عراقی کردوں کے خلاف سامراجی قوتوں کا گٹھ جوڑ

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|
29ستمبر 2017ءگزشتہ پیر کے دن لاکھوں عراقی کردوں نے ایک ریفرنڈم میں عراق سے علیحدگی اور ایک آزاد ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ منتظمین کے مطابق 92.73 فیصد ووٹروں نے کرد آزادی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ شرکت کی شرح 72.16 فیصد تھی۔ عراقی کرد عوام کی بھاری اکثریت نےواضح کر دیا ہے کہ ان کا عراق کی نیم فرقہ پرست مرکزی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔

ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر عراقی مرکزی حکومت نے علاقے کی تمام سرحدیں بند کر دی ہیں جس کی وجہ سے علاقے کا باہر کی دنیا سے تعلق مکمل طور پر منقطع ہو گیا ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے عراقی مرکزی حکومت، ایرانی ملا آمریت اور شیعہ پاپولر موبلائزیشن یونٹس (PMU) بڑی مستعدی اور تیزی کے ساتھ حکم نامے اور قراردادیں جاری کر رہے ہیں جن میں ریفرنڈم کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔ عراقی حکومت نے آئین کو جواز بناتے ہوئے ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے لیکن یہ وہی بغداد حکومت ہے جس نے کردستان کیلئے عراقی قومی بجٹ میں مختص شدہ فنڈ کئی سالوں سے روک رکھا ہے۔

اسی دوران تینوں قوتوں نے چند ایک مشترکہ جنگی مشقیں تشکیل دی ہیں جن کا مقصد کرد عوام کو خوفزدہ کرنا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم حیدر العبادی کو اجازت دے دی ہے کہ وہ متنازع کرکوک پر فوج کشی کر سکتا ہے، جہاں دنیا کے بڑے تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ ترکی نے بھی کرد ریجنل گورنمنٹ (KRG) سے تیل کی خریداری بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔

یہ کھلی حقیقت ہے کہ کرد عوام مرکزی حکومت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے کئی سالوں کی پابندیوں اور امتیازی سلوک، فرقہ پرست اشتعال انگیزی اور سیاست نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کی آشیر باد کے ساتھ ہو رہا تھا جو عراق پر تسلط کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عراق میں المستقلہ برائے ریسرچ (AFR) کی تازہ ترین رائے شماری کے مطابق 95فیصد عراقی کرد یہ سمجھتے ہیں کہ عراقی ریاست کی سمت درست نہیں۔ عراقی کردوں کی ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس نے کبھی عربی زبان تک نہیں پڑھی اور وہ اپنے آپ کو عراقی نہیں سمجھتے۔ اس سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ وہ بجا طور پر مرکزی حکومت کو ایک رجعتی قوت کے طور پر گردانے ہیں جس پر ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں۔

پچھلے کئی سالوں سے عراق اور پھر بعد میں شام، مختلف سامراجی قوتوں کی خطے میں بالادستی کا اکھاڑہ بنے ہوئے ہیں۔ اردوگان آمریت پچھلے کئی سالوں سے برزانی کی حمایت کر رہی ہے تاکہ عراق میں اپنے اثرورسوخ کو قائم رکھا جا سکے اور بائیں بازو کی کرد گوریلا تحریک PKK کو جبراً کچلا جا سکے۔ اردوگان کو دائیں بازو کی کرد قوم پرستی کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بشرطیکہ یہ قوم پرستی کچھ مخصوص حدود تجاوز نہ کرتی۔ لیکن ایک آزاد کردستان سے اردوگان کے عزائم کو کاری ضرب لگتی ہے، کیونکہ اس سے عراق میں ترکی کا اثرو رسوخ خطرے میں پڑ جاتا ہے جبکہ ترکی میں موجود کرد عوام کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ترکی کا اندرونی عدم استحکام بڑھے گا وہیں پر عراق اور زیادہ ایرانی حلقۂ اثر میں دھنستا چلا جائے گا۔

خود ایران کے اندر ایک بہت بڑی مجبورومقہور کرد عوام موجود ہے جو عراق، شام اور ترکی میں موجود کردوں کی جدوجہد کے ساتھ بے پناہ ہمدردی رکھتی ہے۔ ایرانی ملا آمریت ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے اس کی اپنی زیر تسلط اقلیتوں میں کوئی تحریک پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن ایسی صوتحال کے خوف نے ملا آمریت کو کبھی عراق میں کرد قوم پرستی کو ابھارنے سے نہیں روکا۔ ماضی میں برزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) اور طالبانی کی پیٹریاٹک یونین آف کردستان(PUK) دونوں کو عراقی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ آج بھی عراق میں ایران کی حامی قوتیں داعش اور برزانی کے خلاف لڑائی میں PUK، گوران اور کردش کمیونیٹیز یونین(KCK)، کرد ورکرز پارٹی(PKK) کی بنائی گئی تنظیم، پر انحصار کرتی ہیں، برزانی جو پچھلے عرصے میں ترکی کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایران، تحریک کو اپنے کلیدی مفادات پر اثر انداز ہونے سے روکنے کیلئے محدود کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب عراقی مرکزی حکومت میں ایران کا بے پناہ اثرورسوخ ہے۔

