فرانس: پنشن پر حکومتی حملوں کے خلاف ملک گیر ہڑتال؛ دس لاکھ سے زائد محنت کش سڑکوں پر!

پنشن کے اوپر صدر ایمانوئل میکرون کے حالیہ حملوں کے خلاف 19 جنوری کو فرانس کے اندر 200 سے زائد ریلیوں میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کر ملک گیر ہڑتال کی۔ ریل، پیرس ٹرانسپورٹ سسٹم، تیل ریفائنریوں، اور میڈیا کے محنت کشوں سمیت اساتذہ، سرکاری ملازمین، ٹرک ڈرائیوروں اور بینکوں کے عملے نے مل کر میکرون کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے منصوبوں کے خلاف احتجاج کیا۔ محنت کشوں میں ٹکر لینے کی صلاحیت موجود ہے، مگر کیا مزدور قائدین آگے بڑھنے کی ہمت کریں گے؟

[Source]

جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں، میکرون کے اوپر فرانسیسی حکمران طبقہ پنشن سسٹم کی ’اصلاح‘ کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے اوپر کئی دہائیوں سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت ریٹائرمنٹ کی قانونی عمر 62 ہے، اور میکرون اس میں چار ماہ کا سالانہ اضافہ کرنا چاہتا ہے جو 2030ء تک 64 ہو جائے گی۔ یہ تجویز عوام کی اکثریت میں سخت غیر مقبول ہے، ایک حالیہ رائے شماری میں 80 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔ یہ حملے اس غصے کو مزید بھڑکا رہے ہیں جو گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے باعث پہلے سے موجود ہے۔

ہمیشہ کی طرح، میکرون کو بجا طور پر مغرور اور بے رحم سمجھا جا رہا ہے، جو امیر اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بن کر یہ بوسیدہ اقدام لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ درحقیقت، وہ 19 جنوری کو فرانس میں موجود ہی نہیں تھا، جو ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچز کے ساتھ ’دوستی اور تعاون کے معاہدے‘ پر دستخط کرنے سپین بھاگا ہوا تھا۔ دور میڈریڈ میں کھڑے، اس نے پریس کے سامنے پنشن اصلاح کرنے کا وعدہ کیا، اور کہا کہ ایسا کرنا ”جائز اور ذمہ دارانہ کام ہے“ اور فرانس کو ”ایسا کرنا پڑے گا“۔

بڑھتا ہوا غصّہ

میکرون جب سے منتخب ہوا ہے، پنشن کی ’اصلاح‘ کرنے کا وعدہ اس کی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے۔ پہلے ہی 2019-20ء میں، میکرون کی اس کوشش کے نتیجے میں ملک کے اندر دہائیوں کی سب سے بڑی ہڑتالیں دیکھنے کو ملی تھیں: طبقاتی جدوجہد کی وہ تقریباً باغیانہ لہر جو پیلی واسکٹ تحریک کی صورت میں اُبھری تھی۔

ایک دفعہ پھر، یونینز نے پنشن اصلاح کی کوششوں کے خلاف بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی کال دی ہے؛ اور ایک دفعہ پھر، فرانسیسی محنت کش اس کال پر نکلے ہیں۔

2019ء کی نسبت میکرون کو پہلے سے زیادہ کمزور حالت میں ان نئی ہڑتالوں کا سامنا ہے، جو پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ 2022ء کے انتخابات میں اس نے اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دی، اور کسی پالیسی کو منظور کرنے کے لیے ری پبلیکنز اور نیشنل ریلی جیسی دائیں بازو والی پارٹیوں کے اوپر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔

’این یو پی ای ایس‘ اتحاد (مرکزی اپوزیشن، جس کی قیادت بائیں بازو کی فرانس آں سومیز کر رہی ہے) اور دائیں بازو کی پارٹیوں (جن کی قیادت نیشنل ریلی کر رہی ہے) دونوں کی جانب سے پنشن کی اصلاحات کے حوالے سے دباؤ میں آ کر، میکرون کو اگلے مہینے اسے منظور کرنے کے لیے درمیانے دائیں بازو کے ری پبلیکنز پر انحصار کرنا پڑے گا۔

