دیوالیہ ہوتے بینک اور سرمایہ داری کا عالمی بحران

عالمی مالیاتی منڈیوں کی صورتحال بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ امریکہ میں تین اور سوئٹزرلینڈ میں ایک بینک کے انہدام کے بعد مارکیٹیں اگلی کمزور کڑی کے ٹوٹنے کے انتظار میں ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

24 مارچ 2023ء کی صبح، ڈوشے بینک حصص کی قیمت میں 13 فیصد کمی کے ساتھ نشانے پر تھا، اور دیگر بینک بھی قریب ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ، ’کریڈٹ کرنچ‘ کے 15 سال بعد کچھ بھی حل نہیں ہوا ہے۔

ایک اور دن، ایک اور بحران

پچھلے ہفتے، سلی کان ویلی بینک اور سگنیچر بینک دونوں منہدم ہو گئے، جب ان کے بڑے پیمانے پر بینک میں رقوم جمع کرانے والے کاروباریوں نے اپنے بینک کھاتوں سے دسیوں ارب ڈالر نکال لیے، اس خوف سے کہ وہ اپنے فنڈز کھو دیں گے – یا، کم از کم، ایک طویل مدت کے لیے فنڈز تک رسائی کھو دیں گے۔

بینکوں کے انہدام کا سلسلہ کمزور ترین بینکوں سے شروع ہو کر ایک کے بعد دوسرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع ہوگیا۔ صرف تمام ڈپازٹس کی ضمانت دے کر ہی فیڈرل ریگولیٹر اور فیڈرل ریزرو اس لہر کو روک سکتے تھے۔

جب کہ یہ ناکافی تھا، اور جمعرات کی شام، بڑے بینکوں نے 30 ارب ڈالر فرسٹ ریپبلک کو دے دیے، جس سے ایسا لگتا تھا کہ یہ اگلا شکار بننے والا ہے۔

اسی وقت، کریڈٹ سوئس (سوئس بینکنگ دیو) اپنے بڑے حریف UBS میں گر کر تباہ ہو گیا۔

اس کے چھوٹے امریکی ہم منصبوں کے برعکس، کریڈٹ سوئس ایک عالمی بینک ہے، اور اس کے خاتمے سے عالمی سطح پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اسے ریگولیٹرز نے 30 ”عالمی نظام کے لحاظ سے اہم بینکوں“ میں سے ایک کے طور پر درجہ بند کیا ہوا ہے۔ کریڈٹ سوئس کا انہدام عالمی مالیاتی نظام کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔

سوئس سنٹرل بینک نے کریڈٹ سوئس کو 54 بلین ڈالر کی گارنٹی کی پیشکش کی تاکہ اسے برقرار رکھا جاسکے۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔ آخر کار، بینک کو سرکاری رقم کے امتزاج اور UBS کے ساتھ انضمام کے ذریعے بیل آؤٹ کرنا پڑا۔

یہ تازہ ترین ہنگامہ عالمی سرمایہ داری کے مسلسل عدم استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ 2008ء کے بعد اب یہ تیسرا یا چوتھا سنگین مالیاتی بحران ہے۔ 2011ء سے 2012ء میں سرکاری بانڈ مارکیٹوں میں بحران تھا۔ کرونا بحران؛ ستمبر میں برطانوی حکومت کے بانڈ کا بحران؛ اور اب ایک اور تجارتی بینک بحران۔

مالیاتی منڈیوں میں مقداری آسانی (Quantitative Easing) کے ذریعے سستے قرضوں، خاص طور پر 2011ء سے، نے مالیاتی نظام کو سنگین مشکلات سے پناہ دی تھی۔ لیکن اب یہ اپنی حد کو پہنچ چکا ہے۔

شرح سود کا دباؤ

بڑھتے ہوئے افراط زر نے مرکزی بینکوں کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا۔ صفر شرح سود اور نوٹ چھاپنے سے انہیں تیزی سے شرح سود میں اضافہ کرنے کی جانب جانا پڑا۔ یہ 1980ء کی دہائی کے اوائل سے شرح سود میں اضافے کی تیز ترین رفتار تھی۔ فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول نے گزشتہ سال اگست میں اعلان کیا تھا:

”ہم مانگ کو اعتدال پر لانے کے لیے زبردست اور تیز قدم اٹھا رہے ہیں تاکہ یہ رسد کے ساتھ بہتر ہم آہنگی میں آجائے، اور افراط زر کی توقعات کو برقرار رکھا جائے۔ ہم اس وقت تک اس پر قائم رہیں گے جب تک کہ ہمیں یقین نہ ہو جائے کہ کام مکمل ہو گیا ہے۔“

انہوں نے اکتوبر میں مزید کہا: ”ہمیں افراط زر کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ کاش ایسا کرنے کا کوئی آرام دہ طریقہ ہوتا۔ مگر نہیں ہے۔“

اب درد ظاہر ہونے لگا ہے۔ ٹیکنالوجی سیکٹر نے لوگوں کو نوکریوں سے نکالنا شروع کر دیا ہے، اور تعمیراتی شعبے کو بھی تکلیف محسوس ہونے لگی ہے۔

بینک، خاص طور پر سلی کان ویلی بینک (SVB)، اپنی بیلنس شیٹ پر بڑی مقدار میں سرکاری بانڈز پر بیٹھے پکڑے گئے۔ یہ شاید ایک یا دو سال پہلے بہت محفوظ طریقہ کار تھا۔ لیکن یہ ’انتہائی محفوظ‘ اثاثے اب اتنے محفوظ نہیں رہے۔

جبSVB کو بینکوں سے نکالے جا رہے ڈپازٹس کو پورا کرنے کے لیے سرکاری بانڈز کو بیچنے کی ضرورت پڑی، تو انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ منطقی طور پر، 1 فیصد سود پر 10 سالہ امریکی حکومتی بانڈ بہت سارے سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کرے گا، جب کہ آپ اوپن مارکیٹ میں 4 فیصد سود پر وہی بانڈ حاصل کر سکتے ہوں۔

جب تک آپ بانڈز کو میچورٹی (10، 20، 30 سال) تک رکھ سکتے ہیں، تب تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم، اگر آپ کو انہیں موجودہ حالات میں بیچنا ہے، تو آپ کو نقصان پر بانڈز فروخت کرنا ہوں گے۔ اس طرح کے نقصانات سے SVB کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنی منحوس سٹاک پیشکش شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔

اُلٹی پڑ گئیں سب تدبیریں

بینکوں کی جانب سے بانڈ مارکیٹ میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ایک وجہ 2008ء کے بحران کے بعد لائے گئے نئے ضوابط کے مطابق رہنا تھا۔ خیال یہ تھا کہ بینکوں کو ’محفوظ‘ اثاثوں کی اعلیٰ سطح کو برقرار رکھنے پر مجبور کرکے، اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ 2008ء جیسا بحران دوبارہ نہیں آئے گا۔

یقیناً، یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ کیا محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اور جو دو سال پہلے محفوظ سرمایہ کاری تھی وہ آج ایک خطرناک تجویز ہوگی۔ جیسا کہ گریگ آئی پی نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا ہے: ”مسئلہ یہ ہے کہ فنانسرز محفوظ حکمت عملی پر اس وقت تک دُگنی تعداد میں موجود رہتے ہیں جب تک کہ یہ غیر محفوظ نہ ہو جائے۔“ یعنی بہت زیادہ حفاظتی تدبیریں اُلٹی بھی پڑ جاتی ہیں۔

قطع نظر، اس حکمت عملی نے بینکوں کو بہت سارے سرکاری بانڈز خریدنے پر مجبور کیا، جنہیں سب سے محفوظ اثاثوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ لہٰذا بینکوں نے ان بانڈز پر اپنا انحصار 12 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا۔ لیکن جو کبھی محفوظ اثاثہ تھا اب کئی پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے۔

اس میں ستمبر 2022ء میں برطانوی حکومت کے بانڈ کے بحران کی بازگشت ہے، جب پنشن فنڈز نے پنشن ریگولیٹرز کے مشورے کے تحت ان مالیاتی آلات میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی تھی جو برطانیہ کے بانڈز کی کم شرح سود پر انحصار کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھی جاتی تھی۔

