برطانوی شاہی خاندان: کھیل تماشا ختم ہو چکا!

ایک اطالوی کہاوت ہے کہ: مذاق ختم ہوا۔ سرکاری طور پر دس دن کے مسلط کردہ ”قومی سوگ“ کے بعد ویسٹ منسٹر ایبی (تاریخی چرچ جہاں برطانوی بادشاہوں اور ملکاؤں کی تاج پوشی ہوتی ہے) میں 19 ستمبر پیر کے دن ملکہ الزبتھ کا ریاستی جنازہ منعقد کیا گیا۔

[Source]

یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج برطانیوں سے بہتر یہ کام کوئی نہیں کر سکتا۔ اور کیوں نہیں؟ انہوں نے کئی نسلوں کی مشق میں اس کام کو ایک شاندار فن بنا دیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر پھر اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے اسے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب عوام کو مسلسل قربانیاں دینے اور اپنے معیارِ زندگی میں کٹوتیاں قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے، شاہی تماشے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ حکمرانوں کو اس بات کی رتی برابر بھی پراوہ نہیں کہ لاکھوں کروڑوں برطانیوں کو گھروں کو گرم کرنے یا میز پر روٹی رکھنے کے درمیان فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک بوڑھی عورت کی لاش کے تمام لوازمات ہر چیز پر اولین ترجیح ہیں۔

ملکہ کے تابوت پر شاہی پرچم، شاہی تاج اور حاکمیت کا شاہی گولہ اور عصاء (Orb and Sceptre) رکھ کر اسے شاہی بحریہ کے ریاستی گن کیرج پر 142 ملاح کھینچ کر لے جا رہے تھے۔ لگتا ہے پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے ملاحوں کی خدمات لینے پر مجبور کر دیا!

ہمیشہ کی طرح گارڈ بریگیڈ کی تمام حرکات و سکنات میں شاندار مہارت اور شاہانہ رعب و دبدبہ تھا۔ پوری دنیا میں ایسی کوئی فوج موجود نہیں ہے جو اس طرح کی تقریبات میں ایسے سخت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے۔ دیگر نقالی کی کوششیں کر سکتے ہیں لیکن ان میں صدیوں کی سامراجی حاکمیت اور پرعزم اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھاری بھرکم وقار اور متانت موجود نہیں کہ اگرچہ برطانیہ اب سمندری لہروں کا بے تاج بادشاہ نہیں رہا لیکن کم از کم ہم کچھ تو کر سکتے ہیں!

شاہی لاش لندن میں گھمائی پھرائی گئی (یا کم از کم امیر علاقوں میں جہاں آج زیادہ تر تیل کے پیسوں سے مالا مال عرب شیوخ اور ان کے چاپلوسوں کی رہائشیں ہیں) اور انتظار کرنے والے شائقین کو ہماری شاندار برطانوی پولیس نے ایک محفوظ فاصلے پر دور رکھا جو آج کل کسی بھی مشکوک جمہور پسند کو مستعدی سے گرفتار کر رہی ہے۔

ساری تقریب میں سکاٹ اور آئرش رجمنٹوں کے ڈھول باجوں نے شاندار تفریحی موسیقی بجائی جن کے ساتھ شاہی ایئر فورس اور گرکھا بھی شامل تھے۔ شام کی اس دلفریب تقریب میں سب سے زیادہ تفریحی موسیقی مسٹر فریڈرک شوپان کا ”جنازہ مارچ“ تھی۔

اور پھر یوں ہوا کہ شاہی خاندان کے افراد کی موجودگی میں ملکہ کی باقیات کو انتہائی آرام دہ ماحول میں انسانی محنت نے ٹرانسپورٹ کیا۔ ان میں نیا بادشاہ بھی شامل تھا جسے رعایا پیار سے ”بڑے کانوں والا“ کے نام سے پکارتی ہے۔ لیکن اب شاہی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ وہ بادشاہ چارلس سوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے دونوں بیٹوں شہزادہ ولیم اور ہیری نے قابلِ تعریف کوشش کی کہ ایک دوسرے کے لئے اپنی زہریلی نفرت کو مصنوعی بھائی چارے کی اعلیٰ نمائش میں پوشیدہ رکھا جائے۔ ان کی نئی سوتیلی ماں کامیلا روزمیری شینڈ، بعد میں پارکر باؤلز (برطانیہ کی ساتھی ملکہ) نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ملکہ بن کر دکھائے۔

