ایکواڈور: آئی ایم ایف کے گماشتہ صدر لاسو کے خلاف ملک گیر ہڑتال

13 جون کو ایکواڈور میں کنفیڈریشن آف انڈیجینس نیشنلٹیز (CONAIE) کی جانب سے معاشی حالات میں بہتری کے لیے ملک گیر ہڑتال کا آغاز کیا گیا۔ مطالبات میں پٹرول کی قیمتوں کو منجمد کرنا، بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول اور نجکاری کے منصوبے کی مخالفت شامل ہے۔ یہ مطالبات عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہی میں عائد کردہ پابندیوں کو للکارتے ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

لاسو کی حکومت

24 مئی 2022ء کوگولیرمولاسو نے اقتدار میں اپنا پہلا سال مکمل کیا۔ غیر مستحکم معاشی اور سماجی صورتحال، اور شہریوں کی اکثریت کے عدم تحفظ کا شکار ہونے کے نتیجے میں ایکواڈور کی سیاست بینکر صدر کی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔

لاسو نے سوشل کرسچن پارٹی کے ساتھ اپنا انتخابی اتحاد اور کوریزمو (سابق صدر رافیل کورئیا کے ساتھ منسلک سیاسی رجحان) کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا، جس سے اس کے پارلیمانی سطح پر حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی۔ لاسو نے ڈیموکریٹک لیفٹ کے سینٹرسٹس اور مقامی تحریک پچاکوٹک کے سیاسی ونگ کے ساتھ جس کمزور قانون ساز اتحاد قائم کرنے کو ترجیح دی، وہ ان سیاسی قوتوں کے لیے مہلک ثابت ہوا، اور اس ہتھکنڈے نے اہم اندرونی تقسیموں کو جنم دیا ہے۔ اسمبلی میں بے ترتیب سیاسی کارروائیوں کے نتیجے میں ایگزیکٹیو صرف اپنے ایک بل کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب (انتہائی متنازعہ انداز میں) ہوئی ہے اور اسے متعدد شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کم از کم اجرت میں اضافے کے باوجود، بیروزگاری میں اضافہ اور نئے روزگار کے مواقعوں کا نہ پیدا ہونا اس کے مینڈیٹ کی اہم منفی خصوصیت ہے۔ اس کی مہم کا دوسرا کلیدی محور سیکورٹی ہے، اس میں حکومتی بے عملی جرائم کے بڑھتے اعداد و شمار اور جیلوں کے شدید بحران کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اپنی حکومت اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی ناکامی پر صدر کا واحد ردعمل ان کے سیاسی مخالفین کو مورد الزام ٹھہرانا اور دھمکیاں دینا رہا ہے، بشمول طاقتور سوشل کرسچن دائیں بازو کی پارٹی جو ملک کے دوسرے بڑے شہر گوئیاکوئل پر حکومت کرتی ہے۔

جہاں تک اسمبلی سے باہر دیگر سیاسی اور سماجی گروہوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی بات ہے تو ان کا طرز عمل بھی اسی رجحان پر عمل پیرا ہے۔ بات چیت کے حق میں ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے، سماجی رہنماؤں کو ”سازش“ کے الزام میں پھنسا کر اس نے انہیں جیل اور قید کی دھمکیاں دی ہیں، جیسا کہ مقامی کونائے رہنما لیونیڈاس ایزا کے معاملے میں ہوا۔

یہ انتظامیہ سرمایہ دار اشرافیہ کے ایک مخصوص شعبے کے مفادات کو ان نازک اور مرکزی مسائل سے بالاتر رکھتی ہے جن سے ملک کی اکثریت گزر رہی ہے۔ اقتدار کے ایک سال میں لاسو نے انتظامیہ کے اوزار کے طور پر تنازعات اور تشدد کا سہارا لیا۔ ایک سال میں ہی اس کی سراسر بدانتظامی نے پہلے سے ہی بدنام سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کی مکمل رسوائی کا آغاز کر دیا ہے۔

احتجاج

ملک کی اہم مقامی تنظیم’کونائے‘ نے ٹویٹر پرکہا کہ ”سماجی جدوجہد 13 جون کو ’عظیم نیشنل موبلائزیشن‘ کے لیے دس مطالبات اور تجاویز پر مبنی ہے“۔

انہوں نے ’ملک گیر ہڑتال‘کا اعلان کرنے کے ساتھ مزید کہا کہ”ہم میں سے وہ لوگ جو بحران اور زیادہ قیمتوں کا بوجھ محسوس کرتے ہیں، جو پیداوار کا حصہ ہیں، خاندانی معیشت اور فطرت کا خیال رکھتے ہیں، اس میں شامل ہوں“۔

تحریک میں یہ مطالبات شامل ہیں: ”تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی، کسانوں کے سرکاری بینک کے قرضوں کی منسوخی، اجتماعی حقوق کا احترام، ریاستی اثاثوں کی نجکاری کا خاتمہ، بنیادی مصنوعات کی قیمتوں پر کنٹرول اور استحکام“۔

