اسرائیل: حکمرانوں کی باہمی لڑائی میں عوامی تحریک کا ابھار، 7 لاکھ افراد سڑکوں پر!

اسرائیلی حکمران طبقے کے اندر ایک شدید آپسی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ بنیامین ’بی بی‘ نیتن یاہو کو اپنے عہدے پر واپس آئے صرف دو مہینے ہی ہوئے ہیں اور وہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے جوڈیشل ریفارم کا قانون جلد از جلد پاس کروانا چاہتا ہے خواہ اس کے لیے سب کچھ بلڈوز کرنا پڑے۔ ایسا کرنے سے اس نے بڑے سرمایہ داروں کی اکثریت کو مشتعل کیا جنہوں نے مظاہروں کا غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔ جب حکمران طبقہ اس طرح کھلے تصادم میں اترتا ہے تو یہ ان کے لیے ’عام‘ حالات میں اپنی حکمرانی کی اصل سازشوں کو چھپانے والے پہلووں کو بے نقاب کرنے کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ موجودہ تنازعہ بھی اس سے الگ نہیں ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

موجودہ صورتحال کی جڑیں کئی دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہیں جس میں اسرائیل کے پورے حکمران طبقے (یکساں طور پر اس کے قدامت پسند اور نام نہاد ’لبرل‘ بازو) نے زمینوں اور علاقوں پر قبضے، اسرائیلی غیر قانونی کمیونٹیوں کا قیام اور فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک کی ظالمانہ پالیسیاں اپنائے رکھی ہیں۔ اسرائیل کے یہودی محنت کشوں کو ریاست کے قریب لانے کے لیے یہودیوں اور عربوں کے درمیان نفرت اور خوف کو استعمال کیا جاتا ہے جو اس ریاست کی پالیسی کے نتیجے میں ہی پھیلا ہے۔

ہر حکومت نے اسی محصور ذہنیت کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ لیکن جیسے ڈاکٹر فرینکنسٹائن کا بنایا گیا دیو اس کے کنٹرول سے پھسل گیا، اسی طرح اسرائیلی حکمران طبقے نے انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں اور انتہائی بنیاد پرستوں کی ایک بے قابو، جنونی تحریک پیدا کر دی ہے، جس کی جڑیں خاص طور پر مغربی پٹی میں آباد کاروں کی تحریک میں گہری ہیں۔ انہوں نے تیزی سے سیاسی اثر و رسوخ کے استعمال کے ذریعے رہنماؤں کو اقتدار میں لانے کا کردار سنبھال لیا ہے اور اپنے نمائندوں کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پرپہنچا دیا دیا ہے، اور یہ اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کی پرواہ کیے بغیر اپنے راستے پر گامزن ہیں۔

اب-بینیٹ-لاپیڈ ’نیتن یاہو کے علاوہ باقی سب‘ کے اتحاد کے 18 ماہ کے مختصر وقفے کے بعد اورکچھ حد تک ان ہی کی بدولت-نیتن یاہو دوبارہ اقتدار میں آ گیا ہے۔ اس بار وہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی کر رہا ہے جس میں نیو-کہانسٹ اوٹزما یہودیت پارٹی شامل ہے جس کی قیادت اتمار بین-گویر (اب قومی سلامتی کے وزیر) کر رہا ہے، جو مغربی پٹی کے مکمل قبضے اور اسرائیل سے عربوں کو نکالنے کی حمایت کرتا ہے۔ اس اتحاد میں مذہبی صیہونیت پارٹی بھی شامل ہے جس کی قیادت بیزالل سموترچ (اب وزیر خزانہ) کر رہا ہے، ایک شخص جس نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ”میں ایک فاشسٹ ہوں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتا ہوں، لیکن میں اپنی بات کا مان رکھنے والا آدمی ہوں۔“