جب بانڈ کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا تو اس وقت کی وزیر اعظم لز ٹرس کے اقتصادی اعلانات کے بعد، پنشن فنڈز کو ان آلات کو تیزی سے فروخت کرنا پڑا تاکہ تعمیل برقرار رہ سکے (اس سرمایہ کاری نے ’محفوظ‘ اثاثے بننا چھوڑ دیا تھا)۔ اور جیسا کہ انہوں نے ایسا کیا، اس نے برطانوی بانڈ مارکیٹوں پر مزید دباؤ ڈالا، جس سے بانڈ کی شرح بڑھی اور پنشن فنڈز کو فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح ایک گھن چکر کا آغاز ہوا۔

بینک تب تک ٹھیک ہیں جب تک کہ وہ مدت پوری ہونے تک بانڈز کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں جلدی اور تیز رفتاری سے بیچنا پڑے تو وہ بہت جلد مصیبت کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں SVB، کریڈٹ سوئس اور سگنیچر بینک کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔

اتنا بڑا کہ ناکام نہیں ہو سکتا!

یہ بینک شاید سب سے کمزور شکار تھے، لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں۔ مارٹن وولف کہتا ہے کہ فیڈرل ریزرو کے اعداد و شمار ہیں کہ امریکی بینکوں کے اثاثوں اور واجبات میں فرق کاغذوں پر 2.2 ٹریلین ڈالر تھا۔ لیکن یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر اسے آج فروخت کرنا پڑا تو اس میں سے 2 ٹریلین ڈالرز کا صفایا ہو جائے گا۔ یہ مؤثر طریقے سے بینکنگ سیکٹر کے زیادہ تر حصے کو دیوالیہ پن میں ڈال دے گا، کیونکہ ان کے اثاثوں کی قیمت ان کے واجبات سے کم ہوگی۔

”جب بہت زیادہ لوگ بینک سے اپنے پیسے نکالنے پہنچ جائیں گے تو پھر یہ نقصانات تمام کھاتہ داروں کا نقصان بن جائے گا اور تمام حصص داری کو اڑا دے گا،“ وولف نے نتیجہ اخذ کیا۔ ”اس کو روکنے کے لیے حکام کو تمام ڈپازٹس کو محفوظ کرنا پڑے گا۔“

فیڈرل ریزرو نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اور ضرورت پڑنے پر دوسرے مرکزی بینک بھی اس کی پیروی کریں گے۔

مرکزی بینک ہر بینک کی ضمانت دے کر بحران کو بڑے پیمانے پر پھیلا تے جا رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں ہر بینک کے بحران کو مجموعی طور پر نظام کے بحران میں بدل رہی ہیں۔ یعنی کہ خطرات سرکار اپنے ذمے لے رہی ہے جبکہ بینکوں کے منافع محفوظ ہیں۔

اس لیے بینکنگ سسٹم کا بحران مرکزی بینک کا بحران بن جاتا ہے۔ اور اس کا مطلب پورے سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے۔

پچھلی تین دہائیوں میں پورا بینکنگ سیکٹر کہیں زیادہ اجارہ دار ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر بینکنگ انڈسٹری ’اتنے بڑے ہیں کہ ناکام نہیں ہو سکتے‘ کے زمرے میں آ گئی ہے۔

1992ء میں، سب سے اوپری تین بینکوں نے امریکی بینکنگ سیکٹر کا 10 فیصد کنٹرول کیا ہوا تھا۔ اب یہ 40 فیصد ہے۔ دوسرے ممالک میں، اجارہ داری اس بھی زیادہ ہے، جہاں سرفہرست تین بینک مارکیٹ کے 60 سے 80 فیصد کے درمیان کنٹرول کرتے ہیں۔

بینک کی ناکامی کے نتائج، نہ صرف خود بینک کے لیے، بلکہ وسیع تر معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہیں۔

