بریگزٹ: برطانیہ اور یورپ کا بکھرتا شیرازہ!

برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا وقت سر پر آن پہنچا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جوں جوں یہ وقت گھٹتا جا رہا ہے برطانوی اور یورپی حکمران و سرمایہ دار طبقے کے سروں پر خطروں کی گھنٹیاں بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ دو سال کے طویل وقت میں بھی ٹوری حکومت اور یورپی یونین بریگزٹ سے متعلق کوئی قابل عمل حل تلاش نہیں کر سکے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین نے مشکل سے جو ڈیل کی، جب وہ برطانوی ہاؤس آف کامنز میں پہنچی تو ممبر ان پارلیمنٹ نے ووٹنگ کے عمل میں اس ڈیل کے پرخچے اڑا دیئے۔ اور ابھی تک بار بار کی ووٹنگ کے باوجود برطانوی حکمران بریگزٹ سے متعلق کوئی دوسرا حل پیش نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ برطانوی حکمران طبقے اور حکمران جماعت میں موجود شدید پھوٹ ہے۔ 15جنوری کو پارلیمنٹ میں اس پر کی گئی ووٹنگ میں تھریسا مے کی ڈیل کو 230ووٹوں کی تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں خود ٹوری پارٹی کے 118ممبران ایسے ہیں جنہوں نے خود اپنی ہی وزیراعظم کی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ تاریخ میں کسی بھی معاملے پر کسی بھی وزیراعظم کی سب سے بڑی شکست تھی جس میں اس کی اپنی پارٹی کے ایک بڑے حصے نے بھی اس کے خلاف ووٹ دیا۔

[Source]

پارلیمنٹ میں اتنی بڑی شکست کا سامنا کرنے کے بعد تھریسا مے کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا لیکن تھریسا مے نے انتہائی ڈھٹائی سے پلان بی پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ پوری دنیا اور بالخصوص برطانوی بورژوا میڈیا بھی تھریسا مے کی اس شکست کے بعد کی دیدہ دلیری پر حیران تھا۔ ہر کوئی اس شکست کے بعد تھریسا مے سے استعفے کی امید کر رہا تھا۔ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کاربن نے حکومت پر عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جس پر اگلے ہی روز ووٹ کروایا گیا جس میں تھریسا مے کو ایک چھوٹے مارجن سے کامیابی حاصل ہوئی اور یہ کمزور اکثریت وہی ہے جس کی بنیاد پر ٹوری پارٹی کی حکومت اب تک لڑکھڑاتی گھسٹ رہی ہے۔لیکن یہ ایک ایسی کیفیت کا بھی اظہار ہے جس میں برطانوی حکمران طبقہ کوئی بھی اقدام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا ہے۔

پارلیمنٹ میں ہونے والی بار بار کی بحثوں کے بعد تھریسا مے نے یورپی یونین سے دوبارہ رجوع کیا تاکہ وہ ڈیل کو کوئی نیا رنگ دے سکے لیکن یورپی یونین نے تھریسا مے کی تجویز ماننے اور دوبارہ مذاکرات کے آپشن کو یکسر مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ وہ بریگزٹ پر پہلے کی گئی ڈیل سے بہتر کوئی ڈیل آفر نہیں کر سکتے۔ تھریسا مے اور یورپی یونین کے مابین ہونے والی ڈیل کے مطابق برطانیہ 29مارچ کو یورپی یونین سے تو الگ ہو جائے گا لیکن اس عمل کو تقریباً دو سال کی ایک عبوری مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ اس دوران کوئی سخت بارڈرز کے قوانین، چیک اور بیلنس، کسٹمز یا دیگر ایسی باڑیں اور رکاوٹیں برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین نہیں بنائی جائیں گی۔ بلکہ یہ عمل در حقیقت ایک دکھاوا زیادہ ہو گا۔ ایک کسٹم یونین تشکیل دی جائے گی جس میں یورپی یونین اور برطانیہ ایک دوسرے کی مصنوعات پر یکساں مگر انتہائی کم یا بالکل بھی ٹیکس نہیں لگائیں گے۔ لیکن اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے مابین ایک سرحد کا بننا ناگزیر تھا۔ گو کہ یہ سرحد بھی بہت سخت نہیں ہو گی لیکن اس سرحد کے بننے کا عمل جزیرہ آئرلینڈ کو ایک بار پھر عملی طور پر دو حصوں میں منقسم کر دے گا کیونکہ برطانیہ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی یورپی یونین میں موجودگی کے باعث یہ تقسیم محض علامتی رہ گئی تھی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اگر جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے مابین سرحد نہیں بنائی جاتی تو جزیرہ آئرلینڈ اور برطانیہ کے مابین سرحد قائم کرنی پڑے گی جو شمالی آئرلینڈ کو برطانیہ سے کاٹ کر رکھ دے گی۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کی وجہ سے برطانوی حکمران طبقے کو شدید تشویس لاحق ہے۔ شمالی آئرلینڈ میں قومی آزادی کی تحریک کی ایک طویل تاریخ ہے جسے 1990ء کی دہائی میں جنگ بندی کے معاہدے اور یورپی یونین کے قوانین کے تحت مصنوعی طور پر دبایا گیا تھا۔ لیکن شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے مابین عملی سرحد کھینچے جانے سے یہ تقسیم حقیقی شکل اختیار کر جائے گی اور اس کی وجہ سے اس خطے میں موجود امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔

برطانوی حکمران طبقہ اس وقت ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔ ٹوری پارٹی میں ایک واضح تقسیم موجود ہے۔ پچھلے دو سال سے یہ حکومت اپنے اقتدار کو بمشکل گھسیٹ رہی ہے۔ ٹوری پارٹی کا ایک حصہ بریگزٹ کا حامی ہے اور ایک اس کا مخالف۔ اور دونوں دھڑوں کے مابین کوئی مصالحت ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مختلف کاروباری دھڑوں کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جیرمی کاربن کے گرد ابھرنے والی عوامی تحریک نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ ایک طرف وہ کسی بھی مشترکہ طریقہ کار پر متفق نہیں ہیں اور دوسری طرف اس حکومت کے خاتمے کی صورت میں جیرمی کاربن کے اقتدار میں آ جانے کے خوف نے ان کو تھریسا مے کی حکومت کو چلانے پر مجبور بھی کر رکھا ہے۔ لیکن یہ کیفیت ہمیشہ کے لئے یونہی قائم نہیں رکھی جا سکتی۔

تھریسا مے کے پاس وقت انتہائی کم ہے۔ اگر پارلیمنٹ کسی قابل عمل حل پر متفق نہیں ہوتی تو ’’نوڈیل بریگزٹ‘‘ کے امکانات موجود ہیں۔ جو ناصرف برطانیہ بلکہ خود یورپی یونین کے لئے خوفناک تضادات کو جنم دے سکتا ہے۔ برطانیہ میں بہت سے بڑے کاروباریوں نے اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے پیشگی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ بہت سے کاروبار جن کے ہیڈ کوارٹرز برطانیہ میں تھے ان کو یورپ کے دیگر ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے لئے یہ صورتحال کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ پہلے ہی یورپ کے مختلف ممالک میں یونین مخالف پارٹیوں کا ابھار ہے۔ اٹلی میں یونین مخالف اقتدار میں پہنچ چکے ہیں اور یورپی یونین اور اٹلی کے مابین حال ہی میں بجٹ اور قرضوں کے معاملے پر ابھرنے والے تضادات محض وقتی طور پر ہی نبٹائے جا سکے ہیں۔ دوسری طرف اٹلی کی معیشت ایک بحران میں گھر چکی ہے اور اس بحران کے شدت اختیار کر جانے کی صورت میں یورپی یونین کے پاس اس سے نبٹنے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔جرمن انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر اینجیلا مرکل نے اپنی پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا ہے جو جرمنی میں ابھرنے والے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ فرانس میں ابھرنے والی پیلی واسکٹ والوں کی تحریک نے ناصرف پورے فرانسیسی سماج کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے بلکہ پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی کیفیت میں یورپی یونین کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ عالمی معیشت میں بہتری کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں اور خود بورژوا ماہرین ایک نئے بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں جو کسی بھی وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

بریگزٹ کوئی بھی شکل اختیار کرتا ہے تو اس سے برطانیہ کے عوام کی زندگیوں میں کسی بہتری کا امکان نہیں ہے۔ نہ تو سرمایہ دارانہ یورپی یونین کا مقصد یورپ یا برطانیہ کے عوام کو ایک خوشگوار زندگی دینا تھا اور نہ ہی برطانوی حکمران طبقہ بریگزٹ کی صورت میں اس طرح کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ ایک طویل وقت سے یہ حکمران طبقہ محنت کشوں کی جدوجہد سے جیتی ہوئی حاصلات پر کاری ضربیں لگا رہا ہے، ان سے مراعات چھینی جا رہی ہیں، آسٹیریٹی کی جا رہی ہے، علاج اور تعلیم کی سہولیات غریب لوگوں سے چھینی جا رہی ہیں اور اسی طرح سے ان پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ مسلط کیا جا رہا ہے۔ اور آج ایک سیاسی بحران میں اس حکمران طبقے کی سیاسی بصیرت بھی علی الاعلان اپنی کوتاہ نظری کااظہار کر رہی ہے کہ کوئی بھی ایسا حل پیش نہیں کیا جا سکا جس کے ذریعے اس بحران سے نکلا جا سکے۔ ایسے میں اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ اس جنگ کو عوام تک لے کر جانے کا ہے۔ لیبر پارٹی کی قیادت کو مصالحت کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے محنت کشوں تک اپنا پیغام لے کر جانا ہو گا۔ لیکن لیبر پارٹی کی قیادت کی ہچکچاہٹ اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔

اس بحران اور دیگر تمام تر بحرانات اور مسائل کا خاتمہ صرف اور صرف محنت کش عوام کے میدان عمل میں اتر تے ہوئے سیاسی عمل میں فعال مداخلت کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن ہے۔ برطانیہ کا محنت کش طبقہ اور نوجوان اپنے عملی تجربے سے اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ ابھی تک وہ جیرمی کاربن کے گرد منظم ہو کر اس سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں لیکن عمل کی بھٹی ان کو ناگزیر نتائج اخذ کرنے پر مجبور کر دے گی اور حکمران طبقات کی محنت کشوں کی زندگیوں میں بہتری لانے میں نااہلی انہیں اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک انقلاب میں کودنے پر مجبور کر دے گی۔