سامراجی منافقت اور یوکرائن پر حملہ

بالآخر امکان حقیقت میں بدل چکا ہے۔ روسی افواج نے یوکرائن پر دیو ہیکل حملہ کر دیا ہے۔ علی الصبح ٹی وی پر ایک مختصر خطاب میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک ”خصوصی فوجی آپریشن“ کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے چند منٹوں بعد یوکرائن میں صبح 5 بجے دارلحکومت کیف سمیت بڑے شہروں کے قریب دھماکے سنائی دیئے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پچھلے کئی ہفتوں میں پیوٹن نے اندازاً 1 لاکھ 90 ہزار افواج یوکرائن کی سرحد پر کھڑی کر دیں جبکہ یورپی سیاسی لیڈر کیف اور ماسکو کے درمیان ایک سفارتی حل کی کوششوں میں شٹل کاک بنے رہے۔ لیکن کوئی بھی؛ افواج، ٹینکوں اور بندوقوں کو سفارتی حل کے لئے اتنے دیو ہیکل پیمانے پرمتحرک نہیں کرتا۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہم تک انتہائی محدود اطلاعات پہنچ رہی ہیں اس لئے اس فوجی آپریشن کے حوالے سے وثوق سے کوئی بھی بات کرنا ناممکن ہے۔ لیکن یقینا روسی حملے کا حجم دیو ہیکل ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق:

”یوکرائن کی وزارتِ داخلہ نے رپورٹ دی ہے کہ ملک پر کروز اور بالسٹک میزائل برسائے جا رہے ہیں اور روس کیف، خارکیف، ماریوپول اور نیپرو جیسے بڑے شہروں کے قریب انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے۔

ویڈیوز کے مطابق ماریوپول کے نزدیک جب توپوں کی گولہ باری شروع ہوئی تو اندھیری رات میں آسمان بالکل روشن دکھنے لگا۔ یوکرائن کی وزارتِ داخلہ کے ایک سینیئر مشیر نے کہا ہے کہ لگتا ہے روسی افواج جلد سرحد سے 32 کلومیٹر فاصلے پر موجود خارکیف شہر پر چڑھائی کردیں گی۔ شہر کے باہر دھماکوں کی گونج میں کیف کے شہریوں نے بم شیلٹروں میں پناہ لی۔‘‘

ایک اور رپورٹ میں لکھا تھا:

”پیوٹن کی جانب سے آپریشن کے اعلان کے بعد پہلے دھماکے روسی کنٹرول میں موجود علاقوں کے قریب یوکرائن کے جنوب مشرق میں یوکرائن فوج کے ہیڈکوارٹر کراماتورسک کے قریب سنے گئے۔ فوجی ہیڈکوارٹرز اور فوجی گوداموں میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔“

سمندر کے راستے ماریوپول شہر کی اہم بندرگاہ پر حملے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں جبکہ بری افواج بیلاروس، کریمیا اور روس سے پیش قدمی کر رہی ہیں۔ روسی افواج کا دعویٰ ہے کہ ان کا نشانہ عوام یا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں عوام موجود ہے۔ ریاستی نیوز ایجنسی ریا نووستی کے ذریعے جاری کردہ روسی وزارتِ دفاع کے ایک بیان کے مطابق ”تیر بہدف ہتھیار (high precision weapons) فوجی انفراسٹرکچر، ائر ڈیفنس سہولیات، عسکری ائر فیلڈز اور یوکرائن افواج کی فضائی صلاحیتوں کو ناکارہ کر رہے ہیں“۔

پیوٹن کی تقریر

مشرقی یوکرائن کے روسی کنٹرول میں دو علاقوں کے قائدین نے ماسکو کو فوجی امداد کے لئے ایک سرکاری درخواست بھیجی کہ ”یوکرائن افواج کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے مدد کی جائے تاکہ دونباس میں شہریوں کی اموات اور ایک انسانی تباہی و بربادی سے بچا جا سکے“۔ اس کے بعد بدھ کی رات کو حملے کے لئے تمام راہیں ہموار کر لی گئیں۔

اس دن صبح کے وقت پیوٹن نے جو تقریر کی اس سے ہمیں اس کے اہداف اور عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہر جنگ کا کوئی نہ کوئی جواز ہوتا ہے اور اس حوالے سے پیوٹن نے کہا کہ ”ہماری تاریخی زمینوں پر ایک روس مخالف جارح بنایا جا رہا ہے“۔

