Urdu

آج شام لاہور کے علاقے بیگم کوٹ میں واقع آٹو سپئیر پارٹس بنانے والی فیکٹری راوی آٹوز میں مالکان کے بھیجے ہوئے کرائے کے غنڈوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے رضوان نامی ایک محنت کش کو قتل جبکہ دو کو شدید زخمی کر دیا۔ فیکٹری میں پچھلے کئی ماہ سے بڑے پیمانے پر جبری برطرفیوں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ مزدوروں کو پوری اجرت بھی نہیں دی جا رہی تھی۔ اس پر جب یونین نے احتجاج کا اعلان کیا تو فیکٹری مالک کامران افضل کی جانب سے محنت کشوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جن پر عمل کرتے ہوئے آج اس کے بھیجے ہوئے غنڈوں نے مزدوروں کے رہائشی کوارٹرز میں گھس کر آرام کرتے مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ اطلاعات کے مطابق فیکٹری کا مینیجر بھی نہ صرف موقع پر موجود تھا بلکہ غنڈوں کو ہدایات دینے میں بھی پیش پیش

...

مجھے ابھی ابھی اپنے ایک عزیز دوست اور کامریڈ تنویر گوندل (جنہیں یہاں لال خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے: مترجم) کی وفات کی خبر ملی ہے۔ وہ پچھلے کچھ عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھا، مگر اس کے باوجود اس کی وفات کی خبر نہایت درد ناک ہے۔

امریکہ میں یہ سال صدارتی انتخابات کا سال ہے جس کے حوالے سے بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اپوزیشن میں موجود ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوارکومنتخب کرنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے جس میں تمام امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران حصہ لیں گے اور اس دوڑ میں شامل درجن سے زائد امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔ یہ صدارتی امیدوار نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ٹرمپ کا مقابلہ کرے گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے امیدوار کے انتخاب کے عمل کا آغاز روایتی طور پر آئیوا کی ریاست سے کر دیا ہے۔ آئیووا میں صدارتی امیدوارکے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوران دھاندلی کے شرمناک واقعے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا اصل چہرہ ایک بار پھر نمایاں ہوگیا ہے کہ یہ امریکی حکمران طبقے

...

چین میں کورونا وائرس کی وبا ایک خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تا دم تحریر،چین میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مصدقہ تعداد6ہزار (اب یہ تعداد لگ بھگ 24ہزار کو پہنچ چکی ہے) تھی جن کی اکثریت کا تعلق ہوبے صوبے کے دارالحکومت ووہان سے ہے۔تاہم نو اور صوبوں سے بھی سو سے زائد حتمی کیسز کی رپورٹ آئی ہے، جن میں سے بیشتر مریضوں کا تعلق صنعتی صوبوں ژی جیانگ اور گوانگڈونگ سے ہے۔کورونا وائرس اب چین سے نکل کر تھائی لینڈ، آسٹریلیا اور امریکہ تک پھیل رہا ہے۔

سماج سے کٹا عالمی حکمران طبقہ اس ہفتے سالانہ ملاقات کے لیے اکٹھا ہوا۔ لیکن اپنے وضع کردہ لبرل نظام کو چاروں اطراف خطرات میں گھرا دیکھ کر دنیا کے امیر ترین افراد اور ان کے نمائندوں کا موڈ مایوس کن اوراداس تھا۔

12 دسمبرکو ہونے والے برطانوی انتخابات تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ان انتخابات کے نتائج حسب معمول انتہائی غیر متوقع تھے جن میں دائیں بازو کی ٹوری پارٹی بورس جانسن کی قیادت میں واضح اکثریت جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے جبکہ لیبر پارٹی جیرمی کاربن کی قیادت میں بائیں بازو کا انتہائی انقلابی منشور دینے کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔اس صوتحال کا سائنسی تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کی جدوجہد کے لیے اہم نتائج اخذ کیے جا سکیں جو اس طبقاتی کشمکش کے شدت اختیار کرنے کا عہد ہے۔

فرانس کے صدرمیکرون کی پینشن ردِ اصلاحات کے خلاف کل (5 دسمبر) کی عام ہڑتال میں پورے فرانسیسی سماج کی ”جدوجہدیں یکجا“ ہو گئیں۔ CGT (ہڑتال کی قائد ٹریڈ یونین) کے مطابق 10 لاکھ 50 ہزار افراد نے مظاہروں میں شرکت کی یعنی 1995ء میں الین جوپے کے ردِ اصلاحات پروگرام کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے بعد تاحال یہ فرانس کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ پیلی واسکٹ تحریک کی روح سڑکوں پر محسوس کی جا سکتی ہے جہاں (قائدین کی محدودیت کے باوجود) محنت کش طبقہ نہ صرف پینشن ردِ اصلاحات بلکہ پوری حکومت کے خلاف اپنے غم و غصے کا براہِ راست اظہار کر رہا ہے۔