صد افسوس کہ یہ کوشش اس لئے بری طرح ناکام ہوئی کہ عوام شائد اس سے شدید نفرت کرتی ہے۔ اگرچہ چند ایک کو ہی اپنے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرنے کی ہمت ہوتی ہے کیونکہ شدید غداری اورشاہی عظمت میں بے توقیری کے الزام میں فوری گرفتاری اور ٹاور آف لندن میں سرکاری رہائش کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں مذاق کر رہا ہوں تو آپ ایک نظر حقائق پر ڈالیں۔ ”قومی سوگ“ کا پورا عرصہ برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا سیکورٹی آپریشن بتایا جا رہا ہے اور تمام مخالف آوازوں کو ریاستی قوتوں نے کچل رکھا ہے۔ سائمن ہل نامی ایک آکسفورڈ رہائشی کو نئے بادشاہ کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب کے پاس سے گزرتے ہوئے صرف ”اس کو کس نے منتخب کیا ہے؟“ چلانے پر گرفتار کر لیا گیا۔

ایڈنبرا میں دو فراد کو اس لئے گرفتار کر لیا کہ ان میں سے ایک نے ”سامراج پر لعنت، بادشاہت ختم کرو“ کا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔ ایک اور کو ملکہ کی میت کے پیچھے چلنے والے شہزادہ اینڈریو پر آوازیں کسنے پر گرفتار کر لیا۔ سب کو ”نقصِ امن“ کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ چوک پر ایک وکیل خالی کاغذ اٹھائے احتجاج کر رہا تھا اور اس نے ایک پولیس والے سے بات کی تو اس نے تصدیق کی کہ اگر اس نے ”یہ میرا بادشاہ نہیں“ لکھنے کی جرات کی ہوتی تو اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا۔ ایک اور مضحکہ خیز واقعے میں ملکہ کے جنازے کے قریب انڈے اٹھائے کھڑے ایک فرد کو ابرڈین میں گرفتار کر لیا گیا کیونکہ یہ شک ہوا کہ شائد وہ انڈے برسانے کا ارادہ رکھتا ہے!

جمہور پسندی کے اس شر کے خلاف پولیس گردی کا یہ مظاہرہ ملکہ کی میت کے گردونواح کے علاوہ باقی پورا شہر پولیس سے خالی کرا لیا گیا۔ یعنی ایک رات میں لندن جرائم پیشہ کے لئے جنت بے نظیر بنا دیا گیا۔ اسی لئے ہر چور، جیب کترا اور سلسلہ وار قاتل ”خدا بادشاہ کی حفاظت کرے“ کا نعرہ بلند کرتا رہا ہو گا!

قصہ مختصر سارا معاملہ انتہائی شاندار رہا۔

میڈیا کا کردار

کیا واقعی سارا معاملہ شاندار رہا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگوں کو سکھ کا سانس ضرور ملا ہو گا کہ عوامی توجہ اس حقیقت سے ہٹی ہوئی ہے کہ برطانیہ اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے سنگین بحران میں ڈوب رہا ہے۔ چند دنوں کے لئے معیارِ زندگی میں گراوٹ کا بحران، یوکرین میں جنگ اور ٹوری پارٹی میں غلیظ اندرونی لڑائیاں معجزاتی طور پر غائب ہو گئے۔

حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے توجہ منتشر کرنے کے لئے یہ شاندار موقع تھا۔ اور اگر کسی کو اس تقریب کی شان و شوکت کے حوالے سے رتی برابر بھی کوئی شک تھا تو اسے میڈیا کی یک زبان حمد وثناء نے فوری طور پر ختم کر دیا۔

ایسے لگتا تھا جیسے کائنات کا ہر مشہور بوٹ چاٹ (اور کئی غیر مشہور بھی) اچانک برطانیہ کے دارالحکومت پر نازل ہو چکا ہے اور غلیظ ترین خوشامد میں مشغول ہے۔

خوشامدیوں کا یہ ٹولہ ایک دوسرے پر ہر ممکن سبقت لینے کی کوششیں کر رہا تھا تاکہ نئے سال کی اعزازی تقریب (اس تقریب میں تخت برطانیہ کی جانب سے خطابات دیئے جاتے ہیں) میں اپنا نام لکھوا سکے۔ ان کرپٹ درباریوں اور کرائے کے جسم فروشوں کے لئے کوئی خوشامد گھٹیا نہیں تھی اور کوئی تعریف مبالغہ آرائی نہیں تھی۔ یہی خواتین و حضرات بے شرمی سے منہ پھلا کر ولادیمیر پیوٹن پر میڈیا کو کنٹرول کرنے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں!