جیسے ہی وہ اقتدار میں آئے انہوں نے ایک قانون سازی کا ایجنڈا تیار کیا جس نے حکومت اور حکمران طبقے کے بڑے حصے کی آپسی لڑائی کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنا مقصد عدلیہ میں ’اصلاح‘ کرنا کا مقرر کیا، اس طرح کہ سپریم کورٹ قانون سازی کو ختم نہیں کر سکے گی، جب کہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں سادہ اکثریت ججوں کی تقرری کے لیے کافی ہوگی۔

اتحاد میں شامل ہر پارٹی کے اپنے مقاصد ہیں۔ کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے جنونی عدالتوں کو بالشویزم کے گڑھ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو صرف خدا کے چنے ہوئے لوگوں کے لیے پورے ایرٹز اسرائیل کو دوبارہ فتح کرنے کے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے پرعزم ہیں۔ نیتن یاہو کے مقاصد میں ذاتی اور دنیاوی پہلو شامل ہیں، کیونکہ وہ کرپشن، رشوت خوری اور دھوکہ دہی کے متعدد الزامات سے بچنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رجعتی قوتوں پر انحصار اس کی مجبوری ہے، ایسی قوتیں جو اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔

بی بی بمقابلہ سرمایہ دار

ان اصلاحات نے سرمایہ دار طبقے کے ایک بڑے حصے کی بغاوت کو جنم دیا ہے۔ آسان الفاظ میں، سرمایہ دار طبقہ مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ ’جمہوریت‘ کے تحت اختیارات کی علیحدگی کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ ان کے طبقے میں سے کوئی فرد یا افراد کا گروہ نظام کو اپنے حق میں استعمال نہ کر سکے۔ سرمایہ داروں کی ”جمہوریت“ اور ”عدلیہ کی آزادی“ کی ساری باتوں کا خلاصہ یہی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ نیتن یاہو اور ان کا گروہ ریاست پر اپنا کنٹرول اپنے حق میں ’غیر منصفانہ‘ طور پر استعمال کرے گا۔

اور سرمایہ دار طبقہ واقعی اپنے اصل مقصد کو چھپا نہیں رہا۔ ٹائمز آف اسرائیل اس حقیقت کی وضاحت ایک مضمون میں کرتا ہے جس کا طویلی حوالہ دینا چاہیئے:

”حالیہ ہفتوں میں ٹیکنالوجی کمپنیوں، پیسے بنانے والوں، کاروباری تنظیموں، پالیسی سازوں، اور ممتاز ماہرین اقتصادیات نے بار بار خبردار کیا ہے کہ عدالتی اصلاحات کا منصوبہ، جو جمہوریت کو خطرہ ہے، سرمایہ کاری کے لیے ایک مستحکم مرکز کے طور پر اسرائیل کے موقف کو نقصان پہنچائے گا۔

اس بات کا خطرہ ہے کہ عدالتی نظام کے کمزور ہونے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور غیر ملکی سرمایہ کار اسرائیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے سے ڈریں گے۔ اس کے نتیجے میں مقامی اور عالمی کاروبار یہاں سے کہیں اور جانے پر مجبور ہوں گے۔

متعدد اسرائیلی ’یونیکورن‘ ]ایسی کمپنیاں جن کی مالیت 1 ارب ڈالر سے زیادہ ہے[ پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دباؤ کی وجہ سے اسرائیلی بینکوں سے بڑی رقوم نکال کر بیرون ملک بینکوں میں رکھ رہے ہیں۔

اسرائیلی سائبر سیکیوریٹی کمپنی ویز، جس کی مالیت 6 ارب ڈالر ہے اور اسے امریکی سرمایہ کاری کی کمپنیوں انسائٹ پارٹنرز اور گرینوکس کیپیٹل کی حمایت حاصل ہے، نے گزشتہ ہفتے تصدیق کی کہ وہ سرمایہ کاروں کے فنڈز کو پھیلانے کے لیے دسیوں لاکھوں ڈالر اسرائیلی بینکوں سے منتقل کر رہی ہے۔“

