امریکہ: ٹرمپ کی گرفتاری اور گہرا ہوتا ریاستی بحران

امریکی سرمایہ دارانہ سیاست میں مسلسل بڑھتے انتشار کا نیا اظہار امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سابق صدر پر فوجداری مقدمہ ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

امریکہ کی نظر آتش سیاست میں مزید تیل کا چھڑکاؤ لگ گیا ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سابق صدر پر فوجداری مقدمہ بنا ہے۔ ٹرمپ اس وقت 2024ء انتخابات میں بطور ریپبلیکن پارٹی امیدوار نامزدگی کے لئے سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس کیفیت میں ریاست کا بڑھتا بحران ملک کو ”تاریخی“ اور ”ان جانے“ حالات میں دھکیل رہا ہے۔

کئی ہفتوں کی چہ مگوئیوں اور نیو یارک کی سڑکوں پر بڑھتی سیکورٹی کے بعد 30 مارچ کو ایک مین ہیٹن (نیو یارک شہر کے پانچ انتظامی حلقوں میں سے ایک جہاں اقوام متحدہ کا دفتر اور وال سٹریٹ واقع ہیں: مترجم) گرینڈ جیوری (16-23 عام شہریوں کا ایک گروہ جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا استغاثہ کے پاس کوئی مقدمہ بنانے کے لئے معقول شواہد موجود ہیں یا نہیں اور کیا فرد جرم عائد ہو گی یا نہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو اس ذمہ داری کے بعد گرینڈ جیوری ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مترجم) نے ٹرمپ پر فرد جرم عائد کر دی اور اسے 4 اپریل کو جوابدہی کے لئے طلب کر لیا۔ توقعات کے مطابق ٹرمپ نے تمام 34 الزامات کو مسترد کر دیا۔ اگر اس پر کوئی الزام درست ثابت ہوتا ہے تو اسے تین سال تک قید ہو سکتی ہے اگرچہ دورانیہ عدالت کی صوابدید ہے اور جیل ہو گی یا نہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اگر اس پر کوئی جرم ثابت ہو بھی جاتا ہے تو وہ انتخابات میں حصہ لے کر صدر بن سکتا ہے۔۔۔اگرچہ اگر وہ جیل میں ہوا تو معاملات کچھ پیچیدہ ہو سکتے ہیں!

”تاریخی“ واقعات کی ایک طویل فہرست میں۔۔۔کورونا وباء اور یوکرین جنگ، برنی سینڈرز انتخابی مہم اور ٹرمپ کی فتح، بلیک لائیوز میٹر تحریک اور 2020ء کا انتخابی انتشار اور پھر 6 جنوری کو امریکی کانگریس پر حملہ۔۔۔یہ واقعہ اس دہائی میں امریکی بورژوا سیاست میں بڑھتے انتشار میں ایک اور باب کا اضافہ ہے۔

ٹرمپ پر الزامات

استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ نے ووٹروں سے نقصان دہ معلومات چھپا کر مسلسل دھوکہ دہی کے ذریعے انتخابات کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کی۔ ان الزامات کی بنیاد 2016ء انتخابات سے پہلے خاموشی اختیار کرنے کے لئے فحش فلمی اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز، پلے بوائے ماڈل کیرن میکڈوگل اور ٹرمپ ٹاور کے دربان کو کی گئی ادائیگیاں ہیں۔ ہر الزام ٹرمپ تنظیم کے کاروباری ریکارڈز میں ایک مخصوص اندراج سے متعلق ہے۔

ٹرمپ کے سابق وکیل اور فکسر (کسی بھی درپیش مسئلے کو حل کرنے والا: مترجم) مائیکل کوہن نے ڈینیئلز کے وکیل کو 1 لاکھ 30 ہزار ڈالر اپنی جیب سے ادا کئے تاکہ وہ 2006ء میں ٹرمپ کے ساتھ ایک مختصر معاشقے پر خاموش رہے۔ بعد میں ٹرمپ تنظیم نے کوہن کو 12 مہینوں پر محیط 4 لاکھ 20 ہزار ڈالرز کی ادائیگی کی جسے ”قانونی فیس“ کی مد میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے 6 چیکس پر خود ٹرمپ کے دستخط موجود ہیں۔ میکڈوگل کو ٹرمپ کی طرف سے امریکن میڈیا کمپنی نے 1 لاکھ 50 ہزار کی ادائیگی کی جبکہ دربان کو، جس نے ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ اس کا ایک غیرقانونی بچہ ہے، اسی کمپنی نے 30 ہزار ڈالر دیئے۔

یہ تمام ادائیگیاں درحقیقت کمپین عطیات تھے جن کا مقصد ایک فیڈرل انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونا تھا۔ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے جان بوجھ کر کمپنی دستاویز تبدیل کئے، ایک ریاستی جرم، تاکہ ایک اور جرم، غیر ریکارڈ شدہ صدارتی کمپین عطیات، کی پردہ پوشی کی جائے جس کے بعد یہ جرائم میں تبدیل ہو گئے۔ کیا ان الزامات کو مین ہیٹن ڈسٹرکٹ وکیل الوین بریگ ثابت کر سکے گا جبکہ فیڈرل سطح پر اس کا کوئی اختیار نہیں، اس کا فیصلہ کورٹ میں ہو گا۔

اس جرم میں ملوث مائیکل کوہن نے 2018ء میں ٹیکس چوری، فراڈ اور کمپین فنانس قوانین کی خلاف ورزی کے فیڈرل الزامات میں اقرار جرم کرنے کے بعد 13.5 مہینے ایک فیڈرل جیل میں گزارے۔ اپنے دفاع کے دوران کوہن نے تمام الزام ٹرمپ پر ڈال دیا اور ہو سکتا ہے کہ وہ سزا یافتہ جھوٹا (عدالت میں حلف کے باوجود جھوٹی گواہی دینا: مترجم) ہونے کے باوجود استغاثہ کا کلیدی گواہ ہو۔

ایک منصب دار صدر پر فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی اور اس لئے فیڈرل حکومت نے دورانِ صدارت ٹرمپ پر کیس کو بند کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت مین ہیٹن ڈسٹرکٹ وکیل سائے وینس نے کمپنی ریکارڈز کی تبدیلی پر ایک ریاستی تفتیش کھول دی تھی جو بعد میں نو منتخب ڈسٹرکٹ وکیل اور ڈیموکریٹ ایلون بریگ کے حصے میں آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بریگ کو اس معاملے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیکن لبرل حلقوں سے بڑھتے دباؤ کے بعد اس نے