بھارت: کرونا کی تباہ کاریاں؛ سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی وحشت

کرونا وباء کی دوسری لہر نے پورے انڈیا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، جہاں روزانہ تقریبا 4 لاکھ نئے کیس رجسٹر ہو رہے ہیں؛ اگرچہ یہ سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے بہت کم ہیں۔ ملک بھر کی صورتحال کسی بھیانک خواب کی طرح لگ رہی ہے۔ مگر بالخصوص سماج کی غریب ترین پرتوں کے لیے یہ کسی جہنم سے کم نہیں۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

شعبہ صحت کی مریضوں و کھپانے کی استطاعت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ ہسپتال اور آکسیجن کی سہولت سے محروم مریض سینکڑوں کی تعداد میں مر رہے ہیں اور ہر رات گنگا کنارے چتائیں جل رہی ہوتی ہیں۔

مریض طبی امداد کی بھیک مانگتے ہوئے ہسپتال کی راہداریوں، پارکنگ کی جگہوں، سڑکوں اور اپنے گھروں میں مر رہے ہیں، مگر ان کی مدد کرنے کوئی نہیں آتا۔ مہاراشٹرا کے شہر بیڑ میں شمشان گھاٹ جانے والی ایمبولینس کے اندر ایک ساتھ ہی 22 لاشوں کو لے جایا گیا۔

شعبہ صحت میں عالمی سطح پر آنے والی اس تباہی کو روکا جا سکتا تھا، جس کی ذمہ دار رجعتی مودی سرکار کے ساتھ مفاد پرست سامراجی قوتیں بھی ہیں۔

ایک دفعہ پھر، سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندگان نے انسانی زندگیوں پر منافعوں، نجی ملکیت اور تنگ نظر قومی مفادات کو ترجیح دی ہے۔ بھارت کا محنت کش اور غریب طبقہ اپنے حکمرانوں کے کیے کی سزا بھگت رہا ہے۔

مجرمانہ غفلت

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کرونا وباء پر (جس کا الزام وہ مسلمان حاجیوں پر لگا رہا تھا) قابو پانے کے حوالے سے ڈینگیں مار رہا تھا، جبکہ عالمی سطح پر ویکسین تیار کرنے میں بھارت کے قائدانہ کردار ادا کرنے کی بدولت جنوری کے اندر دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے ”دنیا کو تباہی سے بچا لیا ہے۔“

جب کرونا وباء کی دوسری لہر پنپ رہی تھی، مودی اور ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی میں موجود اس کے ساتھی نا قابلِ یقین خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ کئی ہفتوں سے بھارت کے سب سے بڑے شہروں کے اندر اہم انتخابات کے سلسلے میں بڑے بڑے جلسوں میں جا رہے تھے، جہاں احتیاطی تدابیر کی کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی رہی۔

مارچ کے مہینے میں، وفاقی وزیرِ صحت ہرش وردھن نے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وباء پر ”قابو پایا جا چکا ہے“، جبکہ آسام کے وزیرِ صحت نے دعویٰ کیا کہ ”آسام میں کرونا نہیں ہے۔۔۔(اس لیے) ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں۔“

ایک ستم ظریفانہ واقعہ مغربی بنگال کے اندر پیش آیا، جہاں بی جے پی کے سربراہ دلیپ گھوش نے ریاست سے کرونا کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جن پر خدا مہربان ہوں گے، وہ کرونا سے محفوظ رہیں گے۔ مگر اس کے ایک مہینے بعد وہ خود ہی کرونا کا شکار ہو گیا۔ لگتا ہے خداؤں نے اسے ترک کر دیا۔

اس کے علاوہ، مودی کے ہندو شاؤنسٹ حامیوں کو خوش کرنے کے لیے، اپریل کے مہینے میں کمبھ میلے کا مذہبی تہوار منانے کی اجازت دے دی گئی جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے، جس نے بلاشبہ وائرس کے پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کیا۔