امریکی سفیر تھامس نائیڈز نے اضافہ کیا کہ ”آپ صحیح کر رہے ہیں، ٹھیک ہے؟ عدالتی نظام ایک طویل عرصے سے قائم ہے، جس نے جدت، ٹیکنالوجی، پیسہ کمانے، اور معیار کو پھلنے پھولنے کی اجازت دی ہے-ایسا ہی ہوا۔“

”پیسہ کمانا“-سب کچھ اس لیے ہی ہے! جب ہم اتنا پیسہ کما رہے ہیں تو موجودہ حالات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟

مظاہروں کا آغاز کاروباروں سے درخواستوں کی بھرمار سے ہوا۔ ایچ ایس بی سی اور جے پی مورگن دونوں نے انتباہ جاری کیے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی، ایس اینڈ پی، نے اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی دھمکی دینے کا انتہائی غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔ بہت سے لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ سب مارکیٹ کے انہدام کا سبب بن سکتا ہے، جیسا کہ لِز ٹرس کے تجربے نے گزشتہ خزاں میں برطانیہ میں کیا تھا۔

لیکن جب درخواستوں سے کام نہیں بنا تو سرمایہ دار طبقے کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ سخت کاروائی کرنی ہوگی۔

میڈیا کے اہم اداروں نے ان کی بیان بازی کو بڑھاوا دیا ہے، نیتن یاہو کے اس اقدام کا کافی چونکا دینے والی زبان میں حوالہ دیتے ہوئے وہ اسے ”جمہوریت پر حملہ“ سے بھی آگے، ”انقلاب“، ”کُو“، اور یہاں تک کہ ”حکومت کی تبدیلی“ کا نام دے رہے ہیں۔

جنوری کے بعد سے ہر ہفتہ کو، مالکان نے ’جمہوریت کے حامی‘ مظاہروں کی بھرپور حمایت کی ہے جو بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

اس عجیب و غریب ’سیاسی سرگرمی‘ میں ٹیکنالوجی سیکٹر کی کمپنیوں نے خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے لیے پریشانی کی خاص وجہ ہے کیونکہ یہ اسرائیل میں نسبتاً نئے ہیں اور حکومتی اتحاد میں ان کا اثر و رسوخ نہیں ہے۔ سماجی طور پر لبرل شہری پرتوں کے ساتھ جڑا یہ شعبہ ان بنیاد پرست حریدم جس پر نیتن یاہوانحصار کرتا ہے اور جو سیکولر تعلیم کو مسترد کرتے ہیں سے خاصہ الگ اور دور ہے۔

21 جنوری کی ریلی میں ان ہی ٹیک سٹارٹ اپ کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والے گروہ کے ایک بینرپر لکھا تھا: ”ہماری سٹارٹ اپ قوم کو بچائیں“۔ 13 فروری کو ’ہڑتالی کارروائی‘ کے دن کا اہتمام کیا گیا جس کا اعلان ہسٹادرٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن نے نہیں بلکہ 300 ٹیک کمپنیوں اور وینچر کیپیٹل فنڈز (نئے کاروباروں میں لگائی جانے والی رقوم کی کمپنیوں) کے ایک گروپ نے کیا تھا۔

احتجاجوں میں کمپنی مالکان، سابق جرنیلوں اور سابق وزرائے اعظم نے خطاب کیے۔ یہاں تک کہ موساد کے سابق سربراہ، تمیر پارڈو بھی اس میں شامل رہا ہے اور ہاریٹزکو ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ: ”ایک گہری تشویش ہے کہ ہم گہری کھائی کے قریب پہنچ رہے ہیں“۔ اسی طرح کے جذبات کا اظہار دائیں بازو کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کیا اور ”اسرائیل میں خانہ جنگی“ کے بارے میں خبردار کیا۔