ہرس روز ٹی وی سکرین عوامی ہجوموں سے بھری ہوتی تھی جو ملکہ کی موت کا نام نہاد سوگ منانے کے لئے اکٹھے ہو تے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر بیٹھی لاکھوں کروڑوں عوام کو ان تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

اسٹیبلشمنٹ میڈیا نے ملکہ کی ”میت کے آخری دیدار“ کے گرد خوب تماشہ بنایا جس میں نیوز چینل چوبیس گھنٹے براہِ راست ”عظیم صف“ دکھاتے رہے کہ سوگواروں کا ہجوم آخری دیدار کے لئے آتا جا رہا ہے۔ لیکن شاہی ملمع کاری کو تھوڑا کھرچنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھرپور توجہ اور ہوشیاری سے نشونما کے باوجود شاہی افسانہ نگاری اور حقیقت میں دیو ہیکل خلیج ہے۔

سب سے پہلے ملکہ کی میت دیکھنے والوں کی تعداد کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ دیگر مبصرین سمیت بی بی سی نے کوشش کی کہ ایسا لگے جیسے پورا ملک ویسٹ منسٹر ہال کی جانب پیدل چل نکلا ہے۔ ”دس لاکھ“ سے زیادہ کا بار بار ذکر کیا گیا۔

لیکن ٹوری سیکرٹری ثقافت، جو ظاہر ہے جمہور پسند ہر گز نہیں ہے، کے مطابق میت کے آخری دیدار کے لئے کل تعداد بتائے گئے اعدادوشمار کا ایک چوتھائی تھی۔ یہ ونسٹن چرچل اور جارج ششم (ملکہ کا باپ) کے آخری دیدار کے لئے آئے لوگوں سے کم ہے۔

اس کے ساتھ میڈیا پر مسلسل پراپیگنڈہ جاری رکھا گیا۔

پورا معاملہ آغاز سے اختتام تک ایک شاندار مشین کی مانند چلایا گیا۔ یہ شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد رونما ہونے والے دیو ہیکل عوامی سوگ سے بھی مختلف ہے جو مکمل طور پر خودرو تھا۔ اس وقت سڑکوں پر آنے والا لوگوں کا ہجوم پہلے اور نہ کبھی بعد میں دیکھا گیا اور ظاہر ہے ملکہ کے جنازے کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔

بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ پوری دنیا میں تمام پلیٹ فارم ملا کر 5.1 ارب لوگوں نے ملکہ کا جنازہ دیکھا ہے۔ یہ پوری دنیا کی دو تہائی آبادی بنتی ہے اور ٹی وی یا کمپیوٹر مالکان کی کل عالمی تعداد سے تھوڑا کم ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ لیکن اگر یہ سچ بھی ہے تو کچھ اندازوں کے مطابق شہزادی ڈیانا کے سال 1997ء کے جنازے کو پوری دنیا میں 2.5 ارب افراد نے دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انٹرنیٹ اتنے وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھا اور ہر جگہ ٹی وی ہی موجود تھا۔

موڈ میں فرق کی ایک عکاسی ملکہ کے لئے بکنگھم محل کے باہر عوام کی طرف سے رکھے گئے گلدستوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈیانا کی موت کے بعد کنسنگٹن باغات کے باہر گلدستوں کا ایک سمندر تھا اور کچھ جگہوں پر پانچ فٹ چوڑائی تک موجود تھا۔

جو لوگ دیدار کے لئے آئے ان کی خواہشات کی بھی میڈیا نے درست عکاسی نہیں کی۔ ڈیانا کی موت پر حقیقی سوگواری تھی جبکہ اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں تھا۔

نام نہاد ”الزبتھ صف“ میں لگے آدھے افراد لندن کے رہائشی تھے اور زیادہ تر دور کے علاقوں سے نہیں آئے تھے۔ ایک قابلِ ذکر تعداد، 4 فیصد، سیاح تھے جو شائد صف کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے آئے تھے۔ زیادہ تر رائے دہندہ کا کہنا تھا کہ وہ ”اداس“ یا ”پریشان“ نہیں بلکہ ”پرجوش“ اور ”پر سکون“ ہیں۔ ”ایک تاریخی لمحے کا حصہ بننے“ اور ”ایک ہجوم کا حصہ بننے کا شوق“ بھی کسی شاہی حمایت سے زیادہ بڑا جذبہ تھا۔

اگر کوئی ایک آنسو پونچھ رہا تھا تو بہت سارے بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ اس پرتضاد موڈ پر گارڈین اخبار میں 15 ستمبر کو چھپے ایک مضمون میں اینڈی بیکٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:

”پورا ملک ملکہ کے لئے سوگوار ہے اور اس کے جانشین کا استقبال کر رہا ہے، یہ سوچ خام خیالی ہے۔۔۔پرزور کوشش ہے، تقسیم کے دور میں بہت دلفریب ہے لیکن بہرحال خام خیالی ہے۔ زیادہ تر صحافیوں اور سیاست دانوں کی باتوں کے برعکس شاہی خاندان کے حوالے سے کوئی ایک ”قومی موڈ“ نہیں ہے اور نہ پہلے کبھی تھا۔

اس کے برعکس بکنگھم محل کے باہر بھی جذبات بہت متضاد ہیں۔ میں نے ملکہ کی موت کے چند گھنٹوں بعد وہاں پر موجود ہجوم میں لوگوں کو مذاق کرتے سنا کہ ہو سکتا ہے ملکہ دوبارہ زندہ ہو جائے، اس کے ایک نواسے کی نجی زندگی پر لاف زنی ہو رہی تھی اور یہ دعویٰ ہوتا رہا کہ ڈیانا کی موت کے وقت محل کے باہر گلدستے زیادہ تھے۔ پھول لے کر آنے والے لوگوں کی تعداد واقعی بہت کم تھی۔ زیادہ تر ہجوم بیٹھا ہوا تھا یا گھوم پھر رہا تھا۔ ان کے چہرے سوگوار سے زیادہ پر تجسس تھے۔ وہ ماحول اور اپنی عکس بندی کرنے والے ٹی وی کیمروں کو دیکھ رہے تھے۔ شائد تعظیم کے باعث گفتگو مدہم تھی۔ لیکن قریبی شراب خانوں میں لوگ اسی طرح شغل میلہ اور شراب نوشی کر رہے تھے جیسے یہ دن بھی کسی اور جمعے کے دن جیسا ہے“۔

”روٹی اور سرکس“

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بڑے کاروبار ”عوام کو وہی فراہم کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں“ یعنی سرمایہ عوام کو وہی فراہم کرتا ہے جو اسے لگتا ہے انہیں چاہیئے۔۔۔غلاظت، سیکس، کھیل، کم سے کم سیاست اور ثقافت کے ساتھ سکینڈل۔۔۔سرمایہ داروں اور بینکاروں کی ضرورت کے مطابق سلجھی چالاک عوامی خوراک۔

اہمیت کا ذکر کیا تھا۔

لیکن فلمی ستاروں اور فٹ بالروں کی پرستش میں بھی ہمیں ایک اہم پہلو نظر آتا ہے، ایک ایسا پہلو جو روزمرہ زندگی کی یک رنگی اور عمومی معمولات کے بجائے کسی غیر معمول کی خواہش کا اظہار ہے۔۔۔کوئی خواب کوئی چاہت۔

یہ اہم ہے۔ یہ اس لئے اہم ہے کیونکہ عام انسانوں کی زندگیاں اتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ اگر ان میں ایسا کچھ نہ ہو تو زندگی محال ہو جائے۔ یہ ایک نفسیاتی ضرورت ہے اور اس طرح کی ضرورتوں کو نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گی۔

عام طور پرافسانوں، علامات اور فریبوں کی طاقت عمومی سوچ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے برطانوی آئین پر تحقیق کرنے والے والٹر باجوٹ نے انیسویں صدی میں شاندار وضاحت کی تھی۔

ملکہ وکٹوریہ اور پرنس آف ویلز البرٹ کے لئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس نے سوال کیا تھا کہ برطانوی عوام ”ایک ریٹائرڈ بیوہ اور ایک بیروزگار نوجوان“ کی بقاء کے لئے ہر سال اتنی بھاری قیمت کیوں ادا کر رہی ہے اور پھر اس نے اپنے ہی سوال کا جواب دیا کہ:

”ہزاروں پڑھے لکھوں کے لئے پارلیمنٹ، کابینہ، حکومت اور دیگر کا ’موثر‘ پہلو ہے۔ لاکھوں کروڑوں بیوقوفوں کے لئے ’وقار‘ کا پہلو ہے (جسے ’ڈرامائی‘، ’صوفیانہ‘، ’مذہبی‘ یا ’نیم مذہبی‘ بھی کہا جا سکتا ہے) جو آنکھوں کو خوش کرتا ہے، خیالات میں مسرت پیدا کرتا ہے، پورے سیاسی نظام کو قوتِ محرکہ فراہم کرتا ہے لیکن کبھی بھی سب سے زیادہ جاہل اور بیوقوف کو سوچنے پرمجبور نہیں کرتا۔ ظاہر ہے یہ بادشاہت کے ساتھ مدغم ہے، درحقیقت تمام حوالوں سے یہی بادشاہت ہے“ (والٹر باجوٹ، برطانوی آئین، صفحہ نمبر 18)۔

