ترکی: معاشی تباہی اورافق پر ابھرتے انقلابی امکانات

ترک معیشت نامیاتی بحران اور عدم استحکام کی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تیز تر ہوتی سیاسی چپقلش کے نتیجے میں ترک اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی تادیبی محصولات لاگو ہونے کی وجہ سے ترک لیرا کی قدر میں تیز ترین گراوٹ واقع ہوئی ہے۔ اپنی پست ترین سطح پر لیرا کی قدر اس سال جنوری کے مقابلے میں 40 فیصد کم تھی۔ اس کے بعد کرنسی کی قدر میں پیدا ہونے والے نام نہاد ’’استحکام‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے ایک ڈالر کے بدلے میں اب 30 فیصد زیادہ لیرا حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

[Source]

اس ساری صورتحال کا ترک معیشت پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔ ترکی کو اس وقت دیو ہیکل کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے: 2017ء میں 76 ارب ڈالر۔ ریاست سمیت کئی کمپنیوں نے ان درآمدات کی قیمت ادا کرنے کے لئے ڈالروں میں قرضے لیے۔ لیکن تیزی سے قدر کھوتے لیرا میں منافع کمانے کی وجہ سے ان پر لدا قرضوں کا پہاڑ مستقل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

کرنسی بحران تیزی سے قرضوں کے بحران میں تبدیل ہو رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ ترکی دیوالیہ ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ترک محنت کشوں کے لیے مہنگائی کا ایک سیلاب امڈ آئے گا۔ پہلے ہی ان کی اجرتوں کو افراط زر کا گھن لگا ہوا ہے جو حالیہ تخفیف قدر سے پہلے 15 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ اگر بحران میں اور شدت آتی ہے تو ہم بیروزگاری میں تیز تر ین اضافہ اور ایک ایسا معاشی بحران دیکھیں گے جس کے نتیجے میں ترک عوام کا معیار زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔

پہلی نظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ دو ’’مرد آہن‘‘۔۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر طیب اردوگان۔۔ کی ذاتی چپقلش کے باعث بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحران کی بنیاد تمام ممالک میں سرمایہ داری کا بڑھتا ہواعدم استحکام ہے جس کی عالمی تعلقات میں عکاسی ہو رہی ہے۔

اردگان کوشش کر رہا ہے کہ لیرا کی گرتی قدر اور اس کی وجہ سے ترک عوام کے لئے پیدا ہونے والے مسائل کا تمام تر الزام امریکہ پر ڈال دے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیرا کی قدر میں تادیبی امریکی محصولات کے لاگو ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی کمی ہو رہی تھی۔ ٹرمپ تو صرف ترک معیشت کی اس کمزوری کو اردگان پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

مبینہ طور پر موجودہ جھگڑے کی واحد وجہ ترکی میں قید ایک شخص ہے۔ ٹرمپ، اینڈریو برنسن، ایک امریکی پادری کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے جو اس وقت ترکی میں نظر بند ہے۔ یا پھر جیسے اس نے ٹوئیٹر پر لکھا: ’’ترکی کئی سالوں سے امریکہ کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس وقت انہوں نے ہمارے شاندار مسیحی پادری کو نظر بند کیا ہوا ہے جس سے اب میرا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہمارے ملک کے عظیم محب وطن یرغمال کے طور پر پیش کرے۔ ہم ایک معصوم شخص کی رہائی کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کریں گے، لیکن ہم ترکی کو آڑے ہاتھوں لیں گے!‘‘۔

ٹرمپ کے مطابق ترکی کو برنسن کو رہا کر دینا چاہیئے تھا، اگر کسی اور وجہ سے نہیں تو صرف اس وجہ سے کہ ٹرمپ نے ایک ترک شہری کی اسرائیلی قید سے آزادی میں مدد کی تھی۔ لیکن ترکی اس طرح کے کسی معاہدے کی موجودگی سے انکاری ہے۔ اس جھگڑے پر اردگان کا تبصرہ ٹرمپ کے ٹوئیٹ سے بھی مختصر لیکن انتہائی معنی خیز تھا: ’’تمہارے پاس بھی ایک پادری ہے‘‘۔

اس پادری کا نام فتح اللہ گلن ہے جو مبینہ طور پر ترکی میں 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تھا۔ گلن، بااثر گلن تحریک کا سربراہ ہے اور امریکہ میں جلا وطن ہے جبکہ اردگان کی خواہش ہے کہ اسے جلد از جلد ترکی کے حوالے کیا جائے۔
اگرچہ دو تند مزاج حکمرانوں کے یرغمال بنانے کے کھلواڑ سے قرون وسطیٰ کی یاد تازہ ہو تی ہے لیکن اس جھگڑے کا تجزیہ جدید معاشی اور سیاسی نکتہ نظر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

سیاسی لڑائی جھگڑے

دہائیوں سے ترکی، امریکہ کا وفادار NATO حلیف رہا ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے مشرق وسطیٰ میں ان دونوں ممالک کے مفادات کی خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حتمی تجزیئے میں اس کی وجہ امریکی سامراج کی بڑ