میڈیا کی بھرپور حمایت اور کاروباروں کے تعاون سے یہ احتجاج، ’ہڑتالیں‘ اور سڑکوں کی بندشیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کچھ منتظمین کا اندازہ ہے کہ تقریباً 5 لاکھ لوگوں نے حالیہ ہفتے احتجاج میں حصہ لیا۔

یہاں تک کہ فوج بھی متاثر ہوئی ہے۔ 8 فروری کو اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کے تحفظ پسندوں نے مارچ کیا۔ اب تک 350 افسروں اور سپاہیوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالتی اصلاحات کو آگے بڑھایا جاتا رہا تو وہ ریزروسٹ کے طور پر کام کرنے سے انکار کردیں گے۔ ریاست کے اوپری حصے میں تقسیم پوری طرح نیچے تک پھیل چکی ہے۔ ایک واقعے میں 40 سے زیادہ پائلٹوں کے ایک پورے سکواڈرن نے تربیت کے لیے آنے سے انکار کر دیا، اور دوسرے سکواڈرن نے بھی ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔

عام طور پر اسرائیلی حکمران طبقہ اور میڈیا ایسے ’ردکاروں‘ پر زہر اگلتے ہیں، انہیں غدار قرار دیتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے کیا جب اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں پر ظلم کی حمایت کرنے سے انکار کیا۔ اب وہ اپنے مقصد کے لیے ان سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں -اگرچہ، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس خطرناک عمل کی حوصلہ افزائی کرنے پربعد میں افسوس کرسکتے ہیں۔

ہاریٹز میں ایک بہت ہی دلچسپ مضمون

16 فروری کو اسرائیل کے لبرل روزنامہ اخبار ہاریٹزنے ایک قابل ذکر مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا، ”بی بی کی غلطی: اس نے اسرائیلی اشرافیہ سے دشمنی پال لی ہے“۔

جو چیز اس مضموں کو قابل ذکر بناتی ہے وہ اس کی بے تکلفی ہے جس سے سرمایہ دارانہ ’جمہوریت‘ کی اصلیت کے بارے میں اس میں لکھا گیا ہے۔ ہم اسے یہاں طوالت میں شامل کر رہے ہیں کیونکہ، غیر معمولی بے تکلفی میں، یہ ہمیں نہ صرف اس بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے کہ نا صرف اسرائیل میں بلکہ ہر جگہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کیسے کام کرتی ہے:

”حتیٰ کہ جدید جمہوریتوں میں جہاں ہر بالغ کو ووٹ کا حق حاصل ہے، سماجی اور سیاسی حقیقت یہ ہے کہ کچھ ووٹروں کے پاس دوسروں سے زیادہ طاقت ہوتی ہے، جسے وہ پولنگ کے کافی عرصے بعد تک استعمال کرتے ہیں۔

”ایک ہائی ٹیک سرمایہ کار اور ایک بڑی کمپنی کے مالک کے پاس صرف ایک ووٹ ہوتا ہے جب وہ پولنگ کے مقام پر جاتا ہے لیکن اس کے پاس بہت زیادہ ’ووٹ‘ ہوتے ہیں، یا زیادہ واضح طور پر، اس کی نوکریاں دینے اور معیشت کو طاقت دینے کی صلاحیت کی وجہ سے اس کے پاس بہت زیادہ سیاسی اثر ہوتا ہے۔ یہی بات سرکردہ سیاسی کارکنوں، صحافیوں، سائنسدانوں، انجینئروں اور دانشوروں پر بھی لاگو ہوتی ہے، جنہیں الیکشن کے دن ایک ووٹ ملتا ہے لیکن جن کی معیشت اور معاشرے میں شراکت ان کی رائے کو نتیجہ خیز بناتی ہے۔

”یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو طاقتور، خوشحال اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے جدید ملک بنایا ہے۔ یقینی طور پر، یہ تمام اشرافیہ عدالتی اختیارات میں تبدیلی کی مخالفت نہیں کرتی۔ لیکن رائے شماری کے اعداد و شمار ان تبدیلیوں کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان سماجی و اقتصادی تقسیم کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔“

واضح رہے کہ یہ اخبار ’جمہوریت کی حامی‘ تحریک کی مکمل حمایت کرتا ہے، اور ’اشرافیہ‘ کے اضافی ’ووٹ‘ استعمال کرنے کی طاقت جو ان کی طبقاتی حیثیت انہیں دیتی ہے کے بارے میں بہت پرجوش ہے۔ تاہم ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہر جگہ اس طرح ہی کام کرتی ہے۔ آزاد ترین جمہوریت کے تحت، عوام کی بڑی تعداد ووٹنگ کے مساوی حقوق سے لطف اندوز ہوتی ہے لیکن صرف کاغذ پر۔ لیکن جیسے ہی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو خطرہ ہوتا ہے-ان کے اپنے طبقے کے کسی دھڑے یا فرد سے یا اس سے بھی زیادہ خطرناک، محنت کش طبقے کی حمایت یافتہ بائیں بازو کی حکومت سے-پھر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی طاقت کس کے پاس ہے۔ مضمون میں مزید لکھا ہے:

”یہاں وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا مسئلہ ہے: انتخابات نے اسے اور اس کے مذہبی اور دائیں بازو کے اتحادیوں کو کنیسٹ کی واضح اکثریت دی، لیکن اسے ان لوگوں سے عدالتی اصلاحات کی حمایت حاصل نہیں ہے جو بنیادی طور پر اسرائیل کو چلاتے ہیں۔ نیتن یاہو تل ابیب میں ہونے والی ریلیوں کو نظر انداز کر سکتے تھے، لیکن جب ہائی ٹیک لیڈران، بینکرز، ماہرین اقتصادیات اور کاروباری لوگوں نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا تو ان کے لیے فکر مند ہونے کا وقت آ گیا ہے۔“

دوسرے لفظوں میں،سرمایہ داری کے تحت اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے ’جمہوری عمل‘ سے حاصل کی گئی پارلیمانی اکثریت کافی نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر، کسی بھی حکومت کو ان لوگوں کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرے کو چلاتے ہیں یعنی ”ہائی ٹیک لیڈران، بینکرز، ماہرین اقتصادیات اور کاروباری لوگ“! اور، جیسا کہ اس مضمون میں لکھا ہے، نیتن یاہو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے:

”ان کے انتہائی دائیں بازو اورانتہائی بنیاد پرست اتحادی اپنے نظریات کو فروغ دینے اور اپنے حلقوں کی خدمت کے لیے زیادہ فکر مند ہیں۔ لیکن نیتن یاہو اس قسم کا نظریاتی نہیں ہے۔ وہ عسکری اور اقتصادی طور پر طاقتور ملک بنانے کے لیے زیادہ فکر مند ہے۔

”آباد کار ہر سال اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں لا سکتے، حریدم کے پاس فوج کے اعلیٰ ترین ہائی ٹیک یونٹس میں خدمات انجام دینے کے لیے تعلیم اور مہارت نہیں ہے اور سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسرائیل کی کم ٹیکنالوجی کی صنعتوں کی تیار کردہ مصنوعات میں دلچسپی رکھتا ہے۔“

نام نہاد ”جمہوریت“ کی اس تحریک کے پیچھے اصل مفادات یہ ہیں۔ اگرچہ اس تحریک نے یقیناً ہزاروں کارکنوں کو متحرک کیا ہے، لیکن اس تنازعہ میں کسی بھی فریق کی قیادت اسرائیلی محنت کشوں یا فلسطینی عوام کے مفادات کے لیے نہیں کھڑی۔