اس کے علاوہ وہ جاہل عوام میں بادشاہت کی حمایت قائم رکھنے کے لئے پرتعیش جاہ پرستی اور شاہی آداب کی اہمیت کی بھی نشاندہی کرتا ہے:

”ایک حقیقی بادشاہت کے لئے لازم صوفیانہ عقیدت اور مذہبی وفاداری وہ تخیلاتی جذبات ہیں جو کسی عوام میں قوانین کے ذریعے تخلیق نہیں کئے جا سکتے۔ حکومت میں یہ نیم فرزندانہ جذبات عام زندگی میں حقیقی فرزندانہ جذبات کی طرح موروثی ہیں“۔

اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ حکمران طبقے کو دورِ قدیم سے اس کا ادراک ہے۔ تماشے، دکھاوے، تقریبات، شان و شوکت اور صورتحال عوامی خواب آوری میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی قدیم میں یہ کام روم واپس لوٹنے والے فاتح جرنیلوں (اور شہنشاہیت کے امیدوار) کے اعزاز میں منعقد ہونے والے فاتحانہ مارچ کیا کرتے تھے۔

ان پُر جلال تماشوں کا ایسا خواب آور اثر ہوتا تھا کہ اس کا فاتحانہ ہیرو کے دماغ پر بھی گہرا اثر پڑ جاتا تھا۔ اس لئے اس کے ساتھ ہمیشہ ایک غلام کھڑا ہوتا تھا جو اس کے کان میں مسلسل سرگوشی کرتا تھا کہ ”یاد رکھو، تم بھی ایک انسان ہو!“۔

یہی کردار کولوزیم اور پوری سلطنت روم میں دیگر کم مقبول جگہوں میں منعقد ہونے والے خونی گلیڈی ایٹر مقابلوں کے ذریعے لیا جاتا تھا۔ جب ان خونی کھیلوں کا دور ختم ہوا تو ان کی جگہ رتھ دوڑ نے لے لی، ایک انتہائی خطرناک کھیل جس کا اختتام اکثر ٹوٹی ہڈیوں اور تکلیف دہ موت پر ہوتا تھا۔ اس کھیل تماشے کے لئے اتنے شدید جذبات بھڑکتے تھے کہ قسطنطنیہ میں رتھ سواروں کے مخالفین۔۔۔ہرے اور نیلے۔۔۔اکثر خونی فسادات میں ملوث رہتے تھے جو بازنطینی سلطنت کے لئے خطرہ بن چکے تھے۔

افسانوں کی طاقت

حکمران طبقہ اس نفسیاتی ضرورت سے بخوبی آگاہ ہے اور اس حوالے سے قدیم روم میں نعرہ ”روٹی اور سرکس“ مشہور تھا۔ آج رومن شہنشاہوں کے مقابلے پر زیادہ شان و شوکت کے ساتھ یہ سرکس فراہم کئے جاتے ہیں اگرچہ گرتے معیارِ زندگی کے ساتھ روٹی کی قلت مسلسل بڑھ رہی ہے۔

برطانوی عوام کی تفریح کے لئے امراء اور صاحب اقتدار کی جانب سے 70 سالہ پرامن حکومت کے بعد ملکہ الزبتھ دوم کی 96 سال کی کچی عمر میں موت کے اعزاز میں (اگر ایسے کہا جا سکتا ہے) منظم کئے گئے شاندار اور پروقار سرکس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا!

اس تمام عرصے میں (ہمیں بتایا جاتا ہے) سورج ہمیشہ چمکتا رہا اور زمین پر بدی کا کبھی کوئی سایہ نہ پڑا، کوئی ولادیمیر پیوٹن فوج کشیاں کر کے ہماری زندگی اجیرن نہیں کر رہا تھا، کوئی مہنگائی کا بحران نہیں تھا، نمبر 10 ڈاوننگ سٹریٹ میں کوئی شرابی پارٹیاں نہیں ہوتی تھیں اور عوام خوش و خرم اور مطمئن تھے۔ غرضیکہ دنیا کے بہترین سرمایہ دارانہ سماج میں سب کچھ بہترین تھا۔