مغرب میں اس دعوے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ ایک پراپیگنڈہ ہے۔ ”یہ بیچارے معصوم یوکرائنی کیسے روس کے لئے خطرہ ہیں؟“ سمجھا یہی جاتا ہے کہ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ اپنے آپ میں واقعی یوکرائن کوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ امریکی قیادت میں ایک سامراجی عسکری بلاک کا حصہ بن جاتا ہے جو روس کے دروازے پر بیٹھا ہوا ہے، پھر وہ واقعی ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔

اس لئے تمام باتیں ایک طرف، موجودہ جھگڑے کی بنیاد مستقبل میں یوکرائن کی NATO ممبرشپ ہے۔ اس ممبرشپ کے خلاف گارنٹی، روس کا کلیدی مطالبہ تھا جسے واشنگٹن مسلسل ٹھکراتا رہا ہے۔۔ایک ایسا انکار جو انتہائی فضول ہے کیونکہ خود مغرب اعتراف کر رہا ہے کہ اس وقت NATO ممبرشپ کے لئے جو بنیادی شرائط موجود ہیں ان پر یوکرائن پورا نہیں اترتا۔ اب واضح تو نہیں ہے کہ اگر یہ مطالبہ مان لیا جاتا تو کیا فوج کشی نہ ہوتی۔ لیکن اس مطالبے کو مسلسل ٹھکرانے کا ناگزیر نتیجہ یہی نکلنا تھا۔

کسی بھی جنگ میں دوسرا عنصر شب خون مارنا اور اس کا الزام فریق پر ڈالنا ہے۔ اس معاملے میں یہ عنصر دونباس علاقے پر مسلسل گولہ باری تھی۔ لیکن یہ کام تو پچھلے کئی سالوں سے ہو رہا تھا۔

اس وقت فوری بہانا درحقیقت ایک ثانوی عنصر ہے کیونکہ ایک مرتبہ جب جنگ ناگزیر ہو جائے تو بہانہ کوئی بھی تراشا جا سکتا ہے۔ اور جہاں تک شب خون مارنے کا تعلق ہے تو اس کام میں بہترین کامیابی رہی ہے جس میں بائیڈن اور جانسن نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا رویہ اس بچے جیسا تھا جو مسلسل”شیر آیا، شیر آیا“ چلاتا رہا لیکن بالآخر جب شیر آ ہی گیا تو کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔

پیوٹن کی تقریر اعلانِ جنگ تھی لیکن اس نے خاص طور پر اس کا ذکر نہ کرنے کی احتیاط کی۔ یہ شخص ایک سپاٹ مورتی جیسا ہے جو ہر شخص کو کنفیوژن میں پھنسائے رکھتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ”ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم ایک خصوصی عسکری آپریشن کریں گے“ لیکن اس بات کی بھنک ہی نہیں پڑنے دی کہ وہ کتنا خصوصی ہو گا۔

اس ”خصوصی فوجی آپریشن“ کا ہدف کیا ہو گا؟ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا مقصد یوکرائن کو ”غیر مسلح اور نازی ازم سے پاک کرنا ہے“۔ اس کا کہنا ہے کہ ”ہمارا مقصد یوکرائن پر قبضہ نہیں ہے“ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے دیگر اقوام کو خبردار کیا ہے جو اس مسئلے میں الجھنے کا سوچ رہی ہوں۔ ”جو بھی اس مسئلے میں الجھنے کی سوچ رہا ہے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو تمہیں تاریخی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ تمام ضروری فیصلے کئے جا چکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم سن رہے ہو“۔

میرا خیال ہے کہ کافی واضح پیغام ہے یہ۔

کیا یوکرائن مقابلہ کر سکتا ہے؟

کیف حکومت کا فوری ردِ عمل جارحانہ الفاظ تھے۔ یوکرائن کے وزیرِ خارجہ دمیتریو کولیبا نے کہا کہ ”پیوٹن نے ابھی یوکرائن پر بھرپور فوج کشی کی ہے۔ پرامن یوکرائنی شہروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک جارحانہ جنگ ہے۔ یوکرائن اپنا دفاع کرے گا اور فاتح ہو گا۔ دنیا پیوٹن کو روک سکتی ہے اور اسے ہر صورت روکنا ہے۔ یہ وقت عمل کا ہے“۔

صدر ولودی میر زیلینسکی نے پیوٹن سے براہِ راست بات کرنے میں ناکامی کے بعد ایک ویڈیو تقریر کے ذریعے روسی عوام سے مدد کی اپیل کی۔ ”کیا روسی جنگ چاہتے ہیں؟ مجھے اس سوال کا جواب چاہیئے۔ لیکن جواب آپ نے دینا ہے“۔ اس نے ملک کے دفاع کے لئے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر کوئی ہماری زمین، ہماری آزادی، ہماری زندگیاں، ہمارے بچوں کی زندگیاں ہم سے چھیننے کی کوشش کرے گا تو ہم اپنا دفاع کریں گے۔ حملہ کر کے تم ہمارے چہرے دیکھو گے، ہماری پشت نہیں، ہمارے چہرے“۔