ریاست انہیں بچانے پہنچ گئی

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریگولیٹرز اور حکومتوں کو بار بار بینکوں کو بیل آؤٹ کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ہم SVB کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں، بینکوں کے اس کردار کی وجہ سے معیشت کا دم گُھٹ رہا ہے۔ وہ کمپنیاں جن سے ڈھائی لاکھ سے زائد محنت کش منسلک ہیں، کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ وہ اپنے بِل اور تنخواہیں کیسے ادا کریں گی۔ اور SVB کو اتنا بڑا بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ پورے نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔

جیسا کہ وولف نے کہا ہے: ”بینکنگ کا یہ چہرہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ وہ ریاست کا حصہ ہیں جبکہ نجی شعبے کا حصہ ہونے کا نقاب اوڑھے ہوئے ہیں۔“

سرمایہ دارانہ مبصرین بیل آؤٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ’اخلاقی خطرے‘ کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں، گویا سرمایہ داری کے بارے میں کچھ ’اخلاقی‘ بھی ہے۔ یہاں درحقیقت یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ سرمایہ دار جو طویل مدت میں منافع بخش حکمت عملیوں پر عمل نہیں کرتے، اور جو حد سے زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں، وہ ناکام ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔

وہ اس قسم کی تباہی کی اجازت نہیں دے سکتے جو سرمایہ دارانہ معیشت کے توازن کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔ 1930ء کی دہائی میں تمام امریکی بینکنگ اداروں میں سے ایک تہائی سے زیادہ منہدم ہو گئے۔ اور جمع کنندگان نے آج کی رقم میں 150 ارب ڈالر کھو دیئے۔

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بحران کمپنیوں اور بینکوں کو بند ہونے پر اس لیے مجبور کرتا ہے تاکہ زیادہ منافع بخش کمپنیوں اور بینکوں کیلئے جگہ بن سکے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کی مضحکہ خیز منطق، بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور محنت کش طبقے کے لیے بڑے پیمانے پر بدحالی معیشت میں ایک نیا ’توازن‘ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ بورژوا ماہر معاشیات جوزف شمپیٹر نے اسے نرم اور خوش کن الفاظ میں ’تخلیقی تباہی‘ کہا ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ حکومتیں اور مرکزی بینک معیشت کو مسلسل لائف سپورٹ پر رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے نام نہاد ’زومبی‘ کمپنیوں کو جنم دیا ہے: ایسے کاروبار جو پیسہ کھو رہے ہیں، اور جنہیں واقعی دیوالیہ ہو جانا چاہیے، لیکن جنہیں اب تک سستے قرضوں کے ذریعے زندہ رکھا گیا ہے۔ کریڈٹ سوئس بھی واقعتاً ایک زومبی بینک تھا جسے سستے قرضوں سے زندہ رکھا گیا۔

شرح سود میں اضافے کی پالیسی سے حکمران طبقے کو اس کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن اب وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ جیسے ہی معیشت میں سنگین ’درد‘ پیدا ہونے کا خطرہ سامنے آیا، مرکزی بینکرز، پہلے اپنے بہت سخت الفاظ کے باوجود، اچانک اپنی پالیسی کے نتائج سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ موجودہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کیلئے سرمایہ داری کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں۔ پیداواری قوتوں نے نجی املاک کی تنگ حدود کو پھلانگ لیا ہے۔ بینکوں کی اجارہ داری؛ ان کا باہمی تعلق اور ایک دوسرے پر انحصار: یہ سب اجارہ دارانہ سرمایہ داری کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔

منڈی اس کو نہیں سنبھال سکتی۔ اور ریاست کی مداخلت سرمایہ دارانہ نظام کے دیوالیہ پن کا کھلا اعتراف ہے–اور یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کس وینٹی لیٹر پر زندہ ہے۔

مہنگائی ختم نہیں ہو رہی

فیڈرل ریزرو کا نیا مالیاتی اقدام مفت یا سستے قرضوں کا ایک اور باب کھولتا ہے۔ اور تازہ ترین شرح سود میں اضافہ، جو اس ہفتے کیا گیا، جس کا مقصد 0.5 فیصد پوائنٹس تک ہونا تھا، کم کر کے 0.25 پوائنٹس کر دیا گیا۔

مزید برآں، فیڈرل ریزرو نے اب اپنی زبان بدل دی ہے۔ ”جاری“ شرح میں اضافہ کرنے کے متعلق وہ اب کہتے ہیں کہ ”کچھ اضافی“ اضافے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