مارچ میں کرونا وائرس کی نئی قسم کی تصدیق کی گئی تھی مگر اس کے باوجود یہ مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ ”ڈبل میوٹنٹ“ کہلائے جانے والی یہ قسم کیلیفورنیا، جنوبی افریقہ اور برازیل میں پائے جانے والی باقی دو بڑی اقسام سے کافی مختلف ہے۔ یہ اس سے پہلے آنے والی اقسام کی نسبت زیادہ آسانی سے پھیلتی ہے اور اس پر ویکسین کے اثرات بھی کم پڑتے ہیں۔

نتیجتاً، منہدم ہوتے بھارتی شعبہ صحت کو بہت بڑے پیمانے پر کرونا کیسز کا سامنا ہے۔

پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا جیسے خیراتی ادارے کے صدر، سری ناتھ ریڈی نے کہا کہ ”اس بار صحت کے شعبہ جات وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔“

”ملک بھر میں انتظامیہ سے وابستہ افراد کی اکثریت کسی دوسری لہر کی توقع نہیں کر رہی تھی، بلکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وباء کا خاتمہ ہو چکا ہے۔“

اس سے پہلے مودی نے بھارتی سپلائی کو قابو میں رکھنے کے لیے ویکسین کی بر آمدات پر پابندی عائد کی تھی، مگر اب وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ”پہلی لہر کا سامنا کرنے میں کامیابی کے بعد، ملک بھر میں خود اعتمادی پائی جا رہی تھی، مگر اس طوفان نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔“

اس طوفان کی بہت پہلے سے توقع کی جا رہی تھی، مگر اس سے بچاؤ کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ جس کا نا گزیر نتیجہ حالیہ المناک تباہی کی صورت میں نکلا۔

بھیانک خواب

ضروری طبی سامان کی قلت ہے اور ایمرجنسی وارڈز میں جگہ نہیں بچی۔ ملک بھر میں دہلی کے شعبہ صحت کو سب سے بہترین مانا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود شہر کے ہسپتالوں میں سینکڑوں افراد آکسیجن کی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں، مثال کے طور پر پچھلے مہینے سر گنگا رام ہسپتال میں چوبیس گھنٹوں کے اندر 25 مریضوں کی موت واقع ہوئی۔

اسی طرح ایک اور حادثہ ناشک شہر میں پیش آیا، جہاں بر وقت آکسیجن مہیا نہ ہونے کی وجہ سے 22 مریضوں کی موت واقع ہوئی۔ ان بھیانک واقعات کی اہم وجہ ملک بھر میں آکسیجن کی قلت ہے، جس کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں جنہیں بچایا جا سکتا ہے۔

ایک بھارتی ڈاکٹر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ضرورت مند خاندانوں پر بات کی جو ہسپتال اور آکسیجن کی تلاش میں دہلی بھر میں گھوم رہے ہیں مگر پہلے سے مریضوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے ڈاکٹر انہیں واپس بھیج رہے ہیں۔ اموات کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ جنوب مشرق میں موجود پبلک پارک کو عارضی شمشان گھاٹ میں تبدیل کرنا پڑا۔

ریاستی ہسپتالوں پر انحصار کرنے والے غرباء کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں، جو ملک کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے، ہسپتالوں کے باہر ایک بیڈ کیلئے تقریبا 50 مریض لائن میں کھڑ انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

غرض اس اذیت ناک صورتحال کی حقیقی عکاسی الفاظ کے ذریعے ممکن ہی نہیں۔ لکھنؤ میں موجود ریاستی ادارے ’سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ میں نرس کا کام کرنے والی سیما شُکلا نے کہا کہ: ”(ہسپتالوں کی) حالت اتنی بھیانک ہے کہ بہت سارے لوگ ڈاکٹر اور ٹیسٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے سڑکوں کے اوپر اور اپنے گھروں کے اندر مر نے پر مجبور ہیں۔“