ھتی ہوئی کمزوری ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی سطح پر ماضی کی طرح مداخلت کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری طرف پچھلے 20 سالوں میں ترکی کے تیز تر معاشی ابھار کی وجہ سے اردگان اور اس کے ساتھیوں میں سلطنت عثمانیہ کی طرز پر نئی سامراجی بلندیوں پر پہنچنے کے خواب پنپ چکے ہیں۔ اس خبط عظمت کا اظہار انقرہ کے نئے صدارتی محل میں ہوتا ہے جسے عثمانی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔

امریکی ۔ترک مفادات میں تضاد کا سب سے واضح اظہار شامی خانہ جنگی ہے جہاں کرد SDF ملیشیا کی امریکی حمایت ترکی کو شدت سے کھٹکتی ہے۔ اس جنگ میں دونوں نیٹو’’اتحادی‘‘ آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ اردگان کے کرد ملیشیا کی حمایت ترک کرنے کے دیرینہ مطالبے کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔ حقیقت میں یہ حمایت، جس کا آغاز داعش کے خلاف جنگ میں شروع ہوا تھا اب امریکی فوجی اڈوں کی تعمیر کے بعد اور زیادہ ٹھوس وسعت اختیار کر چکی ہے۔

امریکہ کے پاس کرد ملیشیا پر اثرو رسوخ وہ آخری ہتھیار بچا ہے جس کے ذریعے ایران اور روس کے خلاف سالہا سال پرانی شامی خانہ جنگی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی اردگان کے ان مطالبات کی واشنگٹن میں کوئی شنوائی نہیں ہونے لگی۔ اس وجہ سے کئی موقعوں پر اس نے امریکہ پر دباؤ بڑھانے کے لئے شامی شہر منبج پر فوج کشی کی دھمکی دی ہے۔

اس وجہ سے امریکی۔ترک اتحاد کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ واشنگٹن کی خواہشات سے آزاد ہونے اور ٹرمپ پر دباؤ ڈالنے کے لئے اردوگان دیگر عالمی قوتوں  کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے۔۔جیسے نیٹو ممبر ہونے کے باوجود روس سے جدید ہوائی جہازکش ایس-400  میزائلوں کی خریداری۔

امریکہ نے تادیبی محصولات ایک امریکی یرغمال کی بازیابی کے لئے نہیں بلکہ ایک سرکش اتحادی کو کنٹرول کرنے کے لئے لاگو کی ہیں۔ امریکہ کی امید ہے کہ مشکل معاشی حالات کے دوران ایک کاری ضرب لگاکر ترکی کو دوبارہ حلقہ اثرمیں لایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس اقدام سے طاقت نہیں بلکہ اختیارات میں کمزوری واضح ہوتی ہے۔ ان محصولات کا فوری نتیجہ ترک فرمانبرداری نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس اردگان دیگر عناصر، مثلاً روس، چین اور یورپی یونین پر انحصار کرتے ہوئے پینترے بازی کی کوشش کرے گا۔

اس ممکنہ صورتحال کی تیاری میں یورپی یونین اردگان کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ ترکی کے ساتھ کسی مفاہمت تک پہنچنے کی خواہش کی اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے سے نازک یورپی بینکاری مزید کسی دباؤ کا شکار نہ ہو، خاص طور پر اس وجہ سے کہ اطالوی اور ہسپانوی بینکوں کے ترکی میں وسیع کاروباری معامالات موجود ہیں۔

اس دفاعی اقدام کے علاوہ جرمن سرمائے کو امریکی تعمیر کردہ گاڑیوں پر ترک جوابی محصولات لاگو ہونے پر ایک حوصلہ افزا مناسب موقع نظر آ رہا ہے۔ چین اور ترکی کے خلاف تادیبی محصولات لگانے کے اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن وزیر معاشیات نے امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ: ’’اس تجارتی جنگ کی وجہ سے معاشی بڑھوتری سست روی کا شکار ہوتے ہوئے برباد ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ نیا عدم استحکام ہے‘‘۔اسے انقرہ سے مثبت جواب کے لئے زیادہ در انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ترکی کے وزیرخزانہ اور اردگان کے داماد، بیرات البیراک نے آلتمیئر کے ’’عام فہم اظہار‘‘ کی تعریف کی اور کہا کہ اس وجہ سے یورپ پر ترکی کا اعتماد بڑھا ہے۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد۔۔ ’’بالکل غیر متعلقہ‘‘ معاملے میں۔۔ترکی نے ایک جرمن صحافی کو وطن واپسی کی اجازت دے دی جس پر ’’دہشت گردی کی حمایت‘‘ کی فرد جرم عائد تھی۔ نیک خواہشات کا سب سے بڑا اظہار SPD کی قائد آندریا ناہلیز نے اپنی تہلکہ آمیز تجویز کے ساتھ کیا کہ ترکی کی اس معاشی مصیبت میں سیاسی اختلافات کے باوجود مدد کی جائے۔ اگرچہ اسے عوامی دباؤ کے نتیجے میں وضاحت کرنی پڑی کہ اس کا مطلب مالی امداد نہیں تھا، اس کے باوجود ایک رجحان واضح ہوتا جا رہا ہے: یورپی سرمایہ، یعنی اولین طور پر جرمن سرمایہ، امریکی۔ترک تنازعے کی وجہ سے خالی کردہ خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اور (کچھ حد تک) روس بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔

اردگان بری الذمہ

اردگان نے آسانی سے ’’ترکی ایک معاشی جنگ لڑ رہا ہے‘‘ کہتے ہوئے امریکہ کو موجودہ بحران کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن مسائل گھمبیر ہیں اور کسی سیاسی تصفیے کے باوجود حل نہیں ہوں گے۔ اگرچہ گزشتہ چند دہائیوں میں ترک معیشت نے متاثر کن ترقی کی ہے، اس ترقی کی بنیاد، خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں قرضے (خاص طور پر بیرونی قرضے) اور دیو ہیکل پراپرٹی بلبلہ ہیں۔

اس صورتحال میں اردگان کے حالیہ سیاسی فیصلوں کی ایک اور وجہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی شدید خواہش بھی ہے۔ بحران کا پہل کر کے مقابلہ کرنے کی کوشش میں اس نے دو مہینے پہلے قبل از وقت انتخابات منعقد کرائے۔ اپنی کم ہوتی سماجی حمایت کو مستحکم کرنے کی امید پر اس نے کئی اقدامات کے علاوہ انتخابات سے پہلے پینشن خواروں کے لئے ایک قابل ذکر رقم کی ادائیگی کا بھی حکم دیا۔ اس اقدام کے حصول کے لئے خاص طور پر یہ خیال رکھا گیا کہ ترک سرمایہ داروں کے منافعوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ اس کے برعکس، ریاست نے سماجی تحفظ سے منسلک کچھ اخرجات کا بوجھ اٹھانے میں مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس فراخ دلی کا ناگزیر نتیجہ قومی قرضے میں اضافے کی شکل میں نکلے گا اور حتمی طور پر ، مجموعی معاشی بحران میں مزید تیزی کا باعث بنے گا۔

اس وقت بھی اردوگان پوری شدو مد سے بڑھتی ہوئی تباہ کن صورتحال کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ترک لیرا کی سٹے بازی کے خلاف اقدامات اور قطر سے 15 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری ایک گلے سڑے زخم پر تھوک لگانے کے مترادف ہے۔ فوری نتیجہ وقتی استحکام میں تو شائد نکل آئے لیکن اس کی وجہ سے آنے والا دیو ہیکل معاشی انہدام ٹالا نہیں جا سکتا۔

اس صورتحال کا ایک اور نتیجہ عسکری مہم جوئیوں کے لئے، خاص طور شام میں،کم ہوتے سرمائے کی شکل میں نکلے گا۔ اس بحران کے اسلامی بنیاد پرستوں کے زیر تسلط شامی شہر ا دلب کے دفاع پر شدید اثرات پڑیں گے۔ ادلب میں شکست ریاست کے بحران کو اور زیادہ گہرا کرے گی جو اس وقت شامی ب سے بڑھ کر معاشی انہدام ان تمام عوامل کو دھماکے سے عیاں کر دے گا جو اس وقت ترک سماج میں زیر سطح پنپ رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے اردگان کی قابل ذکر سماجی بنیادیں سکڑ رہی ہیں۔ ابھی بھی عوامی بے چینی کو ہر لمحہ بڑھتے ہوئے آمرانہ اقدامات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پریس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا چکا ہے جبکہ تمام تر ریاستی طاقت اردگان اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی ہے۔

پانچ سال پہلے گیزی پارک کو ختم کرنے کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ہر لمحہ بڑھتے اضطراب کا شکار، اردوگان کا حاکم ٹولہ مزید انقلابی تحرک کو روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ جبر کرنے پر مجبور ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی تک وہ بمشکل بال برابر بچتے آئے ہیں۔ لیکن جب عوام کو دیو ہیکل بیروزگاری، بے قابو افراط زر اور مکمل غربت کا سامنا ہو تو ایک جھٹکے میں استحکام کا نازک پردہ چاک ہو سکتا ہے جس کے بعد ایک گلا سڑا تعفن زدہ معاشی نظام دنیا بھر کے سامنے عریاں ہو جائے گا۔ اس کے بعد ترک عوام کے پاس سوائے طبقاتی جدوجہد کے اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

لہذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ترکی کو جن دیو ہیکل سماجی دھماکوں کا سامنا ہے ان کی نوعیت صرف معاشی نہیں ہے۔ ہم ترک عوام اور اس کے ساتھ ترک محنت کش کو بیدار ہوتے ہوئے تاریخ کے میدان میں داخل ہوتے دیکھیں گے جن کی شاندار انقلابی روایات ہیں۔ حتمی طور پر سوال ایک ہی ہے: سوشلسٹ انقلاب کی فتح یا سرمایہ دارانہ بربریت کا بحران اور آمریت۔