پانچ مقامی تنظیموں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ احتجاج کو تیز تر بنیادوں پر منظم کیا جائے گا۔ وہ پہلے صوبوں کی سطح پر ہوں گے اور تحریک ایک ’آل آؤٹ‘ کردار کی حامل ہوگی۔ کونائے کے صدر لیونیڈاس ایزا نے وضاحت کی کہ ”ایک سال تک بات چیت کے بعد، جس میں ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی، پیر سے ہم نے نہ صرف تنظیموں کو بلکہ عام شہریوں کو بھی (سڑکوں پر) بلایا۔“

دریں اثنا، وزیر داخلہ پیٹریسیو کیریلو نے احتجاج کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا اور اس مظاہرے کو ”ایک ہفتے کے لیے بند سڑکوں، تیل کے بند کنوؤں، اور پولیس و فوجی اہلکاروں کے اغوا (اور) لوٹ مار“ کے طور پر بیان کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مقامی لوگ ”متاثرین کو اکسانے کے لیے (احتجاج) کو سماجی جدوجہد کا روپ دیں گے“۔ صدر گیلرمو لاسو نے مظاہرین کو ”غنڈہ گرد“ کہا جو افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ ”صدر کی حیثیت سے میری ذمہ داری ایکواڈور کے خاندانوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دینا ہے“۔

حالیہ برسوں میں ہونے والے حملوں کے پیش نظر مقامی لوگوں، نوجوانوں اور محنت کشوں کے درمیان ملک گیر ہڑتال کی بڑی حمایت ہے۔ پہلے دن ہڑتال بہت کامیاب رہی۔ ملک بھر میں، ساحل سے لے کر وسطی پہاڑی سلسلے اور ملک کے مشرق تک، مختلف پرتیں متحرک ہوئیں۔ کوئٹو اور کوینکا میں طلبہ نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور سڑکوں پر احتجاج کیا۔

کونائے (CONAIE) کی سربراہی میں مقامی تنظیمیں اپنے صوبوں میں متحرک ہوئیں، اور سڑکوں کو بند کر کے شہروں تک رسائی بند کر دی۔ کوٹوپیکسی، ازوئے، پاستازا اور سوکومبیوس کے صوبوں میں سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ متحرک ہوئے۔

وزیر داخلہ پیٹریسیو کیریلو نے احتجاج کے پہلے دن کی سہ پہر کو دعویٰ کیا کہ مظاہرین کی جانب سے پرتشدد کارروائیاں کی گئی ہیں، اور خاص طور پر سارگورو میں نیشنل پولیس کے افسران کو چند گھنٹوں کے لیے ”غوا“ بھی کیا گیا تھا۔ ایکواڈور کی نیشنل پولیس کے جنرل کمانڈر، فوسٹو سالیناس نے مظاہرین کی جانب سے ”تشدد یا توڑ پھوڑ“ کی صورت میں ”فورس پروٹوکول کی ترقی پسند ]تعیناتی[“ کی دھمکی دی۔

لہٰذا یہ واضح ہے کہ یہ حکومت جو جرائم، منشیات کی سمگلنگ اور کرائے کے قاتلوں کے سامنے بے بس ہے، مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے دبانے کے لیے پولیس بھیجنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔

لیونیڈاس ایزا کی گرفتاری

منگل، 14 جون 2022ء کی صبح ایکواڈور کی پولیس نے ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع دی کہ انہوں نے کونائے کے صدر لیونیڈاس ایزا کو ”جرائم“ کے شبہ میں گرفتار کر لیا ہے۔ ایزا، جو مظاہروں کے مرکزی رہنما تھے، اکوایک عارضی حراستی کمرے میں ’فلیگرینسی قابلیت کی سماعت‘ کے لیے قید رکھا گیا۔ یہ گرفتاری کونائے کی کال پر لاسو حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک کے دوسرے دن عمل میں آئی۔

کونائے نے اعلان کیا کہ ایزاکی گرفتاری غیر قانونی ہے اور مناسب عمل کی تعمیل میں ناکامی پر اس کی مذمت کی۔ لیونیڈاس ایزا کے وکیل لینن سرزوسا نے لکھا کہ ان کے مؤکل کی گرفتاری غیر قانونی تھی کیونکہ جج کا کوئی حکم فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی پولیس رپورٹ ہے، اور ایک عوامی بیان میں اس نے اطلاع دی کہ ایزا کو کوئٹو میں فلیگرینٹ ڈیلیکٹیو یونٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

لیونیڈاس ایزا کی گرفتاری نے احتجاج کو مظبوط بنانے اور غیر معینہ مدت کی ملک گیر ہڑتال کی قیادت کرنے والے مظاہرین کے جذبوں کو انقلابی بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ”ہم اپنے تنظیمی ڈھانچے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے قائد کی ’آزادی‘ اور اپنی جدوجہد کے وقار کے لیے اقدامات کو حقیقی طور پر انقلابی بنائیں۔“ کونائے نے زور دیا۔