درحقیقت، بائیں بازو کے کچھ مبصرین کی طرف سے (مایوسی اور الجھن میں) یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ تحریک نے اسرائیلی ریاست کی جمہوریت سے اصل غداری کے خلاف نعرے کیوں نہیں لگائے؟ فلسطینیوں پر ظلم اور ان کی زمینوں پر قبضے کے خلاف نعرے کیوں نہیں لگائے؟ لیکن حکمران طبقے کے اس ”جمہوریت کے حامی“ گروپ کی پوری دلچسپی فلسطینیوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے میں ہے، جیسا کہ اس نے دہائیوں سے کیا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کی بنیادی غرض یہ ہے کہ اپنے تنگ نظر انفرادی مفادات کے لیے اس پالیسی کو انتہا تک پہنچا کر نیتن یاہو ایسی طاقتوں کو جنم دے رہا ہے جن پر قابو پانا ناممکن ہے اور یہ پالیسی اس کے اپنے مفادات کے خلاف جا سکتی ہے۔

فلسطینیوں کو متحرک کرنے والے مطالبات کے برعکس، دائیں بازو کے پریس میں نیتن یاہو کے کچھ مخالفین نے وضاحت کی ہے کہ فوج میں حکومت کی کم ہوتی حمایت، اس کی عدالتی اصلاحات کے معاشی نقصان، اور حکومت کی امریکی سامراج سے بیگانگی، ”نیتن یاہو کے مغربی پٹی پر قبضے میں مشکلات اورایران کے خلاف کسی یکطرفہ فوجی کارروائی میں رکاوٹیں پیدا کریں گے!“ دوسرے لفظوں میں وہ ایک جارحانہ صیہونی پالیسی کے حقیقی اور سنجیدہ محافظ کے طور پر سامنے آتے ہیں!

یہ حقیقت فلسطینی عوام کے سامنے واضح ہے جو نیتن یاہو کے لیے اپنی گہری نفرت کے باوجود اس تحریک سے تقریباً مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ وہ کیسے اس عدالتی نظام کا دفاع کریں جس نے یہودیوں کی قومی ریاست کے قانون کی منظوری دی تھی، جس نے ان کے ہزاروں نوجوانوں کو قید کیا ہے، اور جو شیخ جراح کی طرح فلسطینیوں کی بے دخلی اور نئی اسرائیلی کمیونٹیوں کے حق میں باقاعدگی سے فیصلے کرتا ہے؟

لیکن پھر بھی حکمران طبقے میں اس تقسیم کا بغور مطالعہ کرنا اسرائیل اور فلسطین کے انقلابیوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اس خطے اور دیگرکے محنت کشوں کے لیے اہم اسبق سے بھرا ہوا ہے۔

اس کا اختتام کیا ہوگا؟

امکان ہے کہ بحران عروج پر پہنچنے سے پہلے مزید گہرا ہوگا۔ بی بی کی ہچکچاہٹ اور پیچھے ہٹنا اس کا زوال ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن کوئی اور اتحاد نہیں بنا سکتا، اورانتخابات بحران سے دوچار کنیسٹ میں تعطل کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔

اگر بی بی پیچھے نہیں ہٹتا تو حکمران طبقہ عدالتی اصلاحات کے پاس ہونے کی صورت میں ”تمام آئینی بحرانوں کی ماں“ کی تنبیہ کر رہا ہے۔

جب سپریم کورٹ اپنے پروں کو کاٹنے کے لیے بنائے گئے قوانین کے خلاف فیصلے کرے گی تو کیا ہوگا؟ اورایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں جب سیکیورٹی سروسز ایک طرف وزیر اعظم اور دوسری طرف اٹارنی جنرل کی طرف سے آنے والے متضاد احکامات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گی۔ مختصر یہ کہ اسرائیل پہلے کبھی نہ دیکھے گئے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ماضی میں، مشکل حالات میں نیتن یاہو نے فلسطینیوں پر نئی قاتلانہ جنگوں کے ذریعے توجہ ہٹانے کی کوشش کی، جیسا کہ 2021ء میں غزہ میں ہوا۔ اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا، جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ حکومت پہلے ہی فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحیت کو تیز کر رہی ہے، نئی کمیونٹیوں کے قیام کی کی منظوری دے رہی ہے، اور مغربی پٹی میں فلسطینی قصبوں کو بند اور ان پر چھاپے مار رہی ہے۔

