلما کو معاشی کساد بازاری کا سامنا تھا، جو انتہائی غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی۔

اب صورتحال مکمل مختلف ہے۔ لولا ایسے دور میں اقتدار سنبھال رہا ہے جب سرمایہ داری کا عالمی بحران جاری ہے، جو برازیلی معیشت کو شدید متاثر کرے گا۔ چین اس کا اہل نہیں ہے کہ لاطینی امریکہ کے اندر بحران کی شدت میں کمی لائے، جیسا کہ 2010ء اور 2014ء کے بیچ اس نے کیا تھا، صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان حالات میں، اور ”مالیاتی ذمہ داری“ کے پختہ ارادوں کے ساتھ، لولا کے پاس عوام دوست اقدامات کرنے کی گنجائش انتہائی محدود ہوگی اور اس کی حکومت محنت کش طبقے کے اوپر حملے کرے گی۔

اصلاح پسند طبقاتی مفاہمت اور سرمایہ دوست پالیسیوں کی بنیاد پر بولسونارو کی طاقت میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ 2018ء میں اس کی جیت کے لیے حالات سازگار کیسے ہوئے۔ 2014ء میں دیلما روسف نے انتخابات تو بائیں بازو کے پلیٹ فارم سے جیتے تھے، مگر قیمتوں کے انہدام کے بعد آنے والے معاشی بحران کے پیشِ نظر اس نے اپوزیشن کا عوام دشمن پروگرام لاگو کیا۔ اس کے باعث اس کے حامیوں کی حوصلہ شکنی ہوئی جبکہ دوسری جانب دائیں بازو کی جنونیت ابھرنے لگی۔ دیلما کے اپنے ساتھی میشیل تیمر نے اس کے ساتھ غداری کی اور اسی عدلیہ اور ریاستی مشینری کی رضا مندی کے ساتھ اس کو برطرف کیا جس نے پہلے ہی جھوٹے الزامات میں لولا کو جیل بھیج دیا تھا۔

بولسونارو نے پی ٹی کی ’کرپشن‘ کا سہارا لے کر اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ بولسونارو کی تباہ کن، رجعتی حکومت کا ایک بڑا دور اس لیے ہمواری کے ساتھ گزرتا گیا کیونکہ بائیں بازو کی سرکاری پارٹیاں اور یونینز نے اپنی تمام امیدیں اگلے انتخابات سے لگا رکھی تھیں، جو انہوں نے انتہائی چھوٹے مارجن سے جیتے۔

لولا کی جیت پہلا قدم ہے، مگر اب حقیقی تبدیلی کی جدوجہد کی تیاری کرنی ہوگی: وہ تبدیلی جس کی توقع لولا کو ووٹ دینے والے محنت کش اور نوجوان کر رہے ہیں۔ بولسونارو کو انتخابات میں ہرایا جا چکا ہے، مگر ’بولسونارزم‘ برقرار اور سرگرم ہے، جسے کارخانوں اور کام کی جگہوں اور محنت کشوں کے محلّوں کے اندر عوامی ہڑتالوں اور مظاہروں کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے شکست دی جا سکتی ہے۔

اس جدوجہد کی تیاری کے لیے محنت کش عوام کے آزادانہ طور پر منظم ہونے کا عمل مضبوط کرنا ضروری ہے۔ منظرنامے میں مظلوم عوام کا داخلہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انتہائی دائیں بازو اور بولسونارزم کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے۔

نوٹ: اس مضمون کے لکھنے میں اِسکیردا مارکسِستا سے وابستہ ہمارے برازیلی کامریڈوں کے لکھے ہوئے مضمون کی مدد لی گئی ہے اور یہ یکم نومبر 2022ء کو شائع ہوا۔