اور بعض ری پبلکن ممبرانِ پارلیمان کے بھی پیچھے ہٹ جانے کے بعد، اس کا منظور ہونا یقینی نہیں ہے۔ وہ شاید آئین کا آرٹیکل 49.3 استعمال کرنے پر مجبور ہو کر اس اصلاح کو ووٹ کے بغیر نافذ کرے، جو اسمبلی میں آخری آپشن سمجھا جاتا ہے۔ اس حکومت کی بقا کا انحصار شاید اس اصلاح کو منظور کرانے کی اہلیت پر ہو۔

اس کے علاوہ، سماج کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ معاشی بحران فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ پہلے ہی، پچھلے سال اکتوبر میں جب تیل ریفائنری کے مزدوروں کو کام پر واپس بھیجنے کے لیے حکومت نے ریاستی قوت کا استعمال کیا تو اسے صنعتی محاذ پر جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

19 جنوری کو فرانس کے اندر محنت کشوں اور نوجوانوں کے بیچ پائے جانے والا غصہ کافی شدید تھا، جس کا اظہار بڑی تعداد کی صورت ہو رہا تھا، بالخصوص ماغسئی میں 1 لاکھ 40 ہزار، نانت میں 45 ہزار، لیون میں 40 ہزار اور تولوز میں 50 ہزار افراد پر مشتمل متاثر کن مظاہرے ہوئے۔ رین، بوغدو، کاں، سینٹ ایتینے اور دیگر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مظاہروں میں شرکت کی۔

لوگوں کا ایک ہجوم (سی جی ٹی کے مطابق جس کی تعداد 4 لاکھ تھی) پیرس کے اندر ری پبلک سکوائر میں اکٹھا ہوا، جس کی تعداد قریبی سڑکوں اور گزرگاہوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ دارلحکومت کے اندر کئی سالوں کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ اگرچہ احتجاجوں کی اکثریت پُر امن تھی، مگر پولیس نے پھر بھی دوپہر کے وقت آنسو گیس استعمال کیا، اور تقریباً 20 مظاہرین کو گرفتار کیا، جس کے بعد ریلی مشرقی پیرس کی جانب بڑھی اور باستیل کے سامنے سے ہو کر گزری۔

ریلیوں میں اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ ’بس بہت ہو گیا‘۔ 59 سالہ ڈومینیک، جو پرچون کی دکان میں کام کرتی ہے، سے فرانس 24 نے انٹرویو لیا، جس کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ اس سے پہلے ہڑتال میں شریک نہیں ہوئی، بہرحال ”اس مرتبہ میں شرکت کروں گی۔“

اس کا مزید کہنا تھا:

”مجھے پرچون کی دکان میں کام کرتے ہوئے 30 سال ہو گئے ہیں۔ میں ٹینڈونائیٹس کی وجہ سے پہلے ہی دونوں کندھوں کی سرجری کروا چکی ہوں کیونکہ مجھے دن بھر بار بار بھاری سامان اٹھا کر حرکت کرنی پڑتی ہے۔ مجموعی طور پر، مجھے ہر روز 600 کلو کی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنی ہوتی ہیں۔ مجھے دونوں ہاتھوں میں مصنوعی انگوٹھوں کی ضرورت بھی پڑ گئی تھی کیونکہ اس کے جوڑ ڈبوں کو شیلف پر رکھنے سے پہلے پھاڑنے کے باعث بے کار ہو گئے تھے۔ اس لیے اگر مجھے اپنی ریٹائرمنٹ میں تاخیر کرنے کا کہا جائے، چاہے چند مہینوں کے لیے ہو یا سال کے لیے، میں ایسا نہیں کر پاؤں گی۔“

ژان، 29 سالہ معمار، کا بھی یہی کہنا تھا:

”میرے ساتھ کام کرنے والوں کی اکثریت کو 60 سال کی عمر میں کینسر لاحق ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی کینسر سے بچ بھی جائے، 50 سال کی عمر کے بعد گھٹنوں اور کمر کے مسائل، ہتھیلیوں کی بیماری، جوڑوں کی بیماری سمیت طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔

”میرے ساتھیوں میں سے بعض جسمانی طور پر ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ بطخ کی چال چلتے ہیں۔ انہیں مسلسل مدد کی ضرورت پڑتی ہے؛ وہ مزید ٹھیک طرح سے نہیں چل پاتے؛ وہ برباد ہو گئے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو 64 سال کی عمر تک کام کرنا پڑے۔۔۔ جب میں لوگوں کو اس حالت میں دیکھتا ہوں، میں جان لیتا ہوں کہ میں اس عمر تک کام نہیں کر سکتا۔“