اسی اثنا میں نام نہاد ’’عالمی کمیونٹی‘‘ کے ’’جمہوری‘‘ اور قابل احترام خواتین و حضرات نے کرد عوام اور ان کے جمہوری حقوق کی پامالی پر اپنی آنکھیں مبینہ طور پر بند کر لی ہیں۔ امریکی دفتر خارجہ کی نمائندہ ہیتھر ناؤرٹ نے ’’عدم استحکام بڑھانے والے ریفرنڈم‘‘ پر گہری ’’مایوسی‘‘ کا اظہار تو کیا ہے لیکن کرد عوام پر جنگ مسلط کرنے کی تینوں ہمسایہ قوتوں کی تیاری کے حوالے سے مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔ ساری صورتحال کتنی مضحکہ خیز ہے کہ وہی لوگ، جو ایران پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اس وقت اسی ایران اور اردوگان کے ساتھ مل کر کردوں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔

اس سارے عمل میں مغرب، کردوں کے حق خود ارادیت کے بنیادی جمہوری حق کا شروع سے مخالف رہا ہے۔ ریفرنڈم سے پہلے امریکی، اقوام متحدہ اور برطانیہ کے سفارتکار وں نے موجودہ KRG کے صدر مسعود برزانی سے ملاقات کی تاکہ اسے آمادہ کیا جائے کہ وہ ووٹ کو ملتوی کرے اور بغداد حکومت کے ساتھ ’’بغیر کسی ضمانت!‘‘ کے مذاکرات کرے۔ مختصر یہ کہ، یہ حضرات چاہتے تھے کہ ووٹ نہ صرف ملتوی ہو بلکہ عراق کی ’’علاقائی وحدت‘‘ کیلئے منسوخ بھی ہو جائے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ ان حضرات کے الفاظ ہیں جنہوں نے اسی ’’علاقے‘‘ پر فوج کشی کی اور اس کے بعد رجعتی شیعہ مالکی حکومت مسلط کر دی۔ عراق پر جبری قبضے کے بعد اٹھائے گئے فرقہ ورانہ اقدامات کی وجہ سے پرانے عراق کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔

2013ء میں شمالی عراق میں داعش کے ابھار کے بعد مختلف طرز کی کرد تنظیموں نے اس اسلامی انتہا پسند تنظیم کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اندرون ملک بحرانوں کی وجہ سے مغرب کے پاس کردوں کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ کرد ان کے حصے کی جنگ لڑیں۔ گلی سڑی عراقی فوج کا چند سو داعش جنگجوؤں کے سامنے شیرازہ بکھر رہا تھا اور کرد پیشمرگہ فوج، حالانکہ وہ پیچھے ہٹ گئی، موصل کے شمال میں داعش کے توسیعی عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی رہی۔ بغداد حکومت پر بڑھتے ایرانی اثرورسوخ کے نتیجے میں کاروائیوں کو جاری رکھنے کے لئے KRG امریکہ کیلئے ایک کلیدی متبادل ثابت ہوا۔ تیل سے مالا مال کرکوک شہر کی لڑائی میں بھی پیشمرگاہ فوجیں ہی تھیں جنہوں نے داعش کے حملوں سے پسپا ہونے والی عراقی افواج کے بھاگ جانے کے بعد شہر کو فتح کیا۔ بعد میں KCK سے منسلک قوتیں اور بھی زیادہ طاقت ور بن کر ابھریں۔ KCKسے منسلک قوتیں نہ صرف شمالی شام میں سب سے زیادہ طاقت ور قوتیں بن کر ابھریں (اپنی مقامی تنظیموں YPG اور PYD کے ذریعے) بلکہ جبل سنجار اور کرکوک میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس وقت شام میں صرف KCK ہی واحد امریکی اتحادی رہ گئی ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف مغرب، کردوں پر اپنی جنگیں لڑنے کیلئے انحصار کرنے پر بالکل نہیں ہچکچاتا، وہیں پر مغرب، کرد آزادی کو اپنے اور علاقائی اتحادیوں کے مفادات کیلئے عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔

’’چھوٹی‘‘ قومیں بڑے سامراجیوں کے کھیلوں اور مہم جوئیوں کیلئے چھوٹی قیمت ہوتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی تمام سامراجی قوتوں نے کسی نہ کسی وقت میں کرد وں پر انحصار کیا ہے۔ اس وقت تک سب اچھا ہے جب تک سامراجیوں کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی صفائی کیلئے کرد خون بہتا رہے یا پھر کردوں کو پراکسی جنگیں لڑنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہے۔ لیکن اگر وہی کرد اپنا وطن حاصل کرنے کیلئے اپنا جمہوری حق استعمال کرنے کی کوشش کریں تو پھر تمام سامراجی قوتیں۔۔’’جمہوریت پسندوں‘‘ سے لے کر سب سے رجعتی اسلامی بنیاد پرست۔۔جو کل تک ایک دوسرے کے ساتھ دست و پا تھیں، آج کرد عوام کے خلاف متحد کھڑے ہیں۔ ریفرنڈم کی حمایت یا تو اسرائیل نے کی ہے جو کسی بھی طریقہ کار سے ایران کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے، یا پھر روس نے جو شام میں موجود اپنے ’’اتحادیوں‘‘ ترکی اور ایران پر کسی طرح کا دباؤ ڈالنے کیلئے موزوں اوزار تلاش کر رہا ہے۔ لیکن اس سب نے صرف ایک ہی حقیقت کو ثابت کیا ہے۔ طبقاتی مفادات حکمران طبقے کی تمام لڑائیوں اور اتحادوں سے بالا تر ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ برزانی کی شخصیت میں کردوں کو کوئی نجات دہندہ نہیں ملا ہے۔ برزانی قبیلہ عراقی کرد قومی تحریک میں 1930ء کی دہائی سے غالب رہا ہے۔ مسعود نے KDP کی قیادت اپنے باپ مصطفی کے 1979ء میں مرنے کے بعد سنبھالی۔ پارٹی عراقی کردستان کے دھوک اور اربیل علاقوں میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھتی ہے اور تاریخی طور پر عراقی کردوں میں اپنے آغاز سے سب سے زیادہ مضبوط پارٹی رہی ہے۔ تحریک پر مضبوط گرفت کی وجہ سے برزانی خاندان کی خطے کی معیشت اور ریاستی ڈھانچوں میں گہری جڑیں موجود ہیں، جس کے بل پر اس نے مراعات اور مفادات کا ایک نیم قبائلی جال بنا رکھا ہے۔ محکوم قومیتوں کے حقوق کی لفاظی کرنے کے باوجود برزانی خود KRG میں کئی قومیتوں پر جبر کا مرتکب رہا ہے۔

برزانی قبیلے کیلئے عراقی کردستان ایک ذاتی جاگیر کی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ ذاتی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کھلا راز ہے کہ جب داعش نے موصل پر حملہ کیا تو برزانی نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پیشمرگہ فوجوں کو شہر سے نکال لیا۔ برزانی اور اس کے ترک آقاؤں کے موصل سے اپنے مفادات جڑے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ عراقی فوج کی شکست فاش کے بعد داعش کا مقابلہ کریں۔ داعش کے منظر عام پر آنے سے پہلے برزانی نے عرب انقلاب کے زیر اثر عراقی کردستان میں ابھرنے والی جمہوریت پسند اور کرپشن مخالف احتجاجی تحریکو ں کو نہایت بے دردی سے کچل کر رکھ دیا۔ اس کے بعد 2015ء میں جب معاشی بحران کے KRG پر اثرات پڑنے شروع ہوئے تو اس نے کئی مہینوں تنخواہ نہ دے سکنے کے بعد سرکاری اداروں تنخواہوں میں بھاری کٹوتیاں کیں۔ اس طرز کی اور بھاری کٹوتیوں کی وجہ سے ریاستی اخراجات نصف ہو کر رہ گئے جن کی مخالفت میں کچھ احتجاج تو ہوئے لیکن متبادل قیادت کی عدم موجودگی میں وہ احتجاج آگے بڑھ کر ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکے۔ لہٰذا، داعش کے خلاف جنگ اور بغداد حکومت کے دباؤ کو بہانہ بناتے ہوئے برزانی اپنی حکومت کے خلاف کسی سنجیدہ چیلنج کو پنپنے سے روکنے میں کامیاب رہا۔