یہ کیوں ہے؟ یہ کام کرنا بہت مشکل نہیں ہے۔ بائیڈن اور پاول نے 2 لاکھ 50 ہزار نوکریوں پر ایک نظر ڈالی جو خطرے میں تھیں؛ انہوں نے 1930ء کی دہائی کے بحران سے موجودہ بحران کی مماثلت دیکھی، دھڑا دھڑ منہدم ہوتے بینک دیکھے، اور یہ سوچا کہ اپنے دور اقتدار میں تو کم از کم اس سے بچا جائے۔

امریکی مزدور پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، اور اس سے اور بھی دباؤ بڑھے گا۔ پہلے ہی، کمیونزم نوجوانوں میں مقبول ہو چکا ہے، اور سوشلزم کے نظریے کو معاشرے میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ درمیانی (Centrist) سیاست کا وقت ختم ہوچکا ہے اور حکمران طبقے نے اپنے بہت سے سیاسی نمائندوں کا کنٹرول کھو دیا ہے۔ یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ وہ کھائی کی جانب لڑھک رہے ہیں۔

اسی وقت، افراط زر کی مساوات (Equation) میں رسد (Supply Side) پر مسلسل دباؤ ہے۔ پاول کا منصوبہ تھا کہ شرح سود میں اضافے کے ذریعے، مزدوروں اور کمپنیوں کو غریب تر کر کے طلب (Demand) کو کم کیا جائے۔ لیکن اس کے پاس رسد کے مسائل سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔

یعنی حکمران طبقے کے پاس خام مال، توانائی، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ مرکزی بینکرز تحفظاتی پالیسی (Protectionism) اور بڑے پیمانے پر فوجی اخراجات سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ سب افراط زر کے دباؤ کو بڑھاتے ہیں، اور معیشت کے کسی ایک یا دوسرے حصے میں درد پیدا کیے بغیر اس سے نمٹا نہیں جا سکتا۔

جیسا کہ امریکی سرمایہ دارانہ ماہر معاشیات کینتھ روگف نے دفاعی لاگت، گرین ٹرانزیشن اور ”پاپولزم“ کا حوالہ دیتے ہوئے فنانشل ٹائمز میں دلیل دی کہ:

”اس کا مطلب یہ ہے کہ افراط زر میں کمی کے بعد بھی، مرکزی بینکوں کو افراط زر کو مستحکم رکھنے کے لیے، اگلی دہائی میں شرح سود کی عمومی سطح کو پچھلی دہائی کے مقابلے زیادہ رکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔“

روگف نے مزید کہا: ”فیڈ (فیڈرل ریزرو) کے لیے چیزیں مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اسے اگلے ہفتے جن نقصانات کا سامنا ہے ]اس ہفتے کے شرح میں اضافے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے[ محض آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔“

اگرچہ فیڈرل ریزرو اب شرح سود میں اضافے کی رفتار کو سست کرنے پر مجبور ہے، تاکہ بینکاری کے شعبے کو رواں دواں رکھا جا سکے، مگر اس سے دوسری جانب افراط زر بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ ایک انتباہی علامت برطانیہ کا افراط زر ہے، جس میں گزشتہ ماہ ہی تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔

جلتی پر تیل

بلاشبہ، کچھ کمپنیاں اس صورتحال سے خوف فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ برطانوی ٹریڈ یونین یونائیٹ کے مطابق: ”2019ء کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 2022ء کی پہلی ششماہی میں ایف ٹی ایس ای 350 (FTSE 350) میں کمپنیوں کے اوسط منافع کا مارجن 89 فیصد بڑھ گیا۔“ تیل کی بڑی کمپنی بی پی (BP) نے اپنے منافع کو دوگنا کرکے 23 ارب پاؤنڈ کرلیا ہے۔ ایک اور بڑا فاتح زرعی ملٹی نیشنلز ہیں، جنہوں نے اپنے منافع میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا۔

