عالمی معاشی بحران، خوش فہمیوں سے غلط فہمیوں تک

Urdu translation of Green shoots of economic recovery? (June 11, 2009)

 

مک بروکس ۔ ترجمہ، اسدپتافی،24.08.2009. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ معاشی ماہرین اور صحافتی تجزیہ نگارعالمی معاشی بحران کی موجود زبوں حال کیفیت میں سے خوشحالی کے امکانات اور آثار برآمدکرنے کی دھن میں مگن ہیں۔ شاید اسی لئے کہاجاتا ہے کہ خواہشات کی کوکھ سے ہی توقعات سے جنم لیا کرتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کی خواہش اورتوقع کا کچھ تجزیہ کرتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے؟ برطانیہ سمیت دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں پچھلے مارچ سے لگاتار بلند جارہی ہیں ، اور یہی وہ عنصر ہے جو زیادہ تر ماہریں و تجزیہ نگاروں کو خوش گمان کئے ہوئے ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں انتہائی محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ انیس سو اناتیس سے بتیس کے دوران ، عالمی زوال کے وقت بھی نیویارک سٹاک ایکسچنج نے چار دفعہ بیس فیصد یا اس سے زیادہ چھلانگ لگائی تھی جبکہ مجموعی طورپر حصص کی قیمتیں مسلسل نیچے گر رہی تھیں۔ اس قسم کی بلندیاں عام طورپر خون چوسنے والی تصور کی جاتی ہیں ۔ جوایک کمزور ہوتی مارکیٹ(bear market)کی بڑھک بازوحشت کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمزور معیشت کی مضبوط ہوتی سٹاک مارکیٹیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے اہم اور توجہ طلب بات جواس ضمن میں سمجھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی بڑی سٹاک مارکیٹوں کے حصص کے کاروباراور اتار چڑھاﺅکے حقیقی عالمی معیشت کے ساتھ کوئی باہمی جڑات موجود نہیں ہے۔ آخر کار وہ کونسی ایسی چراگاہ ہے جو اس طرز معیشت کےلئے چارہ فراہم کرتی ہے؟لارڈ کینز کے الفاظ کے مطابق یہ عام طورپر ”جانوروں کی روحیں،،(animal,s spirits) اور ایلن گرین سپین کے الفاظ میں یہ ایک” سرپھری وحشت،،‘irrational exuberance’کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سٹاک مارکیٹ بھی ، عمومی معاشی سرگرمی کا ایک بے کل و بے یقین اشاریہ ہواکرتی ہے۔ اس کی تہہ میں جو عنصر کارفرماہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھے ہوئے تاجر صاحبان کاغذوں پر تخمینے اورجوا لگاتے رہتے ہیں اور پھر اس کاغذ بازی سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی تگ ودوکرتے ہیں اور یہ کہ یہ کاغذ مستقبل میں ان کےلئے کتنی قدر واہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ منافعوں کی تقسیم(Dividends )اورحصص کے دھندے میں سے زیادہ سے زیادہ سرمائے کی امید یہ دونوں مل کر مستقبل کی متوقع منافع خوریت کی بنیاد بنتی ہیں۔ مستقبل کی یہ متوقع منافع خوریت ، اپنی بہتر صورت میں بھی محض ایک اندازہ ہوسکتی ہے اورہواکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان سب کو ہرا ہی ہرا سوجھ رہاہے۔ وہ گزرے ہوئے کل سے بے نیازہورہے ہیں۔ چنانچہ حصص کی قیمتیں اوپر ہی اوپر جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ یہی اس وقت سٹاک مارکیٹ کی حالت کا مختصر احوال ہے۔ اور یہ سب کچھ محض سٹاک مارکیٹ کے تاجروں کے موڈکا ہی ایک اظہار ہے اورا س کا حقیقی معیشت سے کوئی لینا دینا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ ایسی ہی کیفیت صارفین کے دوبارہ بڑھتے ہوئے اعتمادبارے رپورٹوں کی بھی ہے۔ معیشت کے جھٹکوں اور اس سے پیداہونے والی مایوسی نے ایک اچھل کود کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ یہی اچھل کود اور جھنجھلاہٹ ہی ہے جس کی وجہ سے ہم سٹاک مارکیٹ کے اعداد وشمار کو جمپ لگاتا ہوادیکھ رہے ہیں ۔ آنچ کی حدت عناصر کو اچھال رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھروں کی منڈی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرا اشارہ ایک اور جھلملاتی روشنی کی نشاندہی کررہاہے۔ اس دعوے کے مطابق اس اپریل میں گھروں کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ ہر کوئی یہ بات سن کر ضرور چونکے گا اور پوچھے گا کہ کہاں اور کیسے یہ ہوا؟آپ بھی ذرا سوچئے اور اندازہ لگائیے ۔ بینک آف انگلینڈ کے ڈیوڈ بلانچ فلاور(جس نے بحران کو قبل از وقت سونگھ لیاتھا) نے جریدے ”گارڈین،، میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ ”ابھی بھی گھروں کی قیمتوں کو اس سے بھی کہیں زیادہ کم ترین سطح پر جانا ہے۔ ہمین یہ ہر حال مےں یاد رکھنا ہوگا کہ انیس سو نوئے کی دہائی کے ابتدائی عرصے کے دوران گھروں کی فروخت میں کمی کے رحجان کے وقت بھی کم وبیش ایک ہی مہینے کے اندر کوئی چار بار گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہواتھا،،۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ یہا ں برطانیہ میں بھی کمرشل پراپرٹی کی منڈی کا ڈھول بج چکا ہے۔ کمرشل پراپرٹی ،ہاﺅسنگ کے بلبلے کے پھٹنے کے بعدپیداہونے والے ان واسطوں میں سے ایک واسطہ ہے جنہوں نے معیشت کے دوسرے اداروںکو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ تاہم اس سب خوش گمانی کے باوجود بھی گھروں جائیدادوں کے کاروبار کی حالت خستہ سے خستہ تر دکھائی دے رہی ہے۔ جب تک بھی گھروں ،جائیدادوںکی قیمتیں گرتی رہیں گی تب تک اس صنعت کی بحالی کا نہ تو امکان ہے نہ آثار۔ لوگ تب تک انتظار کریں گے جب تک کہ ان کی قیمتیں انتہائی کم ترین سطح کو نہیں پہنچ جاتیں ۔ تب تک وہ خریدنے سے گریز اور اجتناب کریں گے۔ گھروں کی قیمتیں ابھی تک مسلسل نیچے گر رہی ہیں ۔ اس وقت تک بھی بارہ فیصد مالکان کواپنے گھروں کی قیمتیں کی ادائیگی کے بحران کا سامنا ہے یا پھر ان کو تالے لگ جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ تشویشنا ک اعداد وشمار یہ عیاں کرتے ہیں کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو اس بات کا یقین نہیں رہا ہے کہ اگلے سال ان کے سروں پر چھتیں بھی ہوں گی کہ نہیں پچھلی صدی کا عظیم معاشی زوال جب رونماہواتھاتو بے گھر ہونے والوں اور روزگار سے محروم ہوجانے والوںنے اس وقت کے اپنے امریکی صدرہوور کے نام پر”ہوورآباد،، خیمہ بستیاںآباد کی تھیں جبکہ اس بار بھی جو بستیاں بسائی جارہی ہیں وہ بھی اوبامہ ویلاز کے نام پر قائم کی جارہی ہیں۔ اور اس قسم کے بے شمار” اوبامہ نگر،، امریکہ بھر میں بستے چلے جارہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کارخانوں کی پےداوار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھروں کی قیمتوں کی طرح سے کارخانوں کی پیداوار میں بڑھوتری کی بھی رپورٹیں سامنے لائی جارہی ہیں ۔ اگرچہ محض ایک مہینے کے اعداد وشمار کو مجموعی صورتحال پر منطبق کرنا انتہائی غیردانشمندانہ قدم ہوتاہے۔ ا یسا ممکن ہے کہ بہت سے دکانداروں نے اپنی مہینوں کی کاروباری بندش کے بعد اپنے اپنے گوداموں کو بھرنے کےلئے دوبارہ فیکٹر یوں کوآرڈر دیے ہوں ۔ اسی طرح کچھ قرض خواہوں نے اپنی ماہانہ ادائیگیو ں میں کمی دیکھی ہے اور یوں ان کی جیبوں میں کچھ رقم آگئی ہے جسے وہ خرچ کرسکتے ہیں ۔ لیکن اس قسم کے عناصر کبھی بھی معیشت کی حقیقی بحالی کےلئے نہ تو کارگر ہوتے ہیں نہ ہی کارآمد۔ معاشی بحالی کی جو کہانی بیان کی جارہی ہے وہ انتہائی معمولی نوعیت کی ہے۔ ایک بات البتہ حتمی و یقینی ہے کہ جب تک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑکر نہیں پھینکا جاتا، یہ قائم ودائم رہے گا اور یہ اپنے ہر ایک بدترین بحران میں سے بھی بچ کر پھر ابھرآئے گا۔ مگر یہ بحالی کب اور کیسے ہو گی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے ۔ بلاشبہ سرمائے کے ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ یہ بحالی ہوتے ہی نظام ایک بار پھر اپنے جوبن پر آجائے گا۔ بے روزگاری یکسر ختم کر دے گے اور معیار زندگی اپنی ممکنہ بلندیوں کو پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ ان کی امید ہے اورہمیں اس پر شک ہے۔ اس وقت ہم جو بہتری ہوتے دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ انحطاط کی شرح انحطاط کا شکار ہے۔ معاملات چند مہینے پہلے تک جتنی تیزی اور شدت سے بگڑتے جارہے تھے ان میں کمی ہوئی ہے۔ مگر جیسا کہ ڈیوڈ بلانچر نے بھی کہا ہے کہ ”برطانیہ میں اگلے ایک سال میں ہر مہینے میں ایک لاکھ بےروزگار سامنے آئیں گے۔ اگلے سال ہم بےروزگاری کی شرح کو اسی سطح پر دیکھیں گے جو کم و بیش مارگریٹ تھیچر کے وقت ہواکرتی تھی،،۔(The Financial Times 03.06.09)یہاں سوال اٹھتاہے کہ کیا امریکہ کے اند بحران ختم ہوجائے گا؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہوجائے گا۔ مگر فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ ”یہ محض اکادکا افراد کا ہی خیال ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا کہناہے کہ معیشت مستحکم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ ابھی تک یہ مکمل پستی تک نہیں پہنچی۔ ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں ہے مگر میر ے خیال میں ابھی کسی خوش گمانی میں بہت دیر ہے۔ کیونکہ ابھی تک صرف مئی کے مہینے کی پانچ لاکھ سے زائد ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ یہ جان ہیٹز یوس کا نقطہ نظر ہے جو گولڈ مین سانچزGoldman Sachsکا چیف اکانومسٹ ہے،، ۔ ایک بڑی موثر بحالی کےلئے کیا درکار ہے؟سب سے پہلے تو بینکوں کی صحت کو بحال اور بہتر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بینک ہی وہ لیکویڈیٹی فراہم کیا کرتے ہیں جو کہ وہ موبل آئل ہوتاہے جو فیکٹریوں کو چلاتے رہنے کا باعث بنتا ہے۔ اپنی تین جون کی اشاعت میں فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ کمپنیوں اور گھریلوصنعت کو قرضوں کی فراہمی کی شرح اپریل میں سب سے نچلی شرح کو پہنچی ہے ، جب سے اس کا آغازہواتھا۔ ایک ایسی کیفیت میں جب فرمیں اور ان کے کاروبار ہوامیں معلق ہوں ،اور انہیں قرضے کی دستیابی نہیں ہوتی ،تو ایسے میں کئی فرمیں لازمی طورپر ڈوب جائیں گی۔ صارفین کےلئے تو قرضہ کارڈوں کا حامل عروج کا عہد تو اب ماضی بعید کاحصہ بن چکاہے۔ اور مستقبل قریب یا بعیدمیں اس کے دوبارہ ابھرنے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔Capital Economicsکے وکی ریڈوڈکا کہنا ہے کہ”قرضوں کی غیر مالیاتی شعبوں کو فراہمی ابھی تک تنزلی کا شکار ہے،، ہمارے لئے اس بات کا سمجھنا محال ہے کہ کس طرح سے ایک بڑی معیشت کےلئے ایک مستحکم و مستقل بحالی کا سوچا بھی جا سکتا ہے؟ ،،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بینکوں کو سرمائے کی فراہمی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بینکوں کو ہم عوام کے سرمائے کی بہت بھاری مقدار فراہم کر دی گئی ہے۔ تاہم اس کے بعد بھی اور باوجود بھی یہ بینک ابھی تک قرضے فراہم کرنے کےلئے تیار نظر نہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا نظام کسی حد تک بحال ہو چکاہے اور چھ ماہ قبل جو انتشار واضطراب تھا وہ اب نہیں رہاہے۔ تاہم لوگوں کی، کمپنیوں کی اور مالیاتی اداروں کی بیلنس شیٹ کو ابھی ازسرنوتعمیر کرناباقی ہے اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ عروج کے سالوں میں پیداہونے والا جوش وخروش اس وقت خواب ہو چکاہے۔ چارجون کی گارڈین کی اشاعت میں نس پریٹلے نے لکھا ہے کہ ”اس قسم کی تمام خوش گمانیاں خوش فہمیاں اور توقعات اگر ویسی ہی ہیں جیسا کہ ان کوبیان کیاجارہاہے ، تو یہ انتہائی خطرناک عمل ہے ۔ جیسا کہInvesco Perpetual’s کے نیل وڈ فورڈ نے بھی اشارہ کیاہے ، انفرادی لوگوں اور بینکوں نے اپنے اپنے قرضوں کے معاملات طے کرنے شروع کر دیے ہیں ۔ اور یوں اپنی اپنی بیلنس شیٹ کو ازسرنو تعمیر کرنا شروع کردیاہے ۔ ایک طویل بحالی کےلئے یہ ایک کارآمد عنصر ثابت ہو گاتاہم اسی دوران مالیاتی قرضہ بازی کی کیفیت سخت تنگ نظری کی زد میں ہے۔ بے روزگاری کی سطح اورشرح بھی مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ابھی تک اداروں کے چیف ایگز یکٹوز کے چہروں پر خوشی ومسرت کے وہ آثار نظر نہیں آرہے ہیں جن کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ کاری کا عروج ، ہنوز دلی دور است ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم معاشی بحالی کی بات کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس سے ہم یہ بھی امید رکھیں گے کہ یہ عروج کی حامل بھی ہو۔ اس کےلئے ہمیں سرمایہ کاری میں عروج چاہئے۔ کیونکہ سرمایہ کاری ہی کسی بھی قومی آمدنی کا جزولاینفک ہواکرتی ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ عروج کےلئے سرمایہ کاری کا عروج لازمی امر ہوتا ہے۔ جبکہ سرمایہ کاری کے زوال سے بحران سراٹھالیتے ہیں۔ بینکوں کےلئے اب یہ کوئی خوشگوار عمل نہیں رہا ہے کہ لمبی سرمایہ کاری کریں ۔ وہ محض اپنے بہی کھاتے درست اور مرتب کرنے میں ہی مصروف ہوچکے ہیں ۔ سرمایہ کاری بھی تو منافعوں سے ہی برآمدہواکرتی ہے۔ مارکس نے سرمایہ کاری کو ”سرمایہ زدہ قدرزائد،، قراردیاتھا۔ یعنی محنت کشوں کو نہ اداکی جانے والی اجرت کو دوبارہ محنت مزدوری میں جوت دیا جاتاہے۔ دوسال پہلے سے ہی منافعوں میں اب وہ برکت نہیں رہی اور یہ تنزلی کی زد میں آئے ہیں ۔ چنانچہ مزید یا نئی سرمایہ کاری کے امکانات وآثار محال ہیں ۔ اور یہی نہیں بلکہ اشیا کےلئے منڈی بھی دستیاب نہیں ہے جہاں وہ بےچی جا سکیں۔ بلاشک سرمایہ کار لگانے کےلئے سرمایہ کہیں نہ کہیں سے تلاش کر کے بھی لے آئیں۔ علاوہ ازیں کئی فرموں کو ابھی اپنے اپنے گوداموںمیں پڑے رکھے مال کو بھی ابھی بھگتانے کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرمائے اور روزگار پر آئی بربادی کا سلسلہ آنے والے کئی سالوں تک جاری رہے گا۔ یہ بدسے بد تر ہوتا جارہاہے۔ حالیہ بحران امریکہ سے برآمدہواہے اوریہ امریکہ ہی ہے جس کا عالمی معیشت پر غلبہ وتسلط قائم ہے۔ اگر بحالی کا عمل بحال نہیں ہوتا تو یہ ساری امریکی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے بینکوں کو اس طریقے سے اس قدر بھاری سرمایہ دان کیاہے کہ جیسے وہ کسی عالمی جنگ کی تیاری کر رہے ہوں۔ چنانچہ اس وقت تو وقتی طورپر اور فوری طورپر مالیاتی ہراس سے تو چھٹکاراپالیاگیا ہے۔ لیکن جو کچھ اس دوران ہم کر چکے ہیں اس کا بل تو چکاناہی ہوگا۔ گیند کیچر میں جا گری ہے اور اسے اٹھاکر کھیل کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ کی انتہائی طاقتور حکومت کے بارے پیش گوئی کی گئی ہے کہ اسے اپنی مجموعی قومی آمدنی کے تیرہ فیصد کے برابر قرضہ لینا ہوگا۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک کیفیت ہے۔ یہ اسی قسم کے بجٹ خسارے کی سی حالت ہے جو عام ملکوں کے ساتھ لاحق ہواکرتی ہے۔ یہ قرضہ لازمی طورپر ادابھی کیا جائے گا اور ایک باربھی نہیں ، عام طورپر حکومت امیر ترین لوگوں سے ریاستی سیکورٹی کی ضمانت کے ذریعے ادھار لے سکتی ہے۔ لیکن یہاں امریکہ اور برطانیہ کے امرا ءان حکومتی وریاستی ضمانتی کاغذات کو قبول کرنے سے ہچکچارہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا نظام ہضم کمزور ہے۔ یہ سار انخرہ اور گریز اسلئے بھی ہو سکتاہے کہ وہ اپنے سرمائے پراپنی من مرضی کاشرح منافع لینے اور ہتھیانے کے موڈ میں ہیں۔ اس کا حکومت کے پاس جو متبادل ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے ۔ یعنی ہماری جیبوں میں سے پےسے نکالے جائیں۔ اور یوں وہ معیشت کو کسی حد تک بحال کر پائیں گے۔ طریقہ یہ اختیار کیا جائے یا وہ،آخرکار ادائیگی ہمیں کو ہی کرنی ہے۔ ریاستی مالیات کا بحران معاشی ابھار کی رہی سہی امید کا بٹن بھی بند کر دے گا۔ سب باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ معیشت ازاں بدتر ہونے جارہی ہے۔ نلس پریٹلے اپنے تجزیے کو اس بات پر کچھ یوں ختم کرتا ہے ”دستیاب اعدادوشمارکسی طور بھی صرف یہی ظاہر کررہاہے کہ ہمیں ایک طویل تعطل کا ہی سامناہے۔ ووڈفورڈ کے مطابق یہ عرصہ تین سے چار سال طویل ہوسکتاہے ۔ اس کی یہ بات معقول بھی لگتی ہے اور مدلل بھی،،۔ سرمایہ دارانہ نظام واضح طورپر ناکام ہوچکاہے۔ اور موجودہ بحران ہی اس بات کی ٹھوس دلیل کے طورپر کافی ہے۔ اس وقت عالمی معیشت کی موجودہ کیفیت اس آدمی کی سی ہے جس نے ایک سومنزلہ عمارت پر سے چھلانگ لگا دی۔ عمارت کی چالیسویں منزل کی ایک کھڑکی میں سے ایک آدمی نے اپنا سرنکالتے ہوئے پوچھا ، کہومیاں کیسے جارہے ہو؟ گرتے ہوئے آدمی نے جواب دیا کہ ابھی تک تو سب ٹھےک جارہاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام متروک و مردود ہو چکاہے ۔ ہمیں اسے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم کرناہے۔