ایندھن سبسڈی میں حیران کن کٹوتیوں کے بعد پورے ایران میں پھوٹنے والے احتجاجوں کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں پر عوام کی جرأت مند اور دلیرانہ جدوجہد کے باوجود ملا آمریت نے تحریک کو پانچ دنوں میں کچل دیا ہے۔ لیکن یہ آمریت کی فتح نہیں بلکہ آمریت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔

حال ہی میں انتخابی مہم کے دوران بورس جانسن، جیرمی کوربن اور جو سوینسن نے لندن میں برطانیہ کی کنفیڈریشن آف انڈسٹری کی ایک کانفرنس میں چوٹی کے صنعت کاروں سے خطاب کیا۔ سوینسن نے اس بات پر زور دیا کہ لبرل ڈیموکریٹس ”کاروبار کی فطری پارٹی“ ہیں کیونکہ وہ بریگزٹ کو روکنا چاہتے ہیں۔ جانسن نے وعدہ کیا کہ کاروبار پر عائد ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ”استحکام“ یقینی بنایا جائے گا۔

”یورپ پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے“۔ اس شہرہئ آفاق جملے کے ساتھ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مصنفین نے انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ یہ 1848ء کا سال تھا، جب پورا یورپ انقلاب کی لپیٹ میں تھا۔ لیکن اب ایک بھوت صرف یورپ ہی نہیں پوری دنیا پر منڈلا رہا ہے۔ یہ عالمی انقلاب کا بھوت ہے۔

چند سال پہلے پاسدارانِ انقلاب کے ایک کمانڈر اور بسیجی مسلح جتھے کے درمیان ایک گفتگو کی ریکارڈنگ منظرِ عام پر آئی جس میں 2009ء کی ’سبز تحریک‘ زیرِ بحث تھی۔ اس گفتگو میں کمانڈر نے کچھ اس طرح سے بات کی کہ ”یہ لوگ (گرین تحریک میں شامل افراد) کھاتے پیتے گھرانوں کے خوبرو لونڈے ہیں، ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک مرتبہ تباہ حال اور محروم علاقوں کی بے سروپا عوام سڑکوں پر آگئی تو اس وقت ہمیں واقعی ہم خوفزدہ ہوں گے“۔

وہ دن آ چکا ہے۔

10 نومبر 2019ء کو منعقد ہونے والے ہسپانوی انتخابات کا نتیجہ 28 اپریل کے انتخابات سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا باعث بن چکا ہے۔ اگرچہ ان انتخابات میں ایک مرتبہ پھر دائیں بازو کو شکست ہوئی لیکن سوشلسٹ پارٹی(PSOE) کی قیادت کا خیال غلط ثابت ہوا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن بنا لیں گے اور UP قیادت کا لائحہ عمل۔۔سانچیز کو شکست اور نئے انتخابات کا انعقاد۔۔بھی غلط ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں انہیں ووٹوں اور سیٹوں دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سیاسی پولرائزیشن، جس میں کیٹالان قومی سوال کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، انتہائی دائیں بازو، کیٹالان حریت پسند پارٹیوں، باسک اور گیلیشئین قومی سوال کے استحکام میں اہم ثابت ہوا ہے۔

14 اکتوبر کو سانتیاگو دی چلی میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جسے چلی کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کہا گیا ہے۔ اور یہ درست ہے کہ یہ ریلی 1988ء میں ”NO“ مہم کی اختتامی ریلی جس میں دس لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے تھے، سے زیادہ بڑی تھی۔ 24 اکتوبر جمعہ کے دن پورے ملک میں مختلف شہروں اور علاقوں میں ہونے والی ریلیاں ایمرجنسی نافذ ہونے، سڑکوں پر فوج اتارنے اور پینیرا حکومت کی طرف سے کرفیو لاگو ہونے کے ایک ہفتہ بعد منعقد ہوئیں۔ پورے ملک میں حکومت کے خلاف 20 لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے۔

یکم اکتوبر سے دیو ہیکل احتجاجوں اور ریڈیکل مظاہروں نے پورے عراق کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس مرتبہ بغداد سے شروع ہونے والی یہ بغاوت تیزی سے پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ عراقی افواج اور پولیس نے شدید ظلم و جبر کیا ہے جس کی وجہ سے کم از کم 150 اموات ہو چکی ہیں (کچھ ذرائع کے مطابق 300 سے زائد) اور 6ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ لیکن اس خوفناک کریک ڈاؤن کے باوجود احتجاج نہیں رکے۔ 8 اکتوبر کے بعد ان میں ٹھہراؤ آیا ہے لیکن 25 اکتوبر کو پھر سے ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔(یہ آرٹیکل جمعہ کو ہونے والے مظاہروں سے قبل لکھا گیا تھا۔ جمعے کے روز بھی بغداد، الناصریہ اور بصرہ سمیت پورے عراق میں مظاہرے ہوئے جن پر بدترین ریاستی جبر کیا گیا جس کے نتیجے میں 30افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات

...