اس نے اعلان کیا کہ پورے یوکرائن میں مارشل لاء لگایا جا رہا ہے۔ ”گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم مضبوط ہیں۔ ہم کسی بھی صورتحال کے لئے تیار ہیں۔ ہم سب کو شکست دیں گے کیونکہ ہم یوکرائن ہیں“۔ روس کے حملے سے پہلے اس نے جنگ ٹالنے کی آخری کوشش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ روس ”یورپ میں ایک بڑی جنگ“ شروع کر سکتا ہے اور روسی عوام سے اپیل کی کہ اس کی مخالفت کریں۔

جرات مند الفاظ! لیکن یہ سب بھڑک بازی ہے۔ شب خون حملے نے تباہ حال یوکرائن افواج کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ ویسے بھی روسی فوج کا مقابلہ کرنے کی اس میں کوئی سکت نہیں ہے۔ جس لمحے مغرب نے اعلان کیا کہ وہ یوکرائن افواج نہیں بھیجیں گے اسی وقت جنگ کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

دارالحکومت میں خوف و ہراس کی عدم موجودگی کا دعویٰ ٹی وی پر شہر سے بھاگنے والوں کی گاڑیوں کی لمبی قطاروں نے جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔

اس ساری صورتحال کے آغاز سے ہی کیف حکومت بے یارومددگار تھی۔ یوکرائن کی جانب سے NATO میں شمولیت کی مسلسل ڈھٹائی میں، جو ماسکو کو مشتعل کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، یوکرائن نے اپنے آپ کو مغرب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ انتہائی فاش غلطی تھی۔

عوام کے سامنے تمام بھڑک بازی سے قطع نظر سامراجیوں کو یوکرائنی عوام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ گریٹ گیم کی سفاک چالبازیوں میں ان کی اوقات قابلِ قربانی مہروں سے زیادہ نہیں ہے۔

روسی افواج نے دعویٰ کیا تھا کہ روسی جارحیت کے آغاز کے ساتھ شدید میزائل بمباری نے یوکرائن کا تمام فضائی انفراسٹرکچر ناکارہ کر دیا ہے۔ خارکیف اور مشرق میں موجود دیگر شہروں، یہاں تک کہ مغرب میں پولینڈ کی سرحد کے پاس ایوانو۔فرانکیوسک تک کے ائر پورٹس کے پاس سے دھوئیں کے غبار اٹھ رہے ہیں۔

جمعرات کے حملے سے پہلے یوکرائن کی وزارتوں اور بینکوں پر دیوہیکل اور مسلسل سائبرحملہ منظم کیا گیا جو کنفیوژن پھیلانے کے لئے ایک طرح کی ہائبرڈ جنگ ہے۔

کچھ اطلاعات کے مطابق روسی افواج یوکرائن میں داخل ہو چکی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یوکرائن کی بارڈر فورسز ”روسی دستوں کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں کر رہیں“۔

فیس بک کی ایک حالیہ پوسٹ میں کیف میں موجود ایک تجزیہ کار دمیتری کووالیوچ نے یوکرائن افواج کی لاچارگی کے حوالے سے بات کی ہے۔

”یوکرائن ویب پر کچھ غیر مصدقہ پیغامات کے مطابق مغرب کی طرف سے حال ہی میں فراہم کردہ جنگی سازوسامان کا 70 فیصد گوداموں میں ہی برباد ہو گیا ہے۔ ہماری فوج چیخ و پکار کر رہی ہے کہ ان گوداموں کی نگرانی وہ افسران کر رہے تھے جو دراصل روسی ایجنٹ تھے اور انہوں نے گوداموں کو بارود سے اڑا دیا۔

اپ ڈیٹ: تمام ترک بیراکتار ڈرون رن ویز پر ہی تباہ کر دیئے گئے ہیں۔۔دونیتسک باغیوں نے ماریوپول شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ یوکرائن فوج نے وہاں کوئی مزاحمت نہیں کی۔ وہ آرام سے شہر میں داخل ہو گئے۔

اوڈیسہ میں یوکرائن کے فوجی اڈوں پر جو میزائل برسائے گئے تھے انہیں آب دوزوں سے لانچ کیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق سومی کے علاقے (یوکرائن کا شمال مشرق) میں بارڈر چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اوڈیسہ میں روسی میرین فوجی آ چکے ہیں۔ کیف میں موجود اینٹی ائر کرافٹ اڈے پر بالسٹک میزائل برسائے گئے۔ ایک گھنٹے میں یوکرائن اپنے تقریباً تمام اینٹی ائر کرافٹ سسٹم سے محروم ہو چکا ہے۔