سال کے دو مہینوں میں اب تک اسرائیلی ریاستی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 67 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جبکہ 2022ء میں مغربی پٹی اور مشرقی یروشلم میں 170 فلسطینی مارے گئے تھے۔ہمیں یہ بھی نوٹ کرنا چاہیے کہ 2022ء میں مغربی پٹی میں 2021ء کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ فلسطینی مارے گئے، جس سے یہ 2005ء کے بعد سے سب سے زیادہ خونریزسال بنا۔ اور یہ بینیٹ لیپڈ حکومت کے دور میں ہوا۔

لیکن حکومت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی موجودگی نے اب یقینی طور پر فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست تصادم کے خواہاں جنونی آباد کاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ 26 فروری کو فلسطینی قصبے حوارا میں سینکڑوں افراد نے دھاوا بول دیا، درجنوں گاڑیوں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا اور ایک شخص کو ہلاک کر دیا جسے ایک سینئر اسرائیلی جنرل نے ”قتل عام“ قرار دیا۔ سموٹریچ نے ان واقعات کے جواب میں ہوارا کو ”مٹا دینے“ کا مطالبہ کیا۔

فلسطینیوں کے ساتھ یہ مسلسل مظالم خاص طور پر نوجوانوں میں مایوسی پیدا کر رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی بوسیدہ قیادت، جو ہر لمحہ قبضوں کی ہمایت کرتی ہے، مکمل طور پر بدنام ہو چکی ہے۔ فلسطینیوں کی ایک بڑی اکثریت اب پی اے کے صدر محمود عباس سے نجات چاہتی ہے، جب کہ 59 فیصد فلسطینی پی اے کو محض اپنی پیٹھ پر ایک بوجھ کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس کا واضح طور پر اظہار مئی 2021ء میں بڑے پیمانے پر متحدہ فلسطینی عام ہڑتال ’اتحاد انتفادہ‘ میں کیا گیا۔

قیادت کا ایک بڑا خلا موجود ہے، جب کہ فلسطینی عوام پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ’اتحاد انتفادہ‘ کی عوامی تحریک سے کسی متبادل قیادت کے نہ ابھرنے کی وجہ سے نوجوان چیزیں اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ جبکہ پے اے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے۔ نوجوان جنین، نابلس میں ’لائنز ڈین‘ گروپ اور دوسری جگہوں پر لڑائی کے مقصد سے گروپوں میں منظم ہو رہے ہیں۔ اسرائیل میں عوامی تحریک بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف ہم نے سال کے آغاز سے فلسطینیوں کی دو عام ہڑتالیں دیکھی ہیں۔ ایک مشرقی یروشلم میں اسرائیلی پولیس کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے خلاف اور دوسری غزہ، مغربی پٹی اور مشرقی یروشلم میں نابلس میں آئی ڈی ایف کے ذریعے مسلح جنگجو نوجوانوں کا قتل کرنے کے لیے چھاپوں کے خلاف۔

اگرچہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے خلاف انفرادی انتقامی حملے مکمل طور پر قابل فہم ہیں اور فلسطینیوں کی بربریت کے پیش نظر شاید ناگزیر ہیں، لیکن ضروری ہے کہ عوامی تحریک سے منسلک بڑے پیمانے پر مسلح دفاعی گروپوں کو تیار کیا جائے جو فلسطینی قیادت کے بوسیدہ دھڑوں کے متبادل کے طور پر واضح انقلابی مقاصد پر مبنی ہوں۔