ظاہر ہے یہ سب ایک افسانہ تھا۔ پچھلی سات دہائیاں مسلسل انحطاط کی تاریخ ہیں جس دوران دنیا کی سابق ورک شاپ تباہ و برباد ہو گئی، جس سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا وہ انتہائی ذلت آمیز انداز میں منہدم ہو گئی اور یورپی یونین سے بے آبرو اخراج کے بعد برطانیہ کی اوقات فرانسیسی ساحل سے دور ایک غیر اہم جزیرے کی رہ گئی ہے جو امریکہ کی محض ایک غلام ریاست بن چکا ہے اور امریکہ ”خاص تعلق“ کی آڑ میں اس کے ساتھ انتہائی نخوت زدہ رویہ روا رکھتا ہے۔

حالات اور بھی زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ جس ملک کو برطانیہ کہا جاتا تھا اب مزید چھوٹا انگلینڈ بننے کی تیاری کر رہا ہے کیونکہ کچھ عرصے سے سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں پنپنے والا قومی سوال اب تیزی سے ابھر رہا ہے۔

سکاٹ لینڈ میں عوام کا غم و غصہ اب انتہاء تک پہنچ چکا ہے اور شاہی پراپیگنڈہ کے شورشرابے میں کچھ عرصے کے لئے ڈوبنے والی آزادی کی حمایت تیزی سے آگے بڑھے گی۔ معاملات اس وقت فیصلہ کن نہج پر پہنچیں گے جب عوام دیکھے گی کہ ملکہ الزبتھ دوم کی حکومت کی جگہ مس الزبتھ ٹرس اور اس کے مجرم ساتھی بادشاہ چارلس سوم کی حکمرانی میں کیا لذتیں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔

شمالی آئرلینڈ بارود کی ڈھیری بنا ہوا ہے جہاں ایک بھی چنگاری دھماکہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ اس پاگل پن کا مرتکب کوئی مکمل بیوقوف ہی ہو سکتا ہے اور اس کام کے لئے ہماری نئی وزیر اعظم سے زیادہ موزوں اور کون شخص ہو سکتا ہے۔

بیگانگی

لیکن عوام کی اکثریت کا حکمران طبقے کی ان چالوں کا شکار ہو جانے پر بھی بات ہونی چاہیئے۔ اس عمل کو سمجھنے کے لئے اجتماعی نفسیات میں غوطہ لگانا ہو گا اور ایک ایسی سلطنت میں داخل ہونا پڑے گا جو پراسرار ہے اور زمانہ قبل از تاریخ سے مسلسل ساتھ چلی آ رہی ہے۔۔۔۔مذہب کی سلطنت۔

قبل از تاریخ کی دھند لکوں میں ایک انسان نے اپنے ہاتھوں سے ایک بت بنایا اور پھر اسے سجدہ کر دیا۔ فاعل، مفعول بن گیا اور مفعول، فاعل۔ مذہب کی بیگانہ دنیا میں تمام رشتے اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں بیگانگی کاپہلا اور اصلی اظہار اپنی سب سے خالص اور غیر ملاوٹ زدہ شکل میں ملتا ہے۔

لیکن زمانہ قدیم میں ابتدائی مرد اور عورت اپنے جدیدوارثوں سے زیادہ عملیت پسند تھے۔ اگر بت ان کو خواہش کردہ نتائج نہیں دیتا تھا تو وہی انسان جنہوں نے یہ بت بنائے ہوتے تھے تمام دعاؤں، التجاؤں اور قربانیوں کو بالائے طاق رکھ کر کر انہیں گرا کر اور مار پیٹ کر ریزہ ریزہ کر دیتے تھے۔

سرمایہ داری انسانوں کو تنہاء، بیگانہ اور انفرادی ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے جنہیں اپنے آپ کو ”فرد“ یعنی تنہاء ذرات کے طور پر دیکھنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی سماجی حقیقت کا اظہار ہے جو آپس میں مسلسل مسابقت میں رہتی ہیں۔ جدید بورژوازی کے فلسفے کی مارگریٹ تھیچر نے ان بدنام الفاظ میں تشریح کی تھی کہ ”سماج نام کی کسی چیز کا وجود نہیں“۔

بیگانگی کا سب سے شدید اظہار سرمایہ دارانہ انحطاط کے عہد میں ہوتا ہے۔ پرانا سماج منہدم ہو رہا ہے۔ ایک ایک کر کے تمام پرانے یقین کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ مرد اور عورت ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے پیروں تلے زمین سرک رہی ہے۔ انہیں تمام اطراف میں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں تضادات اور بحران ناقابلِ حل ہیں اور کہیں بھی کوئی سہارا موجود نہیں۔