دونباس کی پوری سرحد سے راکٹ لانچروں سے بے پناہ بمباری کی جا رہی ہے۔ خارکوف کے علاقے میں روسی فوج سرحد پار کر چکی ہے۔

یوکرائن کے مختلف علاقوں سے لوگ بڑے دھماکوں کی اطلاعات دے رہے ہیں۔ یہ دھماکے اوڈیسہ، کیف، کراماتورسک، ماریوپول، خارکوف اور نیپرو شہر میں ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بڑے ٹائم بم تھے جنہیں پورے ملک میں اکٹھے پھاڑا گیا۔

یوکرائن کی فضائی حدود سے امریکی انٹیلی جنس ڈرون واپس جا چکے ہیں۔

اپ ڈیٹ: یوکرائن کے ہتھیار ڈیپو میں دھماکے ہو رہے ہیں۔

یوکرائن کی فضائی حدود مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ کیف کی طرف آنے والے کچھ جہازوں کو واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے“۔

جنگی کنفیوژن اور قلیل خبروں کی موجودگی میں ان اطلاعات کے حوالے سے رویہ محتاط ہونا چاہیئے۔ لیکن اگر ان میں سے آدھی اطلاعات بھی سچی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روسیوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ یوکرائن کی دفاعی صلاحیت کو حملے سے پہلے ہی مکمل طور پر تباہ یا کم از کم شدید معذور کر دیا جائے۔

اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ یوکرائن کی فوج میں کم از کم ایک حصے میں مورال اور لڑنے کی خواہش میں کمی ہے جو مغربی پروپیگنڈہ کے برعکس ہے۔ اس وقت روس کی شدید خواہش یہی ہو گی کہ جلد از جلد دارالحکومت پہنچ کر قبضہ کر لیا جائے۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ پیوٹن اپنی افواج کو کیف پر قبضہ یا اس کا محاصرہ کرنے کے لئے بھیجے گا۔ امریکی سینیٹر مارک روبیو سینٹ کی انٹیلی سیلیکٹ کمیٹی کا ممبر ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ”روسی ائربارن فورسز کیف ائر پورٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ شہر پر قبضہ کرنے کے لئے فوجیں اتاری جا سکیں“۔

جمعرات کی شام کو روسی ریاستی میڈیا میں خبریں تھیں کہ ائربارن افواج نے کیف کے قریب بوریسپل کے ائرپورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ اطلاعات درست ہیں یا غلط، کچھ ہی وقت میں یوکرائنی دارالحکومت روسی قبضے میں ہو گا۔ پھر ہر زاویے سے جنگ ختم ہو جائے گی۔

”حیرت اور وحشت“

مغربی قائدین اس حملے کی مذمت کرنے میں ایک دوسرے پر ہر ممکن سبقت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ واقعہ قیامت سے کم نہیں ہے، کروڑوں لوگوں کی اموات ہوں گی اور پورے یورپ میں ایک ایسی خونی جنگ شروع ہو جائے گی جس سے انسانی تہذیب کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

جو بائیڈن نے ایک لکھا ہوا بیان جاری کیا کہ:

”آج رات روسی افواج کے بلااشتعال اوربلاجوازحملے کی زد میں یوکرائنی عوام کے ساتھ پوری دنیا دعا گو ہے۔۔صدر پیوٹن نے پہلے سے فیصلہ کردہ ایک جنگ مسلط کر دی ہے جو زندگی کے تباہ کن ضیاع اور انسانی الام و مصائب کا باعث ہو گی۔ اس جنگ کے نتائج، موت اور تباہی کا اکیلا ذمہ دار روس ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی اور ساتھی ایک متحد اور فیصلہ کن ردِ عمل دیں گے۔ پوری دنیا روس کو جوابدہ کرے گی۔۔میں یوکرائن میں جاری ہولناک حالات سے خوفزدہ ہوں اور میں نے اگلے اقدامات کے لئے صدر زیلینسکی سے بات کی ہے۔ صدر پیوٹن نے یوکرائن پر یہ بلاجواز حملہ کر کے کشت و خون اور تباہی کا راستہ چنا ہے“۔

یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا ون در لیئن نے لکھا کہ ”ہم کریملن کو جوابدہ کریں گے“۔ یورپی کمیشن نے حملے سے چند گھنٹے پہلے ماسکو پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ الفاظ بڑے جارحانہ اورمفصل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائیڈن اور اس کی قبیل کا کیف کو کسی قسم کی کوئی عسکری امداد دینے کا کبھی ارادہ ہی نہیں تھا۔ موجودہ بحران میں انہوں نے جارحانہ بکواس کر کے اپنا حصہ ڈالا جس میں روسی حملے کے نتیجے میں ”شدید“ نتائج (لیکن کبھی کوئی تفصیل نہیں دی گئی) کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ان باتوں کے ساتھ روسی مطالبات کی طرف انتہائی نخوت بھرے رویے نے جنگ کو ناگزیر کر دیا۔

قصہ مختصر، یہ خواتین و حضرات یوکرائنی عوام کے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کو تیار تھے۔

اس سے بھی زیادہ غلاظت کا اظہار لندن سے ہو رہا تھا۔ اگر شعلہ بیانی جنگیں جیت سکتی ہوتیں تو برطانوی پارلیمنٹ میں بیوقوفانہ بکواس کے سامنے روسی افواج کے اوسان خطا ہو جاتے۔ بورس جانسن نے غراتے ہوئے کہا کہ ”برطانیہ اور ہمارے اتحادی فیصلہ کن ردِ عمل دیں گے“۔ اس تماشے کا مقصد اپنی پارٹی کو خوش کرنا تھا جو اس پر کریملن کے سامنے کمزوری کے مسلسل الزامات لگا رہی تھی۔

بدقسمتی سے تاریخ گواہ ہے کہ لفاظی سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ پیوٹن اس سرکس نما پارلیمنٹ کے تماشے دیکھ دیکھ کر ہنستا ہو گا۔۔اگر اس نے اس پر کوئی توجہ دی ہو جو بظاہر لگتا نہیں۔

اور ہمارے لیبر پارٹی کے قائد سر کیئر سٹارمر نے کیا کہا؟ اس رائٹ ونگ بلیئرائٹ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ لیبر پارٹی کو کم سے کم وقت میں ٹوری پارٹی جیسا بنا دیا جائے۔ اس کا خواب ہے کہ پارٹی سرخ پرچم کے بجائے یونین جیک (برطانوی پرچم) اور سٹارز اور سٹرائپس (امریکی پرچم) لہرائے۔

اس لئے یہ حیران کن نہیں تھا کہ اس نے ہر ممکن یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ بورس جانسن سے زیادہ روس کا سب سے بڑا دشمن اور NATO کا سب سے بڑا حامی ہے۔

چھاج تو بولے سو بولے، چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید

یہ تمام الفاظ انتہائی غلیظ اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ یہ مذمت کہاں تھی جب امریکہ اور اس کے ”اتحادی“ (اسے بوٹ پالشیے پڑھا جائے) عراق پر ایک مجرمانہ خونی جنگ مسلط کر رہے تھے؟ ”دیوہیکل تباہی کے ہتھیار“ کے حوالے سے ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کا کیا بنا جسے جھوٹی دستاویزات کے ذریعے ”ثابت“ کیا گیا تھا اور ایک آزاد ریاست کے خلاف ننگی جارحیت کی بنیاد بنایا گیا تھا؟

وہ غلیظ کام۔۔اور اس کے ساتھ افغانستان پر مجرمانہ حملہ اور شام کا سامراجی بلادکار۔۔کم از کم 10 لاکھ عام عوام کا قتلِ عام بنا۔ لیکن پھر ہم حقائق سے پردہ اٹھا کر دلفریب کہانیوں کا مزہ کیوں خراب کریں؟

پوری دنیا کے سامنے ٹی وی پر اپنے مہنگے سوٹوں اور چمکتے دانتوں والی ہنسی کے ساتھ مغربی قائدین منطق اور انسانیت کی علامت ہونے کا غلیظ ڈھونگ رچاتے ہیں۔ پوری دنیا میں امریکی سامراج اور اس کے بوٹ پالشیوں سے زیادہ کوئی رجعتی اور خون آشام قوت موجود نہیں۔

اقوامِ ”متحدہ“

ہمیشہ کی طرح جب بھی جنگ شروع ہوتی ہے ایک عجیب و غریب آواز ہماری سماعتوں سے ٹکرانی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک گھبرائی ہوئی بکری جیسی ہوتی ہے لیکن درحقیقت وہ عقل اور انسانیت کی آواز ہوتی ہے۔ کم از کم ہمیں تو یہی بتایا جاتا ہے۔

میرا اشارہ امن پسندوں کا ممیانا ہے۔۔وہ اچھے، خوش اخلاق انسان جو ہمیں درس دیتے ہیں کہ امن اچھا ہے اور جنگ بری ہے۔ لیکن عقل و فراست اور اخلاقیات کا درس دینے سے دنیا کی آج تک کوئی جنگ نہیں روکی جا سکی۔ اس کے برعکس عقل و فراست ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تاریخ میں تمام سنجیدہ معاملات ہمیشہ ہتھیاروں کا استعمال کر کے ہی حل ہوئے ہیں۔