پرانے حالات کی طرف واپسی کوئی حل نہیں ہے

اسرائیل کے سرمایہ دار طبقے کی شدید تقسیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکمران طبقے میں اس طرح کی تقسیم اکثر ایسے لمحات فراہم کرتی ہے کہ محنت کش طبقہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مطالبات کے ساتھ منظر پرآتے ہیں۔ درحقیقت، صرف محنت کش طبقے پر مشتمل کا ایک آزاد، انقلابی متبادل ہی اس بربریت کو ختم کر سکتا ہے جس کے لیے اسرائیلی حکمران طبقے کے تمام بازو ذمہ دار ہیں۔

سرمایہ داری کے گہرے بحران، گھروں کے بحران اور اسرائیلی معاشرے کو تباہ کرنے والے متعدد دیگر سماجی بحرانوں کے تناظر میں، یقینی طور پر ایسی تحریک کے امکانات موجود ہیں۔ موجودہ مظاہروں کی اتنے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی قابلیت (90 لاکھ کی کے ملک میں 50 لاکھ لوگوں کی مظاہروں میں شمولیت ایک بڑی تعداد ہے) معاشرے اور خاص طور پر متوسط طبقے میں ایک گہری ہلچل کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ ایک اہم علامت ہے، خواہ مظاہروں کا کردار عام طور پر رجعتی ہے۔ نیتن یاہو، جو 2009ء سے 2021ء تک برسراقتدار رہا، گزشتہ دور کی کٹوتیوں اور عدم استحکام کا مکروہ چہرہ ہے۔

اگرچہ سرمایہ دارانہ قیادت نے ”جمہوریت“ کے جھوٹے نعرے تلے محض نیتن یاہو کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننے کے اپنے مقصد کو چھپاتے ہوئے ان مظاہروں کواپنا سیاسی رنگ دے دیا ہے لیکن مظاہرین کا بڑا حصہ حالات کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا۔ مقررین نے تقاریر میں فلسطینیوں پر قبضے اور بربریت کے بارے میں بہت کم یا کچھ نہیں کہا لیکن کچھ مظاہروں میں خودرو طور پرحواری قتل عام کے خلاف نفرت کے نعرے بلند کیے گئے۔ اور ایک ’لڑاکا پسند گروپ‘ اور ’قبضہ مخالف گروپ‘ نے شروع سے مظاہروں میں حصہ لیا ہے اور ہر ہفتے کے ساتھ یہ معمولی طور پر بڑھ رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان گروپوں نے کچھ مثبت ردعمل کی اطلاع دی ہے، خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے، لیکن انہوں نے کئی لوگوں کی طرف سے مسلسل ہراساں کیے جانے کی اطلاع بھی دی ہے۔

اصل نکتہ یہ ہے کہ ان مظاہروں کوطبقاتی سوال کے گرد محنت کش طبقے کی آزاد تحریک کے ذریعے طبقاتی بنیادیں فراہم کی جائیں۔ لیکن اس میں ایک بڑی رکاوٹ موجود ہے یعنی مختلف سرمایہ دارانہ دھڑوں کی متبادل محنت کشوں کی قیادت کا فقدان۔ اسرائیل میں ’لیبر‘ اور ٹریڈ یونین کے رہنما کئی دہائیوں سے صیہونی حکمران طبقے کی دم کی طرح ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔

ایک مارکسی تنظیم بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے جو محنت کشوں اور مظلوموں کو ایک حقیقی انقلابی پروگرام پر متحد کر سکے، جو پورے خطے میں سرمایہ داری کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کے لیے لڑ سکے۔ صرف یہی ایک ایسا مستقبل فراہم کرنے کے قابل ہے جس میں اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امن کے ساتھ رہ سکیں گے۔ یہ ماضی کی جانب سفر نہیں ہے، اور عالمی مارکسی رجحان اس کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