”میرا فون صبح سویرے سے لے کر آدھی رات تک بجتا رہتا ہے۔ ضرورت مند رشتہ دار اور دوست مدد مانگنے کے لیے کال کر کے کہتے ہیں: ’براہ مہربانی وینٹی لیٹر، بیڈ، نرس، آکسیجن سیلینڈر اور دوائیاں ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔“‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 لاکھ 49 ہزار اموات ہو چکی ہیں جو درحقیقت انتہائی کم تعداد بتائی جا رہی ہے۔ فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں حساب لگایا گیا ہے کہ اپریل کے مہینے میں گجرات، اتر پردیش، مدھیا پردیش اور بِہار کے اندر کرونا کی وجہ سے 1 ہزار 833 اموات میں سے سرکاری طور پر محض 228 کو رپورٹ کیا گیا۔

دی اکانومسٹ نے اس سے بھی زیادہ بھیانک اندازہ لگایا کہ:

”بھارت کے اندر کرونا کے سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے بہت کم ہیں۔ بڑے شہروں سے باہر کم پیمانے پر ٹیسٹ کرنے کی وجہ سے۔۔۔حقیقی کیسز 10 سے 30 گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔“

”دسمبر میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق بھارت کی 21 فیصد آبادی کرونا کا شکار ہے، جبکہ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت تک یہ تعداد محض 1 فیصد تھی۔“

”حالیہ عرصے میں، جب مقامی صحافیوں نے اپنے طور پر تحقیق کر کے اس کا موازنہ سرکاری اعداد و شمار کے ساتھ کیا تو انہیں بھی ملک بھر کے اندر اسی قسم کا فرق دیکھنے کو ملا۔“

”اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں روزانہ 2 ہزار اموات نہیں بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں اموات ہو رہی ہیں۔“

درد، غم اور غصّہ

جھارکھنڈ کے علاقے رانچی میں موجود ریاستی ہسپتال سادر میں ریکارڈ کیے گئے ایک وائرل ویڈیو انٹرویو میں ملک بھر میں پیش آنے والے بے شمار حادثات کی ایک نمایاں جھلک ملتی ہے۔

جس میں ایک جوان خاتون مایوسی اور غم کے عالم میں ماتم کرتی ہوئی کہتی ہے کہ اس کا باپ گھنٹوں تک ہسپتال کے باہر طبی امداد کے لیے سٹریچر پر لیٹے انتظار کرتے کرتے مر گیا۔

اس نے روتے ہوئے انٹرویو لینے والوں کو بتایا کہ ”ہم ڈاکٹر کے لیے چیخ و پکار کرتے رہے مگر کوئی ڈاکٹر نہیں آیا!۔۔۔میرے باپ نے یہاں پر اپنی آخری سانسیں لیں۔ تم میرا انٹرویو لے رہے ہو؟ کیا تم میرے باپ کو لوٹا سکو گے؟ تم صرف ووٹ جمع کرنے آئے ہو!“

یہ انٹرویو اس وقت ریکارڈ کیا گیا جب کانگریس سے تعلق رکھنے والا جھارکھنڈ کا وزیرِ صحت بننا گپتا ہسپتال کا دورہ کر رہا تھا۔

نوجوان خاتون کے الفاظ میں صرف غم کا ہی نہیں بلکہ پوری پوسیدہ ہندوستانی سیاسی اشرافیہ کے خلاف شدید غصے کا اظہار بھی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صحت کے اتنے بڑے بحران نے جنم لیا ہے۔

اسی طرح دہلی میں بھی نینا نامی ایک خاتون، جس نے کرونا کی وجہ سے اپنا 50 سالہ بھائی کھو دیا، نے انسٹاگرام پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں کہا:

”مودی کن بنیادوں پر ہمارے ووٹ مانگ رہا ہے؟ کیا وہ لوگوں کو مروانے کی خاطر ووٹ مانگ رہا ہے؟ اس نے قوم کو برباد کر دیا ہے، ہر خاندان میں موت واقع ہو رہی ہے۔ وہ آکسیجن سپلائی کو کیوں یقینی نہیں بنا رہا، ہم بیڈز سے کیوں محروم ہیں؟“

مودی اس وقت خوب ہاتھ پیر وبا کی روک تھام اور ٹیسٹنگ کی بجائے اس غصّے کو قابو میں رکھنے کے لیے مار رہا ہے اور ٹویٹر پر ان تمام ٹویٹس کو سنسر کرنے میں مصروف ہے جو اس کی مجرمانہ غفلت کو عیاں کر رہے ہیں۔ مگر وہ چاہے جو بھی کرے، عوام کی اکثریت میں پائے جانے والا غم و غصّہ آج نہیں تو کل سطح کے اوپر اپنا اظہار ضرور کرے گا۔

تمام سہولیات اور دوائیاں امیروں کیلئے، غریبوں کیلئے صرف موت!

