یونان میں کشتی ڈوبنے کا سانحہ: سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت کا ایک اور ثبوت Share Tweetاس وقت دنیا بھر میں خبروں کی سرخیوں کا غلبہ یہ ہے کہ مٹھی بھر دولت مند سیاحوں، جس میں ایک برطانوی ارب پتی بھی شامل ہے، کی بازیابی کے لیے ایک بہت بڑا تلاش اور بچاؤ (سرچ اینڈ ریسکیو) آپریشن جاری ہے، جو ٹائٹینک کشتی کے ملبے کو دیکھنے کے لیے آبدوز کی مہم جوئی کے دوران لاپتہ ہو گئے۔ دوسری طرف، گزشتہ ہفتے بحیرہ روم میں 700 تارکین وطن کے ڈوبنے کی سامنے آنے والی تفصیلات پر بین الاقوامی میڈیا میں دانستہ طور پر مکمل خاموشی برقرار ہے، جو انسانی زندگی کو نظر انداز کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔[Source]انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریںاگرچہ ایسے المناک واقعات بہت عام ہو چکے ہیں لیکن یونان کے ساحلی شہر پائلوس کے قریب بحیرہ روم میں گزشتہ بدھ کو رونما ہونے والے سانحے کی شدت نے لاکھوں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تارکین وطن سے بھری ہوئی ایک کشتی ڈوب گئی، جن کی وجوہات کے متعلق تاحال واضح علم نہیں ہے۔ 81 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن یہ حقیقی ہلاکتوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ اندازوں کے مطابق کشتی میں 800 کے قریب مسافر سوار تھے، اور ابھی تک صرف 104 زندہ افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ بچ جانے والے بہت سے لوگوں کے مطابق، بہت سی خواتین اور 100 سے زائد بچے ڈیک کے نیچے ہولڈ میں تھے۔ ان میں سے کوئی نہیں بچا۔یہ حالیہ برسوں میں بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے ڈوبنے کا سب سے المناک واقعہ ہے، وہ سمندر جسے بجا طور پر روحوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق 2014ء میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے اب تک بحیرہ روم میں کم از کم 27 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2021ء میں 2 ہزار اور 2022ء میں 2 ہزار 400 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ اندازے درحقیقت مرنے والوں اور لاپتہ ہونے والوں کی کم از کم تعداد کا حوالہ دیتے ہیں۔اس سانحے سے متعلق نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی رپورٹیں یونانی کوسٹ گارڈ کی طرف سے پھیلائی جانے والی ’آفیشل‘ رپورٹوں سے بہت مختلف ہیں۔ سمندر میں مصیبت میں پھنسے تارکین وطن کو نظر انداز کرنے، ہراساں کرنے اور ’پیچھے دھکیلنے‘ کی نفرت انگیز اور حکومتی قیادت میں دانستہ پالیسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر سینکڑوں جانوں کے ضیاع کی ایک تصویر ابھرتی ہے۔سرکاری قائم کردہ بیانیہ بے نقابتباہ شدہ کشتی لیبیا کے شہر توبروک سے روانہ ہوئی اور اٹلی آ رہی تھی۔ یونانی کوسٹ گارڈ کے مطابق، انہوں نے پہلی بار اس بحری جہاز کو منگل دوپہر کو دیکھا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مدد کی پیشکش کی جس پر پانی اور خوراک کی فراہمی کی مدد کے علاوہ انہیں منفی جواب ملا۔ اور ایک بار پھر، کوسٹ گارڈ کے دعوے کے مطابق، بحری جہاز ”سمندر میں رہنے کے قابل“ تھا، اور اپنے راستے پر چلتا رہا، کوسٹ گارڈ نے ”احتیاط سے“ اس کی نگرانی کی یہاں تک کہ صبح 2 بجے کے قریب اس نے حرکت کرنا بند کر دی، اور پھر الٹ گیا اور منٹوں میں مکمل طور پر ڈوب گیا۔ اس وقت، کوسٹ گارڈ نے تلاش اور بچاؤ (سرچ اینڈ ریسکیو) آپریشن شروع کیا۔