داعش کے خلاف لڑائی کو بہانہ بناتے ہوئے برزانی نے KRG کی پارلیمنٹ معطل کر دی اور اپنی صدارتی مدت میں 2015ء تک دو سال کی توسیع کر دی۔ اس کے بعد سے اب تک ہمارے عراقی کردوں کے جمہوریت پسند دوست نے صدارت چھوڑنے یا نئے انتخابات کرانے سے ہی انکار کر دیا ہے جن کے نتیجے میں اس کا اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھنا نا گزیر ہے۔ لیکن اب جب کہ داعش کے ساتھ جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے، اس کے پاس سارے بہانے ختم ہو چکے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ اور بغداد حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے KRG حقیقی معنوں میں دیوالیہ ہو چکا ہے۔ 12 لاکھ سرکاری ملازمین، جن کی تنخواہیں پہلے ہی 2015ء میں آدھی کر دی گئی تھیں، پچھلے دو ماہ سے تنخواہوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ داعش کے ختم ہونے اور کرکوک کے بغداد کے متوقع قبضے میں جانے کے بعد تیل کی پیداوار، جو کہKRG کا واحد ذریعۂ آمدن ہے، تقریباً آدھی رہ جائے گی۔ بے پناہ قرضوں میں ڈوبا KRG شدید بحران کی زد میں ہے۔

اپنی گرتی ہوئی اتھارٹی اور آنے والے شدید سماجی و معاشی بحران کو بھانپتے ہوئے برزانی کوشش کر رہا ہے کہ وہ خود سے توجہ ہٹاتے ہوئے، کرد عوام کو بغداد کے خلاف اپنے پیچھے متحد کر لے۔ لیکن ماضی میں بھی برزانی نے آزادی کے سوال کو کئی مرتبہ اس وقت استعمال کیا ہے جب مقامی طور پر اسے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت یا بغداد سے کچھ مراعتیں حاصل کرنا ہوتی تھیں۔ 2005ء میں ایک ڈھیلے ڈھالے ریفرنڈم میں تقریباً 20 لاکھ ووٹ پڑے جن میں سے 98 فیصد آزادی کی حمایت میں تھے لیکن ریفرنڈم کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ جب تک کرد ایک محکوم اقلیت ہیں اور محنت کشوں کی منظم تحریک کی عدم موجودگی میں برزانی انتہائی سرد مہری کے ساتھ کردوں پر ہونے والے جبر کو کو اپنے کرپشن زدہ اقتدار سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ریفرنڈم سے پہلے ہی وہ سامراجی قوتوں کے دباؤ اور لالچ میں اپنا راگ بدل رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ بارہا آزادی کے بجائے ایک فیڈریشن بنانے کی بات کر چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے ریفرنڈم کے ’’واجب التعمیل‘‘ نہ ہونے پر بھی بہت زور دیا ہے۔ یہ سب برزانی کے متعلق کردوں کے اندیشوں کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ اب خطے کے محاصرے کے بعد بہت سے ایسے لوگ، جنہوں نے ووٹنگ میں حصہ تک نہیں لیا، برزانی کے پیچھے آکھڑے ہوئے ہیں اور وہ ایسا کرتے رہیں گے۔

برزانی قبیلہ ذاتی مفادات کی خاطر کرد عوام کی امیدوں اور خواہشات کو ایک لمحہ سوچے بغیر بیچ دے گا، جیسے ماضی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ کردعوام کو برزانی پر کوئی اعتماد نہیں۔ انہیں ایک مختلف قسم کی قیادت چاہیے، ایک ایسی قیادت جس کے پیش نظر محنت کشوں کے مفادات ہوں، نہ کہ کرپٹ اور امیر حکمران طبقے کے مفادات۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطے کے کسی اور حکمران طبقے پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے۔ ترک، ایرانی اور دیگر، کردوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کریں گے اور ایک لمحہ سوچے بغیر انہیں پرے دے ماریں گے، اگر انہی مفادات کو نقصان پہنچنے کا رتی برابر بھی خدشہ ہو۔ یہی صورتحال بڑی سامراجی قوتوں امریکہ، یورپی ممالک اور روسیوں کے حوالے سے ہے۔ ایک دن وہ کردوں پر انحصار کریں گے، جیسا کہ انہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں کیا اور اگلے ہی لمحے وہ دھوکہ دے دیں گے، جیسے وہ اس وقت دے رہے ہیں۔ آج اسرائیل اور روس کے مفاد میں ہے کہ کردوں کی حمایت حاصل کی جائے لیکن جب اس کی ضرورت نہیں رہے گی تو وہ بھی دھوکہ دینے میں لمحہ بھر نہیں ہچکچائیں گے۔

حتمی تجزیے میں، تمام عالمی اور علاقائی سامراجی قوتیں کردعوام کے خلاف متحد کھڑی ہوں گی اگر ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو۔ کرد عوام صرف اپنی قوتوں پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔ ڈرپوک بھگوڑی قیادت نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے کو ہر لمحہ تیار ہیں لیکن عوام نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے لڑنے اور مرنے کو تیار ہیں۔ کردوں کے حقیقی اتحادی عراق، ایران اور ترکی کے وہ غریب اور محنت کش عوام ہیں، جو خود اپنی آمریتوں کے زیر تسلط آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