ایران: مزدوروں کی ہڑتالوں سے لرزتی ریاست

ایران کے طول و عرض میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ دسمبر کے آغاز سے اب تک 240 ہڑتالیں اور احتجاج ہو چکے ہیں۔ احتجاج سماج کی ہر پرت میں پھیل رہے ہیں جن میں طلبہ، بازاری (تاجر)، ریٹائرڈ حضرات، بے روزگار اور ہر شعبے کے مزدور شامل ہیں۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

تیل کی صنعت کے 2500 مزدور مسلسل احتجاج اور وقتاً فوقتاً ہڑتالیں کر رہے ہیں، کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والی نرسیں احتجاج کر رہی ہیں، ہفت تاپے فیکٹری کے مزدور نجکاری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور پورے ایران میں غیر ادا شدہ اجرتوں اور سوشل انشورنس کے مسائل پر احتجاج اور ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ ایک طرف ہڑتالوں اور احتجاجوں کی یہ لہر بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف معاشی صورتحال مسلسل برباد ہو رہی ہے۔ ایران میں ایک بڑی طبقاتی لڑائی اب ایک ایسا ٹائم بم بن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

امریکی پابندیوں اور دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بدانتظامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجودہ معاشی بحران نے ایرانی معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ 2018ء سے ایرانی کل مجموعی پیداوار (GDP) 12 فیصد گر چکی ہے اور 2021ء میں مزید 5 فیصد گراوٹ کی پیشین گوئی کی جارہی ہے۔ ریاست کے پاس ایرانی سرمایہ داری کو قائم رکھنے کے لئے پیسے چھاپنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ سرکاری طور پر افراطِ زر 30 فیصد بتایا جارہا ہے لیکن درحقیقت یہ 100 فیصد تک پہنچ چکاہے۔ ابھی سے سرمایہ داروں کو دیا جانے والا سبسڈیوں اور بیل آؤٹ کا پروگرام اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے جس کا نتیجہ مسلسل جبری بے روزگاریوں اور بڑھتے دیوالیوں کی شکل میں نکل رہا ہے۔

اس ساری صورتحال میں عوام کے لئے زندگی ایک عذابِ مسلسل بن چکی ہے۔ سرکاری طور پر بے روزگاری کی شرح 35 فیصد ہے۔ زیادہ تر مزدوروں کی نوکریاں عارضی ہیں، جبری بے روزگاری کی تلوار مسلسل سر پر لٹک رہی ہے اور نتیجتاً خراسان سے خوزیستان تک ہر جگہ بے روزگار مزدور اور کنٹریکٹ ملازمین مسلسل احتجاجوں کے ذریعے مستقل کنٹریکٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوشل سیکورٹی، جس میں پنشن، بے روزگاری الاؤنس اور سبسڈیاں شامل ہیں، بے قابو ہوتے افراطِ زر کے تابڑ توڑ حملوں اور ریاست کی خوفناک کرپشن میں بے معنی ہو چکی ہیں۔

سال 2020ء میں پینشنرز کے بکھرے ہوئے احتجاج ہوئے لیکن دسمبر سے اب تک ملکی سطح پر 10 احتجاج ہو چکے ہیں۔ 10 جنوری کو تہران، کاراج، مشہد، اہواز، تبریز اور کئی شہروں میں احتجاج منظم کئے گئے۔ اہواز میں احتجاجیوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ”پینشنرز بھوکے ہیں“ لکھا ہوا تھا۔ تہران میں ورکرز آف تہران اور سب اربز بس کمپنی کے سنڈیکیٹ چیئرمین داؤد رازاوی نے ایک تقریر کی جس میں اس نے کہا کہ ”پچھلے 40 سالوں میں نہ صرف اس پارلیمنٹ بلکہ ہر پارلیمنٹ نے مزدوروں، پینشنرز اور غرباء کے لئے کچھ نہیں کیا اور مسلسل ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں“۔ ان احتجاجوں میں مناسب پنشن، پنشن فنڈ کے لیے ریاستی قرضوں کی ادائیگی کے مطالبات کے ساتھ مزدور تحریک کے دیگر مطالبات جیسے نجکاری پر پابندی اور مناسب اجرت شامل تھے۔

اگر عوام کو روزگار مل بھی جائے تو بھی ان کا گزارا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف ریٹائریز اور پینشنرز کے مطابق ایک مزدور کی عمومی اجرت گھریلو اخراجات کا صرف 40 فیصد بنتے ہیں۔ کئی مہینوں تنخواہ کے بغیر گزارہ کرنا معمول بن چکا ہے! بے تحاشہ بے روزگاری مزدوروں کو انتہائی خوفناک کنٹریکٹ پر کام کرنے پر مجبور رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ مزدور ادھار پر روٹی خرید رہے ہیں۔ اومیدیہ سے ایک ہڑتالی میونسپل مزدور نے بتایا کہ:

”پچھلے 5،6 ماہ میں مجھے ایک مرتبہ ہی تنخواہ ملی ہے جبکہ میری سوشل انشورنس کی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی۔ آخر ہمارا گناہ کیا ہے کہ ہم کام کریں اور اس کے عوض صرف ایک کلو مرغی اور چاول کا ایک چھوٹا سا تھیلا خرید سکیں؟ جلد ہی یلدا (موسمِ سرما کا تہوار) شروع ہونے والا ہے، میرے پاس مہمان آئیں گے لیکن میں انہیں کیسے کھلاؤں گا جبکہ میں اپنے خاندان کی روٹی ہی پوری نہیں کر پا رہا؟ اگر میرا بچہ بیمار ہو جاتا ہے تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں تنگ آ چکا ہوں!“

یہ کروڑوں ایرانیوں کی زندگی ہے۔ ریاست خود مان چکی ہے کہ 75 فیصد آبادی غریب ہے اور 35 سے 50 فیصد عوام شدید غربت کا شکار ہیں۔ اگرچہ ریاست مسائل کا اعتراف کرتی ہے لیکن وہ انہیں حل کرنے میں مکمل طور پر بانجھ ہے۔

کورونا وباء: اختتام نظر نہیں آتا

یہ سب کچھ بے قابو ہوچکی کورونا وباء کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ ایران تیسری لہر سے گزر چکا ہے۔ 13 لاکھ سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ اب تک 59 ہزار 572 اموات ہو چکی ہیں۔ یہ صرف سرکاری اعدادوشمار ہیں اور اموات کی شرح اس سے چار گنا زیادہ ہو سکتی ہے! اگرچہ مرحلہ وار لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ میں کچھ کمی آئی ہے لیکن صحت کا نظام مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔

ہسپتالوں کے فنڈ میں پہلے ہی کٹوتیاں کی جا رہی تھیں اور صدر روحانی کی نجکاری کی پالیسی نے صورتحال اور بھی گھمبیر کر دی۔ اس وقت نرسوں کی دائمی قلت کا سامنا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ 50 ہزار نرسوں کی اشد ضرورت ہے۔ شدید قلت کا سارا بوجھ موجودہ نرسوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایک تہائی نرسوں کو 89 روز کے کنٹریکٹ پر نوکری دی جاتی ہے جس میں کوئی اوور ٹائم نہیں اور اکثر کئی مہینوں تک تنخواہ ہی نہیں دی جاتی اور نہ ہی حفاظتی سامان دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کئی اموات ہو چکی ہیں۔ اصفہان میں نجی شعبے میں پارٹ ٹائم کام کرنے والی ایک نرس نے بتایا کہ:

”ہماری تنخواہیں تو لیبر کوڈ کے مطابق ہی نہیں۔ پچھلے مہینے ہمیں 17 لاکھ تومن (تقریباً 400 ڈالر) تنخواہ دی گئی۔ کہیں پر روزگار موجود نہیں جس کی وجہ سے ہمیں یہ کنٹریکٹ جبری طور پر قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم سے اس کنٹریکٹ میں دو سے تین نوکریوں کا کام لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہم ان سے زیادہ کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں ایک تہائی کم اجرت دی جا رہی ہے“۔

وباء کے آغاز سے اکثر نرسیں مسلسل کام کر رہی ہیں اور ایک طویل شفٹ سے دوسری طویل شفٹ کے درمیان اپنی تنخواہوں اور حفاظتی سامان وغیرہ کے لئے احتجاج کر رہی ہیں۔ ریاست نے مزدوروں کو خریدنے کی کوشش میں پبلک سیکٹر کی نرسوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن احتجاج مسلسل جاری ہیں۔ صرف پچھلے دو ہفتوں میں تہران، مشہد، اہواز، شیراز، تبریز اور دیگر شہروں میں 20 سے زیادہ احتجاج ہو چکے ہیں۔