لایعنی زندگی

عوام کی اکثریت کے لئے روزمرہ زندگی ایک لایعنی اور بیزار کن تجربہ ہے جس کا زیادہ تر حصہ مسلسل غیر اہم کاموں کو دہرائے جانے پر مشتمل ہے۔ زندہ ہونے کے احساس کو جگانے کے لئے سینما، ٹی وی اور فٹ بال کی خیالی دنیا میں جانا لازمی ہو جاتا ہے۔۔۔ایک ایسی دنیا جس میں کچھ لمحات کے لئے ایک وسیع لایعنی خلاء پُر ہو جاتی ہے۔۔۔تاکہ زندگی جیسی ہونی چاہئے اس کا کچھ ذائقہ مل جائے اور کسی بھی قسم کے جوش و خروش کے لئے موجود گہری پیاس بجھائی جا سکے۔

میری اپنی کوئی زندگی نہیں ہے اور کسی قسم کی حقیقی زندگی جینے کے لئے میں ٹی وی پر نام نہاد ریئلیٹی شو دیکھنے پر مجبور ہوں۔ میری کوئی اوقات نہیں لیکن مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں کسی تاریخی واقعے کا حصہ ہوں۔ میرا کوئی خاندان نہیں ہے لیکن میرے پاس شاہی خاندان ہے جس کا میں۔۔۔مجھے ایسا بتایا جاتا ہے۔۔۔کلیدی حصہ ہوں۔

ظاہر ہے کہ یہ سب ایک دھوکہ ہے۔۔۔ایک عظیم جادوگر کا دھوکہ۔ لیکن ایک لمحے کے لئے مجھے اس دھوکے پر یقین آ جاتا ہے اور اس لمحے میں میرے لئے اس سے زیادہ کچھ اور اہم نہیں ہے۔ ان حالات میں عوام مذہب میں یا کسی ایسی شخصیت میں سہارا تلاش کرتی ہے جس پر کچھ اعتماد ہو اور اس کی کوئی اتھارٹی ہو۔ بہت سارے افراد کے لئے یہ شخصیت ملکہ الزبتھ دوم تھی۔ وہ حکمران طبقے کے لئے ایک نایاب ہتھیار تھی جس کے ذریعے سماج کی وسیع پرتوں کو یہ یقین دلایا جاتا تھا کہ تمام تر مسائل اور بحران کے باوجود سب ٹھیک ہے اور مستقبل سے ابھی بھی کوئی امید ہے۔

اب چشمِ زدن میں یہ سہارا ختم ہو چکا ہے۔ جلد یا بدیر سب کے سامنے برطانوی بادشاہت کے سینے میں دل کی جگہ موجود تاریک خلاء عیاں ہو جائے گا۔ بے بس چارلس سوم یہ خلاء پُر نہیں کر سکے گا۔ اپنی بیوقوفیوں اور غلطیوں سے وہ بادشاہت کے اختتام کو تیز تر کرے گا۔ واقعات در واقعات اس ادارے میں موجود اعتماد کی آخری رمق کو بھی بے رحمی سے برباد کر دیں گے۔

مستقبل کیا ہے؟

کئی گھنٹوں صبر کے ساتھ لائنوں میں لگ کر پرچم میں لپٹے ایک تابوت کے انتظار میں کھڑی عوام کو یقین تھا کہ وہ ایک تاریخی لمحے کا حصہ ہیں۔ وہ غلط نہیں تھے۔ لیکن جس حوالے سے انہیں یہ یقین تھا وہ درست نہیں ہے۔

پچھلی سات دہائیوں میں ملکہ استحکام اور تسلسل کا تسلی بخش اظہار تھی۔ اب یہ سب قصہ ماضی ہو چکا ہے اور اُفق پر طوفانی باد ل چھا رہے ہیں۔ اس موڈ پر گارڈین اخبار نے درست تجزیہ کیا کہ:

”قلیل مدت میں ملکہ کی طویل رسومات بادشاہت کے لئے کچھ حمایت شائد زندہ کر دے۔ لیکن طویل عرصے میں اس کے زیادہ غیر مقبول اور کم تاریخی اتھارٹی والے بیٹے کی حکومت سے یہ حمایت ختم ہو سکتی ہے اور شاہی مقبولیت میں انحطاط دوبارہ ہو سکتاہے یہاں تک کہ تیز تر ہو سکتا ہے۔ چارلس کی عملے کے ساتھ بے صبری اور پرتعیش طرزِ زندگی مشہور ہیں اور اس میں احساسِ استحقاق، جو احساسِ ذمہ داری کی طرح شاہی خاندان کا بنیادی خاصہ ہے، اور بھی زیادہ نمایاں ہے۔