اس نے بائیں بازو کے ماہرین اقتصادیات کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے پر اکسایا ہے۔ لیکن واحد اقدام جو قابل عمل ہے، وہ نیشنلائزیشن ہے۔ منافع کمانے کی بجائے سماجی ضروریات کی تکمیل کیلئے پیداوار کرنے کی صورت میں ہی تمام انسانیت کیلئے ان اجاراہ داریوں کے منافعوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے، یہ بمپر منافع مزدوروں کے لیے ایک اور توہین بن جاتے ہیں، جو اپنے اور اپنے پیاروں کو کھانا کھلانے اور پناہ دینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یہ بات قابل دید ہے کہ سوئس اور امریکی دونوں حکومتیں اس بات کی نشاندہی کرنے میں کس قدر تکلیف میں ہیں کہ کس طرح بینکوں اور سرمایہ کاروں کو بیل آؤٹ کی تازہ ترین لہر کے لیے ادائیگی کرنا پڑے گی۔ وہ واضح طور پر اس عوامی غصے سے ڈرتے ہیں جو بینکرز کو ایک اور خالی چیک دینے کی صورت میں بھڑک سکتا ہے۔

لیکن کوئی بھی ان وعدوں پر سنجیدگی سے یقین نہیں کرتا۔ یقینی طور پر اگر نقصان چند چھوٹے بینکوں تک محدود ہو ہے، تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن ساری صورتحال بینکوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال رہی ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ کبھی بھی کوئی اگلا بینک مہندم ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال میں سیاست دانوں کے لیے بھی حساب کتاب کی چالوں کے ذریعے اخراجات کو چھپانا مشکل ہوتا جائے گا۔

اس صورت حال کے طبقاتی جدوجہد پر زبردست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلسل مہنگائی اجرتوں اور کام کے حالات کے دفاع کے لیے مزید ہڑتالوں اور جدوجہد پر مجبور کرے گی۔ محنت کش، ٹریڈ یونین قیادت کی سمجھوتے بازی کو ایک حد تک ہی برداشت کر سکتے ہیں اور ایک وقت آنے پر قیادت کو نیچے سے امڈنے والی بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن فی الوقت ہونے والے بہترین معاہدے بھی عام طور پر حقیقی اجرت میں 2 یا 3 فیصد کٹوتی کے برابر ہیں۔ زیادہ تر میں حقیقی اجرتوں میں ہونے والی کمی 5-6 فیصد کے قریب ہوتی ہے۔

مزدور کب تک یہ قبول کر سکتے ہیں؟ یہ پہلے ہی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں دوہرے ہندسے کی افراط زر کا دوسرا سال ہے۔ ’ترقی پذیر‘ دنیا میں صورت حال اور بھی خراب ہے۔

واضح طور پر، سرمایہ داروں کی امید افراط زر کو تیزی سے ختم کرنے کی تھی، ممکنہ طور پر یوکرین پر کسی قسم کے معاہدے کی صورت میں۔ لیکن یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ بینکاری نظام پر دباؤ کا مطلب ہے کہ شرح سود میں مزید اضافہ آسانی سے 2008ء کے طرز کا ایک اور بینکاری کا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ اس بار، یقیناً، 15 سال کی کفایت شعاری، حملوں اور عدم استحکام کے بعد، حالات بالکل مختلف ہوں گے–اور اس کے اثرات کہیں زیادہ شدید ہوں گے۔

بلاشبہ، حکمران طبقہ یہ اخراجات مزدور طبقے کے سامنے پیش کرے گا، زیادہ حقیقی معنوں میں تنخواہوں میں کٹوتیوں، بڑے پیمانے پر بے روزگاری، سماجی اخراجات میں کمی، اور ٹیکسوں میں اضافے کی صورت میں۔

اگر کسی بھی طرح سرمایہ دار موجودہ بحران سے نکل بھی گئے تو یہ محنت کش طبقے کے لیے اور بھی زیادہ مصیبتیں پیدا کرے گا، طبقاتی جدوجہد کی مزید لہروں کو بھڑکا دے گا۔ پہلے ہی، پچھلے سال مہنگائی نے سری لنکا میں ایک انقلابی تحریک کو ہوا دی۔ اگلا کون ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہر جگہ اسی طرح کے حالات تیار ہو رہے ہیں۔