بہت سے لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ میکرون کے اس اقدام کا غریبوں کے اوپر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ ریستوران چلانے والے 22 سالہ بالتھزار نے کہا:

”میں اصلاحات کا مکمل مخالف ہوں۔ اس کا مقصد پیسے بچانا ہے، ملکی پیداوار کو بڑھانا ہے، کمپنیوں پر بوجھ کم کر کے لوگوں سے زیادہ کام لینا ہے۔ یہ غریب ہی ہیں جو اس سے متاثر ہوں گے، کیونکہ غریبوں کا 25 فیصد پہلے ہی 62 سال کی عمر تک مر جاتے ہیں، جو انتہائی شرمناک ہے۔“

قابلِ غور بات یہ ہے کہ فرانسیسی ٹریڈ یونینز کی ساری آٹھ فیڈریشنز مشترکہ ایکشن ڈے پر متفق ہوئی ہیں، بشمول سب سے بڑی اور زیادہ قدامت پرست سی ایف ڈی ٹی، جس نے 2019-20ء کی پنشن ہڑتالوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اتحاد کی غیر معمولی سطح محنت کشوں کی تمام پرتوں میں پائے جانے والے غم و غصّے کا اظہار ہے، جس سے انتہائی قدامت پسند یونین قائدین پر بھی دباؤ پڑ رہا ہے۔

ہڑتال بھی کافی بھرپور انداز میں ہوئی ہے۔ فرانس بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ، بالخصوص دارلحکومت میں، مکمل طور پر رُک گئی ہے۔ کئی فلائٹیں کینسل ہوئی ہیں، 70 فیصد اساتذہ نے ہڑتال میں شرکت کی ہے، اور توانائی جیسے کلیدی شعبے کے اندر بھی بڑی تعداد ہڑتال میں شریک ہوئی ہے، جبکہ توانائی کی ریاستی کمپنی ای ڈی ایف نے بجلی کے آؤٹ پٹ کو 7 ہزار میگا واٹ کم کر دیا ہے۔ پبلک ریڈیو سٹیشنز ’فرانس انفو‘ اور ’فرانس انٹر‘ بھی خبریں نشر کرنے کی بجائے مسلسل موسیقی چلاتے رہے ہیں، جبکہ فرانس 2 ٹی وی پرانی نشریات دکھا رہا ہے۔ ہڑتالوں کے باعث فرانس اور برطانیہ کے بیچ سمندر کا اہم تجارتی راستہ بھی متاثر ہوا ہے۔

مزید برآں، متعدد یونینز نے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا نوٹس دائر کیا ہے، جس سے ہڑتالوں کا سلسلہ طویل ہونے کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔ ”یہ پہلا دن ہے، یہ سلسلہ جاری رہے گا“، سی جی ٹی یونین کنفیڈریشن کے قائد فلپ مارٹینیز کا کہنا تھا۔ پہلے ہی، آئل ریفائنری کے محنت کشوں نے اگلے ہفتے اور فروری کے اوائل میں ہڑتالوں کی تاریخیں جاری کر دی ہیں، اور 21 جنوری کو پنشن اصلاحات کے خلاف مزید ملک گیر مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی۔

ہڑتال کی وسعت دو!

مختصر یہ کہ، فرانسیسی محنت کشوں اور نفرت انگیز میکرون حکومت کے بیچ فیصلہ کن تصادم کے تمام اجزاء موجود ہیں۔ کئی سالوں سے میکرون کو اقتدار سے برطرف کرنے کے متعدد مواقع آتے رہے ہیں، مگر یہ سب مواقع محنت کش طبقے کی صنعتی و سیاسی قیادت کے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرنے کے باعث گنوائے جاتے رہے۔