امن پسندوں کا سب سے اہم اور حیران کن خاصہ اپنے آپ کو مسلسل دھوکہ دینا ہے۔ وہ ایک قائد کی کسی بھی اور ہر اس تقریر، کسی حکومت یا ادارے کی اس کھوکھلی اور فضول قرارداد سے چمٹ جاتے ہیں جن میں امن کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات میں بچگانہ یقین امن پسندوں کو جنگجوؤں کے لئے کار آمد خام مال بنا دیتا ہے کیونکہ یہ عوام کو سیکورٹی کے مغالطے میں مبتلا کر دینے کے کام آتے ہیں۔

ایسی تقریریں اور قراردادیں حقیقی اور جارحانہ عزائم کی پردہ پوشی کرتی ہیں۔ ان سب میں سب سے بڑا فراڈ اقوامِ متحدہ ہے۔ یہ ادارہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا گیا تھا جس کا مقصد مستقبل میں جنگوں کو روکنا تھا۔

جب بھی جنگ کا خطرہ ہوتا ہے امن پسند اور لیفٹ اصلاح پسند اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیلیں کرتے ہیں۔ یہ ایک بیوقوفانہ سراب اور عوام کو دھوکہ دینا ہے۔

یہاں اس فضول اور ناکارہ ادارے کی ناکامیوں کی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ اقوام متحدہ نے آج تک کوئی جنگ نہیں روکی اور درحقیقت کوریا جنگ کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک سے ذائد جنگ میں براہِ راست شامل رہا ہے۔

1945-1989ء کے دوران عالمی سطح پر تقریباً 300 جنگیں ہو ئیں۔ دوسری عالمی جنگ سے اب تک خود امریکہ 30 بڑے فوجی آپریشن کر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ان جنگوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

اور آج بھی یہی داستان جاری ہے۔ جس وقت پیوٹن کے الفاظ ٹی وی پر چل رہے تھے اس وقت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل ایک ہنگامی اجلاس کر رہی تھی جس کی صدارت خود روس کر رہا تھا کیونکہ اس وقت صدارت اس کے پاس ہے۔

اس اجلاس کا آغاز اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریز کی براہِ راست اپیل سے ہوا۔ ”صدر پیوٹن۔۔یوکرائن پر فوج کشی نہ کریں۔ امن کو ایک موقع دیں۔ پہلے ہی بہت لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں“۔

لیکن ابھی اس کے الفاظ پورے ادا بھی نہیں ہوئے تھے کہ پہلے دھماکوں کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ امن پسندی اور اقوام متحدہ کی قبر پر بائبل کی یہ تحریر صادق آتی ہے کہ ”امن، امن کی دہائی دینا جب کوئی امن نہ ہو“ (یرمیاہ 6:14)۔

لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سرمایہ داری لامتناہی ہولناکی ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے خمیر میں جنگ اور شاونسٹ رجعتی قوم پرستی ہے جو منڈیوں اور حلقہ اثر کے لئے عالمی مسابقت بازی کا حصہ ہیں۔ کتنے کروڑوں محنت کشوں اور غرباء کو میدان جنگ بھیج کر ”قوم“ کے نام پر ذبح کیا جا چکا ہے جو سرمایہ دارطبقے کے مفادات کا دوسرا نام ہے؟

جب تک سرمایہ داری رہے گی جنگ رہے گی اور ”اقوامِ متحدہ“ کی بات کرنا اسی طرح بیکار ہے جس طرح ایک متحد قوم کی بات کرنا بیکار ہے۔ صرف ایک ہی اتحاد ممکن ہے اور وہ ہے عالمی طبقاتی اتحاد۔

یہ مارکس وادیوں اور سوشلسٹوں کافرض ہے کہ وہ اس جھوٹ کو بے نقاب کریں کہ محنت کشوں اور غرباء اور حکمران طبقے کے مفادات ایک ہیں۔ جنگ کے خلاف صرف اس نظام کے خلاف جدوجہد کر کے ہی لڑا جا سکتا ہے جو جنگوں کی حقیقی بنیاد ہے۔

اب کیا ہو گا؟

اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، سب کو معلوم ہے کہ روس قلیل مدت میں اپنے اہداف حاصل کر لے گا۔ یوکرائنی عوام کے حقیقی موڈ کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ بہرحال یہ مشرقی علاقوں میں مختلف ہو گا جہاں روسی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور مغربی علاقوں میں مختلف ہو گا جو ہمیشہ قوم پرستی کی طرف مائل رہے ہیں۔