اُن امیر افراد کو مذکورہ تکالیف کا کوئی اندازہ نہیں جو بیرونِ ملک اپنی دولت ذخیرہ کرتے ہیں اور ہسپتالوں کی بجائے اپنے علیحدہ اور ہوادار گھروں کے اندر رہتے ہیں۔ پھر بھی پرائیویٹ جہازوں کی مانگ میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کیونکہ امیر بھارتی افراد وائرس سے دور بیرونِ ملک فرار ہونا چاہ رہے ہیں۔

اس کے برعکس، ممبئی اور دہلی جیسے شہری علاقوں میں دیر سے لاک ڈاؤن لگنے کے باعث ایک دفعہ پھر مہاجر محنت کش بڑے پیمانے پر اپنے گاؤں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، جن میں سے بعض کو سینکڑوں میلوں کے سفر طے کرنے پڑے ہیں۔

یہ محنت کش پچھلے سال پہلے لاک ڈاؤن کے بعد ہونے والی بڑی ہجرت کو بھولے نہیں ہیں، جب سینکڑوں کی موت واقع ہوئی اور ہزاروں شدید غربت کا شکار ہو گئے۔ وہ جلدی جلدی نکلنے کی کوششوں میں ہیں کہ کہیں پھر سے دیر نہ ہو جائے۔ مگر شہروں کی دہشت سے بھاگنے کی جلدی میں دیہاتی علاقوں تک بھی وائرس پھیل سکتا ہے، جہاں شعبہ صحت کا انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک جانب غریب بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ دوسری طرف امیر تیزی سے اپنی دولت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ بھارت کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون مکیش امبانی نے حال ہی میں برطانیہ کے مشہور کنٹری کلب سٹوک پارک کی خریداری پر 5 کروڑ 70 یورو کی خطیر رقم لگا ڈالی۔

اسی طرح مرکزی حکومت کی مدد سے، موٹے دوا ساز خنزیروں کی دولت میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ بھارت نے یکم مئی سے 18 سال سے اوپر افراد کو ویکسی نیشن کی اجازت دی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ملک میں ویکسین بنانے والوں کو اپنی مرضی کے ساتھ قیمتیں بڑھانے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

اس سے پہلے بھی نجی ہسپتالوں میں بھارتی شہری اپنے ہی ملک میں بنائی گئی ویکسین کے لیے بھاری قیمتیں ادا کر رہے تھے، جیسا کہ کووی شیلڈ ویکسین، جو ایسٹرا زینیکا ویکسین کا مقامی نام ہے، جس کو سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی) بنا رہی ہے۔

مئی کے مہینے سے، حکومت ویکسین کی ماہانہ پیداوار کے نصف حصے کا خرچ اٹھائے گی، تاکہ 45 سال سے اوپر افراد کو ویکسین مہیا کی جا سکے، جبکہ 45 سال سے کم عمر والے افراد کو ریاستی حکومتیں اور نجی کمپنیاں زیادہ قیمتوں کے ساتھ ویکسین بیچیں گی۔

خریداروں کی تعداد میں اضافہ کرنے والی اس نئی پالیسی کی وجہ سے مختلف ریاستیں اور صحت کے نجی و سرکاری شعبے قلیل تعداد میں موجود ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جائیں گے، اور سارے غیر مساوی طور پر ہی اسے حاصل کر پائیں گے۔ ابھی سے چار ریاستوں، جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے، کو ایس آئی آئی نے بتایا ہے کہ انہیں 15 مئی سے پہلے ویکسین نہیں دی جائے گی۔