ایران کے ماہرِ وبائیات فروری میں وباء کی چوتھی لہر کی پیشین گوئی کر رہے ہیں جس کا مطلب شعبہ صحت پر تباہ کن دباؤ ہو گا اور پابندیوں میں شدت بھی آئے گی۔ مرحلہ وار لاک ڈاؤن نے وباء کے پھیلاؤ میں کمی تو کی لیکن عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ دسمبر میں دو ہفتوں کیلئے لگائے گئے انتہائی سخت گیر لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں کو معمولی یا بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا گیا۔ بازار ی (تاجر) اور ریڑھی والوں کو کسی بھی حکومتی امداد کے بغیر کام بند کرنا پڑا اور اب وہ بھی غربت میں مزدوروں کے ساتھی بن رہے ہیں۔ تہران کے گرینڈ بازار میں ایک ریڑھی والے نے بتایا کہ ”اگر میں چند دن یا دو ہفتے کام نہ کروں تو میں اپنے خاندان کو نہیں پال سکتا۔ میں کورونا وباء کے خطرات سے واقف ہوں لیکن میرے پاس گلیوں میں جا کر اپنا سامان بیچنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں“۔ شیراز کے وکیل بازار میں 70 سے 80 ہنر مندوں نے اپنی دکانیں ہمیشہ کے لئے بند کر دی ہیں۔ ریاست نے انتہائی سفاکی سے تاجروں کو پابندیاں توڑنے کی سزا دی اور کچھ مواقعوں پر ریڑھیاں اور سامان بھی تباہ کر دیا۔

مزدور کنٹرول کی جنگ

ہفت تاپے کے شوگر مل کے مزدوروں کی جدوجہد جاری ہے جو اس وقت سب سے زیادہ ریڈیکل ہڑتال ہے۔ ریاست کا ایک دھڑا ان کے ریڈیکل مطالبات سے شدید خوفزدہ ہے جن میں پلانٹ کو قومیا کر مزدوروں کے کنٹرول میں دینا، ان کی ٹریڈ یونین کی منظوری، موجودہ مالک اومید اسدبیگی کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری، انشورنش کی بحالی اور غیر ادا شدہ اجرتوں کی ادائیگی شامل ہیں۔ اس وجہ سے اس دھڑے نے مزدوروں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے قومی انسپیکشن ایجنسی کے ذریعے اسدبیگی کے پلانٹ کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ لیکن اس قدم سے ریاست کے دھڑوں میں آپسی لڑائی شروع ہو گئی اور حکومت نے قومی تحویل میں لینے کا عمل نجکاری تنظیم کے ذریعے بلاک کر دیا۔

نومبر میں اسدبیگی (ریاست کے ایک دھڑے کی حمایت کے ساتھ) نے ہفت تاپے یونین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ سرگرم یونین کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور انہیں نوکری سے نکال دیا گیا اور سیکورٹی فورسز کو پلانٹ پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ یہ پلان اس وقت مکمل طور پر ناکام ہو گیا جب یونین کی یکجہتی اپیل پر 40 لیبر تنظیموں نے حمایت کا اعلان کر دیا۔ ہفت تاپے یونین نے کہا کہ ”نجی شعبے نے ہفت تاپے اور خوزیستان کے ایک حصے کو میدانِ جنگ بنا دیا ہے“ لیکن اس سے مزدوروں کے حوصلے اور زیادہ بڑھ گئے۔ ریاست کے ایک دھڑے اور اسدبیگی کے درمیان واضح ساز باز سے شرمندہ ہو کر ریاست کو مجبوراً 23 دسمبر سے کیس کا عدالت میں ٹرائل کرانا پڑا۔ اس دن ہفت تاپے نے عدالتوں کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے نہ صرف قومیانے کے مطالبے کو دہرایا بلکہ ساتھ ہی دیگر مطالبات بھی پیش کئے:

1۔ تمام غیر ادا شدہ اجرتوں اور سہولیات کی ادائیگی۔

2۔ برخاست کیے گئے تمام مزدوروں کی واپسی (جن میں گنے پر کام نہ کرنے والے مزدور شامل ہیں) اور گرفتاری یا برخاستگی کے دوران والی تنخواہ اور سہولیات کی ادائیگی۔3۔ حکومت آزاد لیبر تنظیموں اور خاص طور پر ہفت تاپے مزدور یونین کو تسلیم کرے۔

4۔ احتجاج، ہڑتال، ریلی وغیرہ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

5۔ کام پر صحت اور حفاظتی اقدامات کی مانیٹرنگ، حادثات کا سدِ باب، کام کے اوقات کی مانیٹرنگ وغیرہ کے شعبوں میں مزدوروں کے آزاد منتخب نمائندوں کی منظوری۔

6۔ پچھلی انتظامیہ پر ذمہ داری ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ کمپنی منیجرز کی مزدور منظوری دیں گے۔ تمام چوریوں اور گھپلوں کے سدِ باب کے لئے ضروری ہے کہ:

(الف) مزدور پیداوار، روزگار، مشینری اور خام مال، گوداموں اور کمپنی کی ملکیت میں زمین کو سپروائز کریں تاکہ کسی قسم کی سیل روکی جا سکے۔ مزدوروں کو جبری روزگار ختم کرنے کا سدِ باب اور ہفت تاپے کمپنی کے مالی مسائل حل کرنے کا حق دیا جائے جسے کرپشن اور گھپلوں نے برباد کر دیا ہے۔

(ب) مزدوروں کے نمائندوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کمپنی کی بیلنس شیٹ، منافعوں اور نقصانات اور کیش اکاؤنٹس یا کمپنی مالیات میں تبدیلی کے حوالے سے تمام دستاویزات تک رسائی حاصل کریں۔

مزدوروں نے اپنے مطالبات کو واضح طبقاتی بنیادوں پر پیش کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”کیا تم روحانی، جہانگیری، اسدبیگی یعنی سرمائے کے سامنے گھٹنے ٹیک دو گے؟ کیا تم عوام اورہفت تاپے کے ہزاروں مزدوروں کے مسائل کو مدِ نظر رکھو گے؟“ اس کے بعد کھلم کھلا چتاؤنی دی گئی کہ ”منسوخی میں کسی قسم کا تعطل (اسدبیگی کا کنٹریکٹ اور کمپنی کو دوبارہ قومیانے کا عمل) خاموشی سے برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ تاریخ اسے یاد رکھے گی اور ہفت تاپے کے مزدور پھر ایک زبردست احتجاج کریں گے“۔

پہلے ہی 22 دسمبر کو ہفت تاپے کے مزدوروں نے تہران میں وزارتِ انصاف کے باہر ریلی کی کال دے دی۔ اس ریلی کی طلبہ اور ٹریڈ یونینز نے پرجوش حمایت کی اور مزدور کنٹرول کا مطالبہ بھی کیا۔ بدقسمتی سے ریلی کو بسیج (اسلامک ریپبلک کے قدامت پسند دھڑے سے منسلک پیراملٹری فورس) نے ہائی جیک کر لیا جنہوں نے ”روٹی، آزادی اور کونسلز (مزدور کنٹرول)“ کے ریڈیکل نعروں کا اپنے نعروں سے جواب دیا۔

ہفت تاپے یونین نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ ”بسیج محنت کش طبقے کے خلاف ہر ریاستی قدم میں برابر کی شریک ہے“ اور یونین کی جدوجہد صرف قومیانے کے مطالبے تک ہی محدود نہیں۔ ”(ہم نے) اور مطالبات بھی کئے ہیں جو نہ صرف حکومت کے خلاف ہیں بلکہ پوری سرمایہ داری اور ریاست کے تمام دھڑوں کے خلاف ہیں“۔ ہفت تاپے کے مزدوروں کا ٹیلی گرام ایپ پر آزاد چینل ہے جس میں انہوں نے زیادہ وضاحت کی کہ ”ہم یہاں کہنا چاہتے ہیں کہ دونوں (اسلامک ریپبلک کے دھڑے) ہمارے طبقاتی دشمن ہیں جن کا تعلق ایرانی سرمایہ داری سے ہے“۔ ”اصول پسند“ دھڑا (قدامت پرست) مذہبی اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی ڈھانچے سے منسلک ہے اور اپنے آپ کو پبلک سیکٹر کا محافظ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ درحقیقت یہ اس کا اپنا مفاد ہے کیونکہ وہ پبلک سیکٹر کو اپنی نجی ملکیت سمجھتے ہیں اور ان پر شدید کرپشن اور اقربا پروری مسلط کرتے ہیں۔

نجی ہو یا عوامی، دونوں صورتوں میں غلیظ سرمایہ دار طبقہ اقتدار پر قابض ہے۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی مزدوروں کی قیمت پر چوری اور استحصال کے ذریعے اپنی جیب بھرنا۔ ہفت تاپے مزدور نجکاری اور کرپشن کے خلاف لڑائی میں تنہا نہیں ہیں۔ مثلاً ٹرانس ورس (ایران کی سب سے بڑی ریلوے تعمیرات اور دیکھ بھال کی کمپنی) کے 7 ہزار ملازمین نومبر میں ہڑتال پر چلے گئے جس کے نتیجے میں کمپنی دوبارہ قومی تحویل میں لے لی گئی۔ لیکن تہران، ہرموزگان، لورستان اور دیگر جگہوں پر ان کے مزدوروں کو ستمبر سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں جس وجہ سے ایک نئی ہڑتال کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ہفت تاپے کے مزدوروں کا مزدور کنٹرول کا مطالبہ نجکاری اور کرپشن کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھانے کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

انقلاب کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں

ریاست کے کھوکھلے وعدوں کے باوجودہڑتالوں اور احتجاجوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام اور قومی یکجہتی کے نام پر اب وہ ماضی کی طرح مزید حکمرانی نہیں کر سکتے اور نہ ہی تشدد اور کھوکھلے نعروں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پھیلتی ہوئی مزدور تحریک کو کچلنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ معاشی بحران اور طبقاتی لڑائی کا بڑھتا دباؤ سماج کی بالائی پرتوں میں دراڑوں، تضادات اور لڑائیوں کو جنم دے رہا ہے۔

معاشی فرنٹ پر موجودہ حکومت کا بجٹ تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ بجٹ کی ایک تہائی فنڈنگ پیسہ چھاپ کر، نجکاری اور قومی ترقیاتی فنڈ سے قرضہ لے کر حاصل کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روحانی حکومت نے نجکاری کے ذریعے آمدن میں دس گنا اضافے کی کوشش کی جس سے روحانی حکومت اور اصول پرستوں کے درمیان خلیج اور زیادہ بڑھ چکی ہے۔ دونوں دھڑے شعلہ بیانیوں میں مزدوروں کے مطالبات، کرپشن سکینڈلوں اور نجکاری کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس سے مکمل ڈیڈ لاک ہو چکا ہے۔

محنت کش طبقہ صرف اپنے اوپر اور اپنی تنظیموں پر اعتماد کر سکتا ہے۔ ایران کی ابھرتی مزدور تحریک درحقیقت ایک ملک گیر تحریک کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس وقت صرف مزدوروں کی جاری علیحدہ تحریک کی حمایت کر دینا ہی کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ پورا ایرانی محنت کش طبقہ سرمایہ داروں اور ریاست کے خلاف ایک متحد طبقاتی جنگ لڑے۔ مزدور تنظیموں کو ایسی جنگ کی تیاری کے لئے مضبوط بنیادیں تعمیر کرنا ہوں گی جس کے لئے ایک مشترکہ سیاسی اور معاشی مطالبات پر مبنی پروگرام درکار ہے۔ ”روٹی، آزدی اور کونسلز“، ہڑتال اور احتجاج کا حق، پچھلے عرصے میں لاگو تمام جبری کٹوتیوں کا خاتمہ، افراطِ زر کے تناسب میں مناسب تنخواہیں اور پنشن، تمام بڑی کمپنیوں اور بینکوں کے کھاتوں کو عوام کے لئے شائع کرنااور جس پر کرپشن ثابت ہو چکی ہے اس کی قید اور اس کی دولت اور ملکیت کی قومی تحویل میں منتقلی۔ دیگر مطالبات میں ان تمام کمپنیوں جن کی نجکاری کی گئی ہے کو قومیا کر انہیں مزدوروں کے کنٹرول میں دینا اور تمام تر معیشت جو اس وقت ریاستی کنٹرول میں ہے، کو مزدوروں کے کنٹرول میں دینا بھی شامل ہونا چاہئیے۔ کورونا وباء کے موجودہ بحران کے پیشِ نظر شعبہ صحت کو مکمل طور پر قومیایا جائے اور دیگر منسلک صنعتوں سمیت مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔

موجودہ صورتحال مستقبل میں دھماکہ خیز بغاوت کا پیش خیمہ ہے اور ایسا پروگرام پورے ایرانی سماج میں آگ کی طرح پھیل جائے گا۔ انقلاب طلوع ہو رہا ہے۔ پچھلے عرصے کی تمام تحریکیں اس لئے ناکام ہوئیں کیونکہ ان میں محنت کش طبقے کی منظم قوت شامل نہیں تھی۔ لیکن محنت کش طبقے کی قیادت میں اور ایک انقلابی پروگرام کی بنیاد پر مزدوروں، متوسط طبقے، طلبہ اور کسانوں کی تمام جدوجہدوں کوحکمران طبقے اورملا اشرافیہ کے خاتمے کے حتمی مقصد کی لڑی میں پرو کر منظم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسی تحریک کا جنم ہوتا ہے تو یہ تیزی کے ساتھ اس غلیظ سرمایہ دارانہ ریاست کو پاش پاش کر دے گی اور ایرانی تاریخ کا نیا دور شروع ہو جائے گا۔