لیکن اس وقت موڈ پریشانی، مایوسی اور سب سے بڑھ کر جنگ مخالف ہو گا اور امن اور کسی قسم کے استحکام کی شدید خواہش موجود ہو گی۔ اس بنیاد پر پیوٹن کیف میں ایک روس نواز حکومت کھڑی کر سکتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ پوروشینکو جیسا بندہ زیلینسکی کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں اس نے بڑی تندوتیز تقریریں کی ہیں جن میں پیوٹن پر مذمت کی گئی ہے۔ لیکن یہ تو ہونا ہی تھا اور پسِ پردہ مذاکرات ہو رہے ہوں گے جن کے نتائج سب کو حیران کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ابھی میرا اندازہ ہے۔

ظاہر ہے یوکرائن کی NATO ممبرشپ کا معاملہ تو ایجنڈے پر نہیں رہے گا۔ نازی ازم کی صفائی کے بینر کے نیچے رائٹ ونگ اور انتہاء پسند قوم پرست تنظیموں کا صفایا کر دیا جائے گا۔

یہ صاف ظاہر ہے کہ روسی افواج اپنے حقیقی اور ممکنہ دشمنوں کا صفایا لازمی کریں گی اور ان میں فاشسٹ اور انتہاء پسند مسلح قوم پرست ملیشیاء بھی شامل ہیں۔

جب پیوٹن یہ کہتا ہے کہ اس کا یوکرائن پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو ہمیں اس پر زیادہ شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ درست یہ ہے کہ وہ زیادہ عرصہ قبضہ نہیں کرے گا۔ یہ بہت مشکل اور بہت مہنگا ثابت ہو گا۔

وہ اپنی بات منوا کر پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس نے دنیا اور یوکرائن کو یہ دکھانا ہے کہ کسی کو روس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں ہے، مشرق کی جانب NATO کا پھیلاؤ ہر صورت رُکے گا، یوکرائن اور جارجیا اس میں کبھی شامل نہیں ہوں گے اور NATO کو کبھی بھی روسی سرحدوں کے قریب بڑی افواج رکھنے یا جنگی مشقیں کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

وہ مسلسل ایک بات کر رہا ہے کہ وہ مذاکرت کے لئے تیار ہے اور یہ بھی حقیقت ہے۔ لیکن اب کی بار وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں مذاکرت کرے گا۔ وہ میڈئم رینج جوہری میزائلوں کا مشرقی یورپ سے انخلاء اور میڈئم رینج نیوکلیئر فورسز (INF) معاہدے کی بحالی کا مطالبہ کرے گا جسے ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔

انخلاء سے پہلے نئی صورتحال کو دنیا کے سامنے مزید واضح کرنے کے لئے وہ یوکرائن کے کچھ علاقے قبضے میں لے سکتا ہے جن میں نئی عوامی جمہوریہ کو مزید بڑھا کر پورا دونیتسک اور لوہانسک قبضے میں لیا جا سکتا ہے۔

یہ ایک دفاعی حکمت عملی ہو گی تاکہ روسی جنوبی سرحد پر ایک بفر بنایا جائے۔ اس سے یوکرائن کا بانجھ پن مزید واضح ہو جائے گا اور روسی سیکورٹی کو لاحق خطرات کی فہرست میں سے اس کا ہمیشہ کے لئے انخلاء ہو جائے گا۔۔جارجیا میں بھی پیوٹن نے یہی کیا تھا۔

اس وقت جارجیا پر میں نے جو لکھا تھا اسے دوبارہ پڑھ کر میں نے سوچا کہ قارئین کے ساتھ کچھ سطور شیئر کروں کیونکہ آج کی صورتحال میں ان کی افادیت اور بھی بڑھ چکی ہے۔