تاہم، ایک سماجی کارکن جس سے کشتی کے مسافروں نے کئی بار رابطہ کیا تھا اور الارم فون گروپ کی طرف سے شائع کردہ معلومات اور گواہی، کوسٹ گارڈ کے بیان سے متضاد ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اس کشتی نے شام 5 بجے سے (یعنی الٹنے سے تقریباً 9 گھنٹے پہلے اور اس کی مزید تصدیق بی بی سی کے تجزیے سے بھی ہوئی) ہی حرکت کرنا بند کر دی تھی اور واضح طور پر پریشانی کا شکار تھی۔ اور تب ہی کپتان کشتی چھوڑ کر چلا گیا اورمسافر مسلسل ”مدد“ کے لیے پکار رہے تھے۔اس کے ساتھ ہی کوسٹ گارڈ نے خود اعتراف کیا ہے کہ اسے فرنٹیکس (یورپی بارڈر اور کوسٹ گارڈ ایجنسی) نے منگل کی صبح 11 بجے بحری جہاز کے بارے میں مطلع کیا تھا (اس سانحہ سے 15 گھنٹے پہلے) لیکن اس نے جہاز کی تصدیق کرنے کی کوشش تین گھنٹے بعد (دوپہر 2 بجے!) کی اورتب اس نے ایک ہیلی کاپٹر (!) بھیجا، جس نے لیسووس جزیرے سے اڑان بھری، جو سانحے کے مقام سے 550 کلومیٹر سے زیادہ دور تھا!یونانی کوسٹ گارڈ کے بیانیے کو زندہ بچ جانے والے افراد نے مزید غلط ثابت کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ کشتی کھینچنے (ٹو کرنے) کی وجہ سے ڈوبی، جس کا کوسٹ گارڈ انکار کرتے ہیں۔یونانی کوسٹ گارڈ نے اس سانحے میں اپنے کردار کو چھپانے کے لیے بے شرمی سے جھوٹ بولا ہے۔ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پہلی بار کوسٹ گارڈ نے جان بوجھ کر اپنی کارروائی میں تاخیر کی (جسے وقت کا ہتھیار بنانا کہا جاتا ہے) اور جب یہ واضح ہو گیا کہ کشتی حرکت نہیں کر سکتی (اور یونانی علاقے میں پھنس گئی) تو انہوں نے پرتشدد طور پر اسے ’پیچھے دھکیلنے‘ کی کوشش کی، جس کا نتیجہ بہت غلط ہوا۔ ایک زندہ بچ جانے والے کے مطابق، یونانی کوسٹ گارڈ نے کشتی پر سوار افراد سے واضح طور پر کہا کہ انہیں واپس اطالوی پانیوں کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔اس سانحے کے ذمہ دار یونانی سرمایہ دارانہ ریاست اور مٹسوٹاکس حکومت کی تارکین وطن مخالف غیر قانونی اور غیر انسانی پالیسی اور خاص طور پر یونانی کوسٹ گارڈ کی ’پیچھے دھکیلنے‘ کی پالیسی ہے، جس کے تحت تارکین وطن کو زبردستی عالمی پانیوں کی طرف دھکیلا جاتا ہے اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔یونانی حکومت نے طویل عرصے سے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کی کوئی ’پیچھے دھکیلنے‘ کی پالیسی ہے، لیکن ابھی پچھلے مہینے سامنے آنے والی فوٹیج نے اسے جواب دینے پر مجبور کیا جس میں دیکھا گیا کہ کوسٹ گارڈ ساحل پر پھنسنے والے تارکین وطن کو زبردستی پکڑ کرانہیں کوسٹ گارڈ کے جہازوں میں ڈالتے ہیں اور پھر انہیں سمندر میں بہت دورچھوڑ دیتے ہیں۔ ایک اور فوٹیج میں یونانی کوسٹ گارڈ کی کشتیوں کو دھکے دینے، غبارہ نما حفاظتی کشتیوں (Inflatable Rafts) کو پنکچر کرنے کی کوشش کرتے، اور یہاں تک کہ تارکین وطن کے آس پاس گولیاں چلاتے بھی دکھایا گیا ہے۔یونانی بورژوازی کی سراسر بے حسی اس سال کے شروع میں 24 تارکین وطن بچاؤ کارکنان کے مقدمے کی سماعت کے ساتھ سامنے آئی۔ ان کارکنان کوانسانی جانیں بچانے پر مجرم بنایا جا رہا ہے، اور ان پر سمگلنگ کے گینگ کا حصہ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے! یہ زندگی بچانے والے کام کو روکنے کی واضح کوشش ہے۔اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ سمگلر لمبے راستوں کو چن رہے ہیں اور خطرناک راستوں کا انتخاب انسانی جانوں کو لاحق خطرات بڑھا رہا ہے۔نسل پرست ’یورپی قلعہ‘بلاشبہ، یونانی سرمایہ دارانہ ریاست کی پالیسی مجموعی طور پر یورپی یونین کی نسل پرستانہ امیگریشن پالیسی کی توسیع ہے۔ یورپی سرمایہ داری، جو امریکی سامراج کے ساتھ مل کر افریقی اور ایشیائی ممالک میں سامراجی قبضے اور فوجی مداخلتوں کی ذمہ دار ہے، اپنی خارجہ پالیسی کے ہی متاثرین سے انتہائی سفاکانہ سلوک کر رہی ہے اور براعظم کو ایک ’قلعہ‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور یورپی یونین – ترکی کے معاہدے کے تحت ایسے شرمناک اقدامات لاگو کر رہی ہے۔مہاجرین کو ان کے آبائی ممالک میں بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آئے روز شدید مہنگائی، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، ان کے سامنے دو ہی آپشن بچتے ہیں؛ ایک طرف بدحالی اور جنگ کی زندگی اور دوسری طرف ایک ایسا سفر جس کی منزل یا تو موت ہے یا ایک دوسرے درجے کے محنت کش کے طور پر شدید ترین استحصال پر مبنی زندگی۔ اسی طرح ان دوسرے درجے کے محنت کشوں کو ان ممالک میں جہاں یہ پناہ لینے جاتے ہیں، کے انتہائی رجعتی عناصر کی جانب سے شدید مشکلات کا شکار کیا جاتا ہے۔ہجرت سرمایہ داروں کے لیے اس نظام کی ایک ناپسندیدہ پیداوار نہیں ہے بلکہ ایک بہت مفید آلہ بھی ہے۔ لیکن حکمران طبقے کو صرف تب تک سستے مزدور چاہئیں جب تک ان کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے سیاسی، سماجی، معاشی اور ماحولیاتی حالات مزید انسانوں کو بے گھر کر رہے ہیں، ’بند سرحدی پالیسیاں‘ اور سرمایہ داری کی انسان دشمنی مزید المیوں کو جنم دے گی۔اس سانحے کے بعد یونان میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے ہزاروں کی تعداد میں 16 جون کو ایتھنز اور تھیسالونیکی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جس میں ”حکومت اور یورپی یونین قاتل“ اور ”یورپ کی قلعہ بندی نا منظور اور مہاجرین کے ساتھ یکجہتی“ کے نعرے بلند کیے۔اس سانحے کے تناظر میں بائیں بازو کے ہر لڑاکا فرد، مزدور تحریک اور نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ مہاجروں اور تارکین وطن کے لیے کھڑے ہوں۔ بائیں بازو، محنت کشوں اور نوجوانوں کی عوامی تنظیموں کی طرف سے ٹھوس، متحد اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:1۔ پیچھے دکھیلنا اور باڑ لگانا نا منظور! فرنٹیکس کو تحلیل کیا جائے! مہاجرین کے لیے یورپی سرحدیں کھولی جائیں۔ ان لوگوں کو سیاسی پناہ دی جائے جو درخواست کرتے ہیں اور اپنی پسند کے یورپی ممالک میں آگے کے سفر کے لیے سفری دستاویزات فراہم کی جائیں!2۔ یونانی حکمران طبقے اور حکومت کے انسان دشمن اور مہاجر دشمن اقدامات نامنظور! نسل پرست نیو ڈیموکریسی اور انسان دشمن دایاں اور انتہائی دایاں بازو نامنظور! حکومت میں موجود یوپی یونین کے جرائم کے معذرت خواہان کو نکالا جائے۔3۔ مہاجرین سے محنت کشوں کی عالمی یکجہتی زندہ باد! وہ حملہ آور نہیں ہیں وہ سامراجی تباہی کا شکار ہیں، یعنی کہ جنگ، تشدد، سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کا شکار ہیں! وہ یونانی محنت کش عوام اور نوجوانوں کے بھائی ہیں، اور سرمایہ دارانہ بربریت کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں ہمارے اتحادی ہیں!4۔ بائیں بازو کی جماعتوں، نوجوانوں کی تنظیموں اور یونینوں کی طرف سے یورپی مزدور تحریک کے ساتھ مل کر، جنگی کارروائیوں کو ختم کرنے اور افریقہ اور ایشیا کے ممالک سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پرفوری اقدامات! تمام یورپی ریاستوں کی سرحدیں پناہ گزینوں کو داخلہ دینے کے لیے کھول دی جائیں! ان کی دیکھ بھال، پناہ، اور سماجی انضمام میں مدد فراہم کی جائے!