”اگلے چند سالوں میں برطانیہ میں غربت بڑھے گی اور اس حوالے سے دنیا کی عیاش ترین بادشاہتوں میں سے ایک کے لئے برداشت کم ہو سکتی ہے۔ ملکہ کی روایتی، نسبتاً عامیانہ عوامی شخصیت اور اس کے دورِ اقتدار کی طوالت۔۔۔ایک حد تک اسے اعتقادی انداز میں وسطی بیسویں صدی کے معیارات پر پرکھا جاتا رہا۔۔۔کا مطلب ہے کہ ایک کم حساس حکمران کے حوالے سے جدید برطانیہ کا ابھی تک امتحان نہیں ہوا“۔

گارڈین اخبار نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ:

”اگر آپ جمہور پسند ہیں تو ان دنوں شاہی گرمجوشی آپ کے لئے کئی حوالوں سے تکلیف دہ ہو گی۔۔۔بی بی سی سے اجتناب، ساتھی جمہور پسندوں سے ملکہ کے لئے لطیف جذبات کا اقرار، یہاں تک کہ یہ احساس کہ آپ اپنے ہی ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن شاہ پرستوں کے لئے بس آج اور پیر کے دن کا درمیانی عرصہ ہی بہترین ہے“۔

یہ ایک معقول مفروضہ ہے۔ الزبتھ دوم کی موت واقعی ایک اہم موڑ تھا۔ اس کھیل تماشے کے اثرات دیر پا نہیں ہوں گے۔ یہ ایک شاندار قومی پارٹی تھی۔ لیکن ہر اچھی پارٹی کی طرح اگلی صبح درد سے سر پھٹ جاتا ہے۔ فنانشل ٹائمز نے 25 ستمبر کو لکھا کہ:

”دیگر سینیئر ٹوری ممبران نے کہا کہ تخت پر تبدیلی برطانیہ میں عدم استحکام کے احساس کو شدید کرے گی۔ پارٹی ممبر نے بتایا کہ ’تمام رائے شماریوں کے مطابق عوام عالمی حالات سے بہت پریشان ہیں۔۔۔وہ یوکرین اور معیشت کو دیکھتے ہیں اور اب ملکہ مر گئی ہے“‘۔

یہ درست بات ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں واقعات کے ہتھوڑے عوامی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے لازم ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی اور سماجی حوالے سے برطانیہ کو یورپ کا سب سے مستحکم اور شائد سب سے زیادہ قدامت پرست ملک سمجھا جاتا تھا۔

لیکن اب یہ عمل اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ملکہ کی موت پر تمام میڈیا سرکس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سطح کے نیچے بغاوت پنپ رہی ہے۔

آج بھی لاکھوں کروڑوں افراد اس خیال سے چمٹے ہوئے ہیں کہ ہم افسانوی ”ماضی کے اچھے دنوں“ کی جانب واپس جا رہے ہیں۔ اصلاح پسندی کی اصل نفسیاتی بنیاد یہی فریب ہے۔ یہی فریب ان افراد کے ذہنوں میں تھا جو ملکہ الزبتھ دوم کے جنازے میں شرکت کرنے کے لئے باہر نکلے۔

مائیکل گوف کے الفاظ میں ملکہ کی موت سے متعلق شاندار پارٹی ”حقیقت سے ایک چھٹی“ تھی۔ لیکن چھٹی کے بعد حقیقت واپس آتی ہے۔ یہ واپسی ایک منجمد کر دینے والے موسمِ سرماء اور معیارِ زندگی پر سفاک حملوں کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں افراد کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گی۔

رائے شماری کمپنی Ipsos کے مطابق 2012ء میں ملکہ کے دورِ حکومت کو 60 سال مکمل ہونے کے وقت 80 فیصد برطانوی بادشاہت کے حامی تھے۔ دس سال بعد اسی رائے شماری کمپنی کے مطابق بادشاہت کے لئے حمایت 18 فیصد سے کم ہو کر 62 فیصد رہ گئی ہے۔ پچھلے دس دنوں میں میڈیا کی یلغار میں یہ رجحان پلٹا یا کم از کم رُک گیا ہو گا لیکن یہ اثرات زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے۔

یادِ ماضی کی حسرت ایک طاقتور قوت ہے۔ لیکن وہ ماضی ختم ہو چکا ہے اور اب اس کی واپسی ناممکن ہے۔ یہ تماشہ خواب کو قائم رکھنے میں ناکام رہے گا۔ تمام خوابوں کی طرح یہ خواب بھی بے رحم حقیقت کے آگے تحلیل ہو جائے گا۔ اس خواب سے بیداری انتہائی طاقتور اور پُرانتشار ہو گی۔