”ہاں ہم جارجیا کی عوام کے حقِ خود ارادیت کی مکمل لیکن مشروط حمایت کرتے ہیں۔ ہم ان کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ دیگر اقلیتی اقوام جیسے اوسیتی اور ابخازیان پر جبر کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ابخازیان اور اوسیتی کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرتے ہیں؟ ہاں یقینا۔ لیکن یہ کس قسم کا حقِ خودارادیت ہے جو ماسکو سے سبسڈیوں کا مرہونِ منت ہے اور اپنے آپ کو جارجی عوام پر جبر اور ان پر تسلط قائم کرنے کی روسی کوشش میں استعمال ہونے کی اجازت دیتا ہے؟ کس طرح یہ صورتحال سوشلزم اور محنت کش عوام کی جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہے؟ کسی صورت میں نہیں! اس قسم کا ”حقِ خودارادیت“ ایک فراڈ اور ایک جھوٹ ہے۔ یہ ایک جھوٹ ہے جس سے ایک بڑی قوت یعنی روس کے گھناؤنے عزائم اور لالچ کی پردہ داری کی جا رہی ہے جو کاکیشیا میں اپنی پرانی ملکیت بحال کرنا چاہتا ہے۔ ان لوگوں کو روس میں ضم کر کے روس وہی ”حقِ خودارادیت“ دے گا جو چیچن کے پاس ہے، یعنی کچھ بھی نہیں جیسے کوئی حقیقی حق شمالی اوسیتیا، داغستان یا روس کے کسی علاقے میں نہیں ہے۔۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی سوال کا کوئی حقیقی حل نہیں ہو سکتا چاہے وہ کاکیشیا، بلقان یا مشرقِ وسطیٰ ہو۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی سوال کو ”حل“ کرنے کی کوشش سے نئی جنگیں، دہشت گردی، ”نسل کشی“ اور مہاجرین کی نئی لہریں جنم لیں گی جو تشدد اور جبر کا ایک مسلسل بڑھتا گرداب ہی بنا رہے گا۔ تمام مہاجرین کی واپسی کے حق کا سوال کبھی بھی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ قلیل وسائل، نوکریوں، رہائش، صحت کی سہولیات، تعلیم اور دیگر سروسز کے لئے بڑھتی مسابقت ہے۔ اگر سب کے لئے نوکریاں اور رہائش موجود نہیں ہیں تو اس سے ناگزیر طور پر قومی یا مذہبی تناؤ بڑھے گا۔ آدھی اصلاحات سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بنیادی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ آپ کینسر کا اعلاج ڈسپرین سے نہیں کر سکتے!“

اگر ہم جارجیا کی جگہ یوکرائن لکھ دیں اور اوسیتی اور ابخازیان کی جگہ دونیتسک اور لوہانسک کے روسی بولنے والی عوام کر دیں تو یہ سب صادق ہو گا۔ اس میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پیر کے دن امریکہ یقینی طور پر روس کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کرے گا جس میں روسی بینکوں اور اس کے وسیع فنانشل سسٹم کو نشانہ بنایا جائے گا۔

مغربی پابندیوں سے روسی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ پیوٹن ایسے اقدامات کر چکا ہے جس سے روس کا مغرب کے اوپر انحصار بہت حد تک ختم ہو چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ حملے کے فوری بعد روسی روبل کی قدر میں سال 2016ء کے بعد ایک نئے ریکارڈ تک کمی واقع ہوئی ہے اور روسی اسٹاک مارکیٹ میں تجارت بند کر دی گئی تھی۔ لیکن یہ اثرات عارضی ہیں۔ دوسری طرف اگر پابندیوں کے نتیجے میں روس نے یورپ کی گیس سپلائی کاٹ دی تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے اور اشیاء خوردونوش اور پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیئے؟

موجودہ صورتحال میں اس وقت مالکان کی رکھیل میڈیا میں بے پناہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد یوکرائنی عوام کی خیر سگالی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ان کے مفادات کو سفاکی سے سامراجی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔

یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم ایک ثابت قدم طبقاتی پوزیشن رکھیں اور اپنے آپ کو جھوٹی سامراجی پروپیگنڈہ مشین میں پراگندہ نہ ہونے دیں۔

کیا ہم ولادیمیر پیوٹن اور روسی حکمرانوں کے مفادات کی حمایت کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ پیوٹن روس، یوکرائن یا پورے کرہ ارض پر کسی محنت کش طبقے کا خیر خواہ نہیں ہے۔ یوکرائن پر حملہ اس کے اپنے سفاک اور رجعتی ایجنڈے کا تسلسل ہے۔

لیکن اس وقت ہمارے سامنے یہ سوال نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے سامنے ہم کسی شکل و صورت میں اپنے آپ کو امریکی اور برطانوی سامراجی کیمپ کا حصہ دکھائی دینا پسند کریں گے؟ کیا ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ NATO جیسے رجعتی سامراجی بدمعاشوں کے ساتھ کھڑے ہونا پسند کریں گے؟ یا بورس جانسن اور جنگ پسند لز ٹرس یا بلیئرائٹ غدار سٹارمر؟

پیوٹن کا حل نکالنا روسی محنت کش طبقے کا فرض ہے۔ ہماری جدوجہد سامراج، NATO، اپنی غلیظ رجعتی ٹوری حکومت اور نام نہاد لیبر پارٹی قیادت کے خلاف ہے جو اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ لینن ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ ”حقیقی دشمن گھر پر ہے“۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں۔

لندن۔ 24 فروری، 2022ء