میکرون کا تختہ الٹنے کی غرض سے غیر معینہ مدت کی سیاسی عام ہڑتال منظم کرنے کی بجائے، فرانسیسی محنت کش طبقے کے قائدین نے خود کو مخصوص رجعتی پالیسیوں کی مخالفت تک محدود کیا ہوا ہے، جو محدود ’ایکشن ڈے‘ کی کال دے کر عام محنت کشوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں اور حکومت پر بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے، فرانسیسی محنت کش دیوہیکل عظم و ہمت کے مالک ہیں، مگر یہ لامحدود نہیں ہے۔ وہ پرانی بے کار حکمتِ عملیوں سے تنگ آ چکے ہیں جو ان کی اجرتوں میں کٹوتی کا باعث بن کر بھی کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ بہرحال، 19 جنوری کی ہڑتال ظاہر کرتی ہے کہ سنجیدہ لڑائی کی خواہش اب بھی موجود ہے۔ اس ہڑتال میں تمام بڑی یونینز کا باہمی تعاون بھی آگے کی جانب قدم ہے، جس سے جدوجہد کو مناسب طور پر یکجا کرنے کے حوالے سے نچلی سطح کا دباؤ ظاہر ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دنیا کے کئی حصوں میں دیکھا ہے، موجودہ معاشی بحران کی شدید درندگی صنعتی محاذ کو بھرپور انداز میں متحرک کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے باعث زیادہ سے زیادہ محنت کش اپنا موجودہ معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے لڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اور وہ ٹریڈ یونینز کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کے لیے ان کا رُخ کر رہے ہیں۔ یہ عمل بڑی یونینز کے قدامت پرست اصلاح پسند قائدین کو بھی باہمی تعاون پر مجبور کر رہا ہے، چاہے یہ انہیں پسند ہو یا نہ ہو۔

پچھلے سال کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ڈگ فورڈ کی رجعتی حکومت نے تعلیم کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں کی ہڑتال کو جرم قرار دینے کی کوشش کی تھی، جو صوبہ بھر کی عام ہڑتال کے خطرے کے باعث اس اقدام سے پیچھے ہٹ گئی۔ برطانیہ میں یکم فروری کو دہائی کا سب سے بڑا مشترکہ ہڑتالی ایکشن ڈے منایا جائے گا، جس میں صحت اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ محنت کش، اور ڈاک کے محنت کش سمیت دیگر شعبے ایک ہی وقت میں ہڑتال کریں گے۔ اور فرانس (جہاں ایک روزہ ایکشن ڈے معمول ہے) میں یونین قائدین قوتیں یکجا کرنے پر مجبور ہیں، جو اپنے اراکین کو محفوظ راستوں پر چلانے کی جدوجہد کریں گے۔

ممکن ہے کہ ایک یا دوسرا شعبہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا اعلان کرے گا، جو حالات میں تیزی لانے کا باعث بنے گا اور یونین قائدین کو آگے دھکیلے گا۔ اس کے بعد جو چیز لازم ہوگی وہ ملک گیر سطح پر غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا، میکرون حکومت کا تختہ الٹنے کے واضح مقصد کے ساتھ۔

پنشن اصلاح کے حالیہ حملے کو اگرچہ روکنا لازم ہے، مگر مزدور قائدین خود کو محض اس کی مزاحمت تک محدود نہیں رکھ سکتے، کیونکہ یہ اصلاح محض اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مطالبات کا اظہار ہے جس کی خدمت پر میکرون ایمانداری سے مامور ہے۔ اگر اسے اب روک بھی دیا جائے، بعد میں اس کی کوشش ضرور ہوگی، اور دیگر تمام شعبوں پر بھی حملے جاری رہیں گے۔

جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، الگ الگ ایکشن ڈے چاہے جتنی بھی مرتبہ اور کتنی ہی بڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں، میکرون اس کا سامنا کر سکتا ہے۔ ایک سنجیدہ پروگرام فرانسیسی سماج کی وسیع تر پرتوں کو متحرک ہونے کی جانب مائل کر سکتا ہے، جو سارے اس ’مختارِ کُل‘ صدر سے یکساں طور پر شدید نفرت کرتے ہیں، اور جو سب اس بحران تلے دب رہے ہیں جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں، مگر پھر بھی ان سے قیمت چکانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ متحرک ہونے کا ایک مناسب منصوبہ عوام کو لڑائی میں شریک ہونے کا اعتماد دلائے گا۔

آخری بات یہ کہ، وہ سماج جس میں محنت کش طبقہ جمہوری طور پر معیشت کو منظم کرے، محض وہ سماج ہی عام لوگوں کو شائستہ زندگی اور بڑی عمر میں تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ میکرون کے خلاف لڑائی کو فرانسیسی سرمایہ داری کے خلاف لڑائی کا حصہ بنانا ہوگا، جو فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کو کافی لمبے عرصے سے لوٹ رہی ہے۔

مزید بہانے نہیں! مزید بے کار حکمتِ عملی نہیں!

غیر معینہ مدت کی ملک گیر سیاسی ہڑتال کی جانب بڑھو!

پنشن کی ردّ اصلاحات کو شکست دو!

میکرون مستعفی ہو!