ایس آئی آئی، جو ایک نجی کمپنی ہے، کو محدود تعداد میں موجود ویکسین کی تقسیم کے بڑے اختیارات دیے جائیں گے، جو زیادہ قیمتیں ادا کرنے کے قابل نجی ہسپتالوں کو ترجیح دے گی۔

سابقہ بھارتی وزیرِ صحت سوجاتھا راؤ نے کہا کہ ”آپ قیمتوں کی بنیاد پر ریاستوں کو نجی کمپنیوں کے ساتھ لڑوا رہے ہیں۔ کم عمر امیر افراد نجی کمپنیوں سے جا کر ویکسین خرید سکتے ہیں جبکہ غرباء کو کچھ نہیں ملے گا۔“

جب امیر خاندان اپنے بچوں کو ویکسین فراہم کرنے کے لیے بڑی قیمتیں ادا کر رہے ہیں اور دوا ساز منافع خور ذخیرہ اندوزی میں لگے ہوئے ہیں، تو ظاہر ہے کہ پارلیمانی چور بھی ایسے میں رشوت کا خوب مال بٹور رہے ہوں گے۔

اس دوران لاکھوں بھارتی محنت کش اور غریب ویکسین نہیں خرید پائیں گے، اس کے باوجود کہ ان کا ملک باقی دنیا کو سب سے بڑے پیمانے پر ویکسین بر آمد کر رہا ہے۔

اس صورتحال سے بنگال کے قحط (1943ء) کی یاد تازہ ہوتی ہے، جب عوام فاقوں پر مجبور تھے جبکہ بھارت اپنے سامراجی آقاؤں کو خوراک بر آمد کر رہا تھا۔

ویکسین نیشنل ازم اور مگرمچھ کے آنسو

بحران کی شدت نے بھارتی حکومت کو آکسیجن کنٹینرز، وینٹی لیٹرز اور زائد ویکسین کی صورت میں امداد تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، جو سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور یورپ سے آ رہے ہیں۔

اس خیراتی سلسلے کے ساتھ ساتھ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جانب سے ہمدردانہ الفاظ بھی ادا کیے گئے، جنہوں نے بھارت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔

یہ منافق بورژوا غنڈے ان امیر قوموں کی نمائندگی کر رہے ہیں جن کے پاس کروڑوں کی تعداد میں زائد ویکسین موجود ہے، جو انہوں نے براہِ راست بنانے والوں سے خریدی ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے زیادہ تر بھارت میں ہی تیار کی گئی تھیں۔

جب امیر مغربی ممالک دنیا میں تیار کی گئی ویکسینوں کی اکثریت پر قابض ہو رہے تھے، بھارت اور جنوبی افریقہ اکتوبر میں عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) کو دانشورانہ ملکیت کے قوانین ختم کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تاکہ دنیا میں کہیں بھی ویکسین کو سستے داموں تیار کیا جا سکے۔

ڈبلیو ٹی او میں مغربی ممالک کے نمائندگان نے اس بات سے انکار کھلا کر دیا، جو غریب ممالک کے کرونا مریضوں سے کہیں زیادہ دوا ساز سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کے بارے میں فکر مند تھے۔

امریکی ریاست نے حالیہ عرصے تک کرونا کے علاج کے لیے ضروری اشیاء کی بر آمد پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ ایس آئی آئی کی جانب سے براہِ راست صدر جو بائیڈن کو گزارش کرنے، اور ملکی و غیر ملکی دباؤ کے بعد یہ پابندی ہٹائی گئی۔

بائیڈن نے 25 اپریل کو ٹویٹ کیا کہ ”جب وباء کے آغاز میں ہمارے ہسپتال مشکلات سے دوچار تھے تو بھارت نے امریکی ریاست کو امداد بھیجی تھی، اسی طرح آج ہم ضرورت کی گھڑی میں بھارت کی مدد کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔“

صدر صاحب کا یہ حالیہ ”عزم“ مہینوں تک ضروری اشیاء کی بر آمدات پر پابندی لگانے کے بعد سامنے آیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں نافذ کیا جانے والا ڈیفینس پروڈکشن ایکٹ کا جنگی قانون اب بھی لاگو ہے، جس کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کے پاس ملکی سطح پر کرونا ویکسین اور حفاظتی سامان (پی پی ایز) تیار کرنے کو ترجیح دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔

اس کی وجہ سے پیداوار کے لیے ایسی رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں جس نے نہ صرف بھارت کو بلکہ بالواسطہ طور پر ساری دنیا کو متاثر کیا ہے، کیونکہ ایس آئی آئی عالمی ادارہ صحت کے ’کو ویکس‘ پروگرام کا بھی اہم حصہ ہے۔

آج تک بائیڈن امریکہ کی زائد ویکسینیں دیگر ممالک کو دینے سے انکار کر رہا ہے، جس میں ایسٹرا زینیکا کی 3 کروڑ ویکسینیں بھی شامل ہیں، جن کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔

بھارت سمیت دیگر ممالک میں زائد ویکسینوں کی اشد ضرورت ہے۔ مگر یہ بات تو یقینی ہے کہ بھلے ہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے نکل چکا ہو، ’سب سے پہلے امریکہ‘ والی پالیسی ابھی بھی جا ری ہے۔

اس قسم کی پالیسیاں جہاں ایک طرف غریب ممالک کے اربوں لوگوں تک ضروری وسائل کی فراہمی روک کر انہیں اذیتوں میں مبتلا کرتی ہیں، وہیں اس کی وجہ سے وائرس کی نئی اقسام کے پھیلنے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے، جس سے امریکہ کے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

اور، کرونا کی بھارتی قسم کی امریکی ریاست سمیت دنیا بھر موجودگی کی اطلاعات سامنے آ بھی چکی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، سامراجی ممالک کی تنگ نظر قوم پرستی آج کے وبائی دور میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

دوا ساز کمپنیوں کو قومیاؤ! مودی مردہ باد! سرمایہ داری مردہ باد!

بھارت دنیا کا سب سے بڑا دوا ساز ملک ہے۔ بھارت کے اندر بحران کو حل کرنے کے لیے درکار ذرائع، وسائل اور مہارت موجود ہے۔

بد قسمتی سے، یہ بڑی نجی دوا ساز کمپنیوں کی نجی ملکیت ہی ہے، جسے رجعتی مودی سرکار کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ جب تک ان غنڈوں کے منافعوں کی ہوس پوری ہوتی رہے، انہیں بڑی تعداد میں مرتے غریبوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

اگر بھارت کی دوا سازی کا غیر معمولی انفراسٹرکچر (ایس آئی آئی سے شروع کرتے ہوئے) نجی منافع خوروں کے ہاتھوں سے چھین لیا جاتا، اور اسے قومیا کر ضرورت کے مطابق چلایا جاتا، تو اس بربادی کی نوبت ہی نہ آتی۔

صرف ویکسین کی نہیں بلکہ آکسیجن اور پی پی ایز کی پیدوار کو تیز تر کیا جا سکتا تھا۔ جبکہ خونخوار نجی شعبہ صحت پر قبضہ کر کے اس سے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جا سکتی ہیں۔

بھارت کے پاس بے تحاشا طبی وسائل اور پیداواری قوت ہونے کی وجہ سے وباء کے خلاف عالمی لڑائی میں اس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مودی کی غفلت کی وجہ سے بھارت میں وائرس کی نئی قسم کے جنم لینے اور امیر ممالک کے ویکسین نیشنل ازم سے پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔

چنانچہ یہ بات دنیا بھر کے محنت کشوں کے مفاد میں ہے کہ اپنے بھارتی بہن بھائیوں کی مودی، اور جس بد عنوان طبقے کی وہ نمائندگی کر رہا ہے، کے خلاف جدوجہد میں حمایت کریں، تاکہ بھارت میں موجود طبی پیداوار (جو چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے) کو اپنے اختیارات میں لے کر اس سے انسانیت کی خدمت کی جا سکے۔

پچھلے عرصے میں بھارتی عوام نے کئی مرتبہ اپنی لڑاکا قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابھی اتنی بڑی سطح پر ہونے والی بربادی کے بعد، سرمایہ داری اور سامراجیت کے اوپر ان کی فتح کی ناگزیریت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