ترکی: انتخابات میں اردوان کی دیوالیہ حزب اختلاف کو شکست فاش۔۔۔آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

بیس سال سے زیادہ عرصہ اقتدار پر قابض رہنے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اقتدار میں مزید پانچ سال توسیع حاصل کر لی ہے۔ یہ فتح بورژوا لبرلز کی قیادت میں ایک کثیر تعداد پارٹیوں کے حزب اختلاف کو شکست دے کر حاصل کی گئی جو اردوان کی بحران زدہ صدارت کو اتوار کے دن صدارتی انتخابات کے دوسرے دور میں فیصلہ کن ضرب لگانے میں ناکام رہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

زندگی میں پہلی مرتبہ اردوان پہلے دور میں فیصلہ کن فتح حاصل نہیں کرسکا لیکن دوسرے دور میں 52 فیصد ووٹوں کے ساتھ حکمرانی کا تاج اس کے سر پر سج گیا۔ اس دور میں ATA اتحاد (پرکھوں کا اتحاد) کے سینان اوان کی حمایت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔۔۔یہ انتہائی دائیں بازو نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی)سے علیحدہ ہوا ہے اور تیسرا صدارتی امیدوار تھا جس نے پہلے مرحلے میں 5 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔

صدارتی انتخابات کے پہلے دور کے ساتھ پارلیمانی انتخابات بھی منعقد ہوئے جن میں اردوان کی حکمران انصاف اور تعمیر پارٹی (اے کے پی) نے تین اتحادیوں کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر 600 ممبر پارلیمنٹ میں 313 نشستیں حاصل کیں۔

ترک معیشت شدید بحران کا شکار ہے۔ فلک شگاف افراطِ زر، مسلسل بے قدر ہوتی کرنسی اور دوہرے ہندسوں میں موجود بیروزگاری نے 98 فیصد آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔

اس معاشی بحران کو 6 فروری کے دن رونما ہونے والے تباہ کن زلزلے نے اور بھی گھمبیر کر دیا ہے جس میں تقریباً 60 ہزار اموات (سرکاری اعدادوشمار) ہوئی ہیں اور تقریباً 30 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوفناک کرپشن، لاپرواہی اور تیاریوں میں کمی اور ریسکیو آپریشن میں شدید بدانتظامی نے اس تباہی کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا۔۔۔ان سب عوامل نے حکومت کے خلاف غم و غصے کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔

لیکن پھر بھی اردوان اور اے کے پی کامیاب رہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟

پولرائزیشن

انتخابات میں ووٹروں کی شمولیت تاریخی تھی: 80 فیصد سے زیادہ، اور دونوں ادوار کو ملا کر 95 فیصد تک تو ہو گی۔ یہ ترک سماج میں شدید پولرائزیشن کا اظہار ہے۔ ووٹروں نے بے انتہا تناؤ اور پریشانی کی حالت میں انتخابات میں حصہ لیا۔ اس دن تین افراد (ایک پول سٹیشن سپروائزر اور دو ووٹر) کو نتائج کی پریشانی میں دل کا دورہ پڑ گیا۔

مرکزی حزب اختلاف پارٹی ریپبلیکن پیپلز پارٹی (CHP) کے امیدوار کمال کھچ داراولو نے قومی حزب اختلاف اتحاد کی قیادت کی۔ اپنے آپ کو ترک بورژوازی کا ”سنجیدہ“ دھڑا بنا کر پیش کرتے ہوئے حزب اختلاف نے ”معاشی قدامت پرستی“ اور ”بحالی“ کا وعدہ کیا جس کا مطلب مرکزی بینک کو افراط زر قابو کرنے کے لئے شرح سود بڑھانے کی اجازت دینا اور چین اور روس سے دوری کرتے ہوئے مغرب کی جانب واپس رغبت ہے۔

لیکن بینک آف امریکہ کے مطابق شرح سود کو 50 فیصد تک بڑھانا پڑے گا تاکہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ متوازن ہو۔ قرضوں میں دبی ترک معیشت کے لئے اس کے خوفناک نتائج ہوں گے جن میں بڑے پیمانے پر دیوالیے، بیروزگاری اور غربت شامل ہیں۔

جب کھچ داراولو نے بیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن۔۔۔امریکہ کی سربراہی میں یورپی ممالک کا عسکری اتحاد۔ مترجم) اور مغرب کے ساتھ ترک تعلقات میں بحالی کی بات کی تو اس کے الٹے اثرات پڑے کیونکہ ترکی میں مغربی سامراجیت کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ اس کے علاوہ روسی گیس، درآمدات اور سیاحوں پر ترک معیشت کا بہت زیادہ انحصار ہے اس لئے روس کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کو کبھی پذیرائی نہیں ملنی تھی۔

ایک وقت میں CHP کو ترکی میں سیکولرازم کی امین سمجھا جاتا تھا لیکن آج AKP کے ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے مذہب اور شاونزم (انتہا پسند قوم پرستی) پر اس کا انحصار مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ کھچ داراولو کو مذہبی قدامت پرست ایکرم امام اولو (CHP پارٹی کا استنبول کا میئر) اور منصور یاواش (CHP پارٹی کا انقرہ کا میئر، ایک انتہائی دائیں بازو قوم پرست ہے جو MHP سے علیحدہ ہوا ہے) کو نائب صدارتی امیدوار بنانے کا سمجھوتا کرنے کے بعد ہی صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔

بنیادی طور پر حزب اختلاف AKP کے پرانے دنوں کی طرف واپسی کا سبز باغ دکھا رہی تھی لیکن اس فریب کے پیچھے وہ معاشی اٹھان موجود نہیں تھی جو AKP کو ایک مخصوص اتھارٹی فراہم کرتی تھی۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیوں حزب اختلاف کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

CHP کا نام نہاد لبرل لبادہ اس وقت مزید کھسک گیا جب وہ تیزی کے ساتھ دائیں جانب جھکی اور IYI پارٹی جیسی انتہائی دائیں بازو پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ پہلے دور میں اردوان کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد پارٹی نے ظافر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنا لیا جو انتہائی دائیں بازو کی پناہ گزین مخالف نئی پارٹی ہے جس کا قائد پاگل نسل پرست اومیت اوزدا ہے۔

پچھلے چند سالوں میں معاشی بحران بڑھنے کے ساتھ حزب اختلاف نے پناہ گزینوں کے خلاف جذبات کو مشتعل کیا ہے۔ ان انتخابات میں کھچ داراولو نے پناہ گزینوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انتہائی غلیظ نسل پرستانہ بیانات دیے جیسے ”خواتین بحفاظت سڑکوں پر چلنے کے قابل نہیں ہوں گی“ اگر انہیں ملک بدر نہ کیا گیا۔ دوسرے دور میں CHP نے ایک اشتہاری مہم چلائی جس میں کھچ داوراولو کی تصویر کے ساتھ ”شامی جائیں گے“ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔

اس طرح کی مہم سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہوئی اور ترک سماج کے سب سے زیادہ ترقی پسند عناصر متنفر ہو گئے۔ ترکی میں بنیادی تفریق عوام اور پناہ گزینوں کے برعکس محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہے۔ سرمایہ داری کے نمائندے کے طور پر کھچ داراولو اور CHP پہلے اور نہ آج کوئی ایک طبقاتی متبادل پیش کر سکتے ہیں جس کے بعد ان کے پاس AKP کی شاونسٹ اشتعال انگیزی کی نقالی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

یہ بھی طے ہے کہ CHP کو اردوان سے چھٹکارا حاصل کرنے سے زیادہ عوام کو کنٹرول میں رکھنے میں دلچسپی تھی۔ پہلے دور کے بعد جب سوشل میڈیا پر انتخابات میں اردوان کی دھاندلی کے چرچے ہوئے تو عوام میں احتجاج منظم کرنے کے برعکس CHP نے پرامن رہنے کی اپیلیں شروع کر دیں اور ایک انتہائی بیہودہ اعلامیہ جاری کیا کہ اگرچہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن ”اس سے نتائج تبدیل نہیں ہوں گے“۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کی غلطیاں

بدقسمتی سے کرد بنیادوں پر بائیں بازو کی HDP نے بھی فاش غلطیاں کی ہیں۔ HDP نے انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں لیبر اور فریڈم الائنس کے ساتھ ایک اتحاد بنا لیا۔ لیکن ایک آزاد طبقاتی پروگرام پیش کرنے کے برعکس اتحاد نے کھچ داراولو کی حمایت کر دی تاکہ ”ایک شخصی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے“ اور ”جمہوری عمل کو تیز کیا جائے“۔

یہ بہت تکلیف دہ دھوکہ تھا۔ CHP کی بنیاد 1923ء میں ترک بورژوا انقلاب کے قائد مصطفی کمال اتاترک نے رکھی تھی۔ اس پارٹی نے تاریخی طور پر کرد عوام پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں، عوام میں کرد زبان بولنے پر پابندی لگائی ہے اور 1925ء اور 1938ء میں کرد بغاوتوں کو سفاکی سے کچلا ہے جن میں ہزاروں کردوں کی اموات ہوئیں جبکہ کئی ہزار بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

حالیہ سالوں میں CHP نے AKP کے ساتھ مل کر سابق HDP شریک چیئر صلاحتین دیمرتاش اور دیگر قید HDP پارلیمنٹ ممبران کی پارلیمانی استثناء کو ختم کر دیا۔ اس نے جنوب مشرق میں منتخب کرد میئرز کی برخاستگی پر کوئی مخالفت نہیں کی ہے۔ CHP نے شمالی شام اور عراق کے کرد علاقوں میں ترک فوج کے ہر آپریشن کی حمایت کی ہے۔

انتخابات سے پہلے 150 کرد سیاست دانوں، صحافیوں، وکیلوں اور سیلیبریٹیز کو دہشت کش سکواڈز نے گرفتار کر لیا جبکہ کھچ داراولو اور CHP کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔

ابتداء میں CHP کی قیادت میں اتحاد نے HDP کے انتخابی اتحاد میں شمولیت پر مخالفت کی تاکہ قوم پرست ووٹروں کو راغب کیا جا سکے۔ اس نے HDP کی کھچ داراولو کے لئے حمایت اس وقت قبول کی جب واضح ہو گیا کہ HDP کی حمایت اور 60 لاکھ ووٹروں کے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ نیشنل الائنس کو HDP کی حمایت مل گئی لیکن انہوں نے پوری انتخابی مہم HDP سے فاصلہ برقرار رکھنے میں صرف کر دی۔

پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ دوسرے دور سے چند دن پہلے کھچ داراولو نے انتہائی دائیں بازو، نسل پرست اور پناہ گزین مخالف امیت اوزدا کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔ اگرچہ کچھ HDP حامیوں نے ناگواری کے باوجود کھچ داراولو کو ووٹ دیا، دیگر کئی نے ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ ترکی میں ووٹروں کی شمولیت تقریباً 95 فیصد رہی لیکن کرد اکثریتی صوبوں میں یہ تناسب 80 فیصد رہا۔

ان انتخابات میں HDP کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ 2018ء میں HDP نے 11.70 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور 14 مئی کو انہیں 8.81 فیصد ووٹ ملے۔ ان کے ممبر پارلیمنٹ کی تعداد 2018ء میں 67 سے گھٹ کر 62 ہو گئی ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد اس مرتبہ پارٹی کا تقریباً ہر شہر میں ووٹ بینک کم ہوا ہے۔

اگر HDP ایک طبقاتی پروگرام پیش کرتے ہوئے ایک آزادانہ پوزیشن قائم کرتی اور عوام کے روزمرہ مطالبات کو سوشلزم کی جدوجہد سے جوڑتی تو وہ بہتر انداز میں قومی تقسیم کو کاٹتے ہوئے ترک اور کرد محنت کش طبقے کو متحد کر سکتی تھی۔ یہ اتحاد اردوان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا تھا۔

اردوان کی چالبازیاں

جہاں تک اردوان کا تعلق ہے تو اس نے بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی مہم چلائی۔ اس نے احتیاط برتی کہ معیشت پر زیادہ بحث مباحثہ نہ ہو اور حقیقت سے دور جھوٹی کہانیاں سنانے کے ساتھ ساتھ رشوت کا استعمال بھی کیا۔

انتخابات کی تیاری میں اس نے کم ازکم اجرت میں 55 فیصد اضافہ کیا۔ انتخابات سے چند دن پہلے اس نے ریاستی اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا، عمومی پنشن میں دگنا سے زیادہ اضافہ کیا اور ایک قانون منظور کیا جس کے تحت لاکھوں محنت کش جلد ریٹائرمنٹ کے لئے اہل ہو گئے۔ اس نے تمام گھرانوں کے لئے ایک مہینہ گیس سپلائی بھی مفت کر دی۔

اس نے اپنی مہم کا مرکزی ایجنڈہ ”دہشت گردی اور سامراجیت کے خلاف جنگ“ بنایا اور بحث کی کہ وہی ”استحکام“ کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اس نے کھچ داراولو اور CHP پر ”دہشت گردوں“ کے ساتھ ساز باز کا الزام لگایا جس کے ثبوت کے طور پر اس نے HDP کی حمایت کا ذکر کیا۔ ایک جلسے میں اس نے اپنے حامیوں کو ایک جھوٹی ویڈیو دکھائی جس میں ایک کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کمانڈر حزب اختلاف کے قائدین کے ساتھ گانے گا رہا ہے۔

اس نے کھچ داراولو پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ IMF کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور مغرب اور سامراجیوں کے ساتھ اتحاد میں ترکی کو ایک ”بھکاری“ بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان الزامات کی مدد خود کھچ داراولو کے اپنے بیانات سے بھی ہوگئی۔ طبقاتی مفادات کو مدہم کرنے کے لئے اردوان نے پورے حزب اختلاف پر الزام لگایا کہ وہ ”LGBT نواز“ اور ”خاندانی اقدار“ کے خلاف ہیں۔

زیادہ تر میڈیا اردوان کے کنٹرول میں ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنی مہم ملک کے کونے کونے میں پھیلا دی جبکہ حزب اختلاف کا میڈیا پر وقت بہت زیادہ محدود کر دیا۔ حکومت نے انتخابات سے پہلے ہفتوں میں کئی سو وکیلوں، صحافیوں، سرگرم کارکنوں اور سیلیبریٹیز کو گرفتار کر لیا جن میں سے زیادہ تر کرد تھے تاکہ حزب اختلاف کی مہم کو دبایا جائے اور خوف کی ایک فضاء قائم کی جائے۔

یہ بھی واضح ہے کہ AKP نے دھاندلی کی۔ جیسے ہی انتخابی عمل شروع ہوا تو سوشل میڈیا پر دھاندلی کی ویڈیوز اور تصاویر آنی شروع ہو گئیں جن میں ووٹوں سے بھرے اضافی سفید ووٹ تھیلے دکھائے گئے۔۔۔سب میں اردوان اور AKP کے لئے ووٹ ٹھونسے ہوئے تھے۔

زلزلہ زدہ علاقے میں 1.5 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور وہاں ووٹروں کا تناسب 80 فیصد تھا۔ جنوب مشرقی کردستان میں انتہائی دائیں بازو کی MHP پارٹی نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ترک الیکشن بورڈ YSK سے دوبارہ گنتی کے بعد زبردستی اورفا شہر میں آزادی پسند پارٹی (HUDA PAR) کی جیتی نشست HDP کو دلوائی گئی۔

یہ درست ہے کہ AKP کی ایک مخصوص حمایت، خاص طور پر اناطولی متوسط طبقے میں، موجود ہے جس نے 2000ء کی دہائیوں میں معاشی ابھار سے بہت استفادہ حاصل کیا ہے۔

لیکن پورے ملک کے بڑے شہروں اور خاص طور پر اپنے قلعوں میں اردوان اور AKP کا انحطاط واضح ہے۔ تمام تر دھاندلی، میڈیا کنٹرول اور بدمعاشی کے باوجود، اردوان اور دیگر چھوٹی پارٹیوں جیسے HUDA PAR اور نیو ویلفیئر پارٹی (YRP) کی حمایت کے ساتھ ہی صدارت جیت پایا ہے۔

مجموعی طور پر AKP نے266 نشستیں جیتی ہیں جن میں سے تین HUDA PAR کی ہیں۔ دونوں کا ایک ہی انتخابی نشان تھا۔ MHP کی 51 جبکہ YRP کی 5 نشستیں ہیں۔

اردوان کی AKP کی ”جنم بھومی“ کیسیری میں AKP کا ووٹ بینک 2018ء میں 50.64 فیصد سے گر کر 40.62 فیصد ہو چکا ہے۔ ایک ”اناطولی ٹائیگر“ کونیا شہر میں AKP کا ووٹ 59.51 فیصد سے کم ہو کر 48.07 فیصد ہو چکا ہے۔ AKP کے ایک مضبوط قلعے کاہرام نماراش (6 فروری کو برپا ہونے والے دو زلزلوں کا مرکز) میں AKP کی حمایت 2018ء میں 58.54 فیصد سے گر کر 47.79 فیصد پر آ چکی ہے۔

ایک اور مضبوط قلعے گازیان تیپ (زلزلے کے یہاں بھی اثرات پڑے اور پچھلے سال ایک ہڑتالی لہر بھی اٹھی) میں AKP کی حمایت 51.45 فیصد سے 44.93 فیصد ہو گئی ہے۔ اردوان کی اپنی جنم بھومی رائزے میں ووٹ 64.99 فیصد سے 54.07 فیصد ہو چکا ہے۔ استنبول اور انقرہ میں AKP کا ووٹ 42.7 فیصد سے 36.2 فیصد اور 40.2 فیصد سے 32.6 فیصد ہو چکا ہے۔

لیکن اگر اس ساری صورتحال اور تمام تر دھاندلی کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس انحطاط کی وجہ سے واضح شکست پھر بھی نہیں ہوئی ہے کیونکہ عوام کو اردوان اور AKP کا کوئی کارآمد متبادل نظر نہیں آیا۔

سیواس میں واشنگٹن پوسٹ اخبار سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ اگرچہ وہ اردوان کے جیتنے کے بعد ”تعلیم، معیشت اور ہر شخص کو اپنے جذبات اور رائے کا اظہار کر سکنے“ کے حوالے سے پریشان ہے لیکن پھر بھی اس نے اردوان کو ہی ووٹ دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”یقینا اگر حزب اختلاف میں کوئی بہتر امیدوار ہوتا تو وہ اسے ضرور ووٹ دیتی“۔

ایک پنشن خوار نے کہا کہ ”یہاں گردن تک بیروزگاری میں دھنسے ہوئے ہیں“ لیکن اس نے اردوان کو ووٹ دیا اور کہا کہ ”میرے خیال میں اگر ایک معقول امیدوار ہوتا تو وہ کبھی نہ جیت پاتا“۔

کمزور بنیادیں

اگرچہ اس وقت اردوان بمشکل صدارت سے چمٹے رہنے کا جشن منا رہا ہے لیکن اس کو ایک تباہ و برباد معیشت ورثے میں ملی ہے۔ بے قابو افراط زر جو اکتوبر میں 85 فیصد تھا اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 44 فیصد ہے، عوام کے معیار زندگی پر تباہ کن اثرات ڈال رہا ہے۔

اردوان کے سامنے ناپسندیدہ آپشنز ہیں۔ وہ ”راسخ العقیدہ“ بورژوا معیشت کے مطابق شرح سود بڑھا سکتا ہے اور افراط زر کو کنٹرول کر سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں دیوالیوں کا ایک ناتھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ وہ شرح سود کو کم کر کے سستے قرضوں کے ذریعے معیشت کو فعال رکھ سکتا ہے لیکن اس طرح افراط زر اور اشیاء ضرورت کا بحران مزید گہرا ہو گا۔ اس وقت اردوان نے دوسرا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انتخابات تک اردوان لیرا کا سخت دفاع کرتا رہا لیکن کرنسی کو بچائے رکھنے کی کوشش میں مرکزی بینک کے غیر ملکی ذخائر اور سونا تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ 2002ء کے بعد پچھلے ہفتے ذخائر کم تر سطح پر گر چکے ہیں۔

انتخابات کی تیاری میں بے تحاشہ اخراجات کے ساتھ 6 فروری کو آنے والے زلزلے سے اندازاً 100 ارب ڈالر نقصان کے ساتھ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ممکنہ طور پر افراط زر میں مزید تیز تر اضافہ ہو گا جبکہ لیرا کی گراوٹ ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکی ہے۔ اردوان پیسوں کی ہیجانی تلاش میں دوست اور دشمن دونوں سے مدد مانگ رہا ہے۔

کاش یونیورسٹی میں ایک معیشت دان سیلوا دیمی رالپ نے انتخابات کے دوران دی اکانومسٹ میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ دھماکے میں اُڑ جانے سے پہلے انتخابات تک موجودہ نظام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔

ابھی سے ایک دیوہیکل سیاسی بحران تیار ہو رہا ہے۔ معاشی دباؤ عوام میں شدید غم و غصہ بھڑکا رہا ہے جو حکمران اتحاد میں دراڑیں پیدا کر رہا ہے کیونکہ ممبران پارلیمنٹ اپنے حلقوں میں اس کی واضح حدت محسوس کر رہے ہیں۔ یہ دباؤ پہلے سے ایک کمزور اتحاد میں موجود پارٹیوں میں دراڑیں بنا کر اپنا اظہار کر رہا ہے۔

اس وقت تو اردوان اور باشیلی اپنی پارٹیوں کو ”قابو“ میں رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن بحران کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ تمام تضادات پھٹ کر اپنا اظہار کریں گے۔

سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ترک سرمایہ داری کا گہرا ہوتا بحران طبقاتی جدوجہد کو تیز تر کرے گا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمران طبقے کو ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ان کو ایک کمزور اور تقسیم شدہ پارٹیوں کا اتحاد میسر ہے جو صرف ذاتی مفادات پر زندہ ہے۔

پاپولر فرنٹس کا کھلواڑ بند کرو! محنت کش متبادل زندہ باد!

”کم تر برائی“ کی دیوالیہ حکمت عملی نے ترک لیفٹ کو تھکاوٹ اور مایوسی سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والی رپورٹ کے مطابق جب AKP کی فتح واضح ہونی شروع ہوئی تو ایک 20 سالہ خاتون نے مارمارے میں ایک ٹرین سٹیشن پر خودکشی کر لی۔ نوجوان خاتون نے ایک نوٹ چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ ”AKP نے (اس کی) جوانی چھین لی ہے“، وہ ”مایوس“ ہو چکی ہے اور وہ ”AKP کے حامیوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی“۔

پورا لیفٹ کھچ داراولو کی نام نہاد CHP کا دم چھلہ بن گیا حالانکہ یہ حکمران طبقے کا کمالسٹ دھڑا ہے اور بنیادی طور پر انہی مفادات کا امین ہے جن کا تحفظ AKP کرتی ہے۔ یہ سب لاکھوں کروڑوں ترکوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو چکے ہیں۔ بالآخر اس کے ساتھ ان سب کو ذلت آمیز شکست فاش ہوئی۔

یہ درست ہے کہ انتہائی دائیں بازو اور دائیں بازو کی پارٹیوں نے انتخابات میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی حقیقی محنت کش متبادل موجود نہیں ہے۔ عوام اس بحران سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے لیکن کوئی سیاسی نکتہ آغاز موجود نہیں ہے۔ یہ نتائج ترکی میں دائیں بازو کی جانب جھکاؤ کا اظہار نہیں ہیں بلکہ بانجھ لبرل اور اصلاح پسند حزب اختلاف کی عکاسی ہیں۔ مدہم ہی صحیح لیکن ایک طبقاتی پروگرام ممکنہ طور پر اردوان کا سورج غروب کر سکتا تھا۔

ایک طرف پورا ترک بایاں بازو مایوسی کا شکار ہے اور دوسری طرف مارکس وادی مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں۔ اردوان کی بحران زدہ حکومت تاریخی کمزوری سے دوچار ہے اور وہ مسلسل گہرے ہوتے بحران کی موجودگی میں ماضی کی طرز پر حکومت نہیں کر سکتا۔ پھر ترک محنت کش طبقہ اپنے حجم کے حوالے سے خطے میں سب سے بڑا ہے اور اب وہ متحرک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ہمارا اشارہ پچھلے سال پورے ملک میں پھیلنے والی ہڑتالی لہر سے ہے جو 1970ء کی دہائی کے بعد سب سے بڑا تحرک تھا اور اس وقت بھی ہڑتالیں اور احتجاج جاری ہیں۔ یہ آنے والے مستقبل کی حوصلہ افزاء نوید ہیں۔

آج ترکی میں طبقاتی جدوجہد پھٹنے کے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ ایک ہی عنصر کی کمی ہے اور وہ ہے ایک انقلابی قیادت جو عوام کو جدوجہد کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ مستقبل کو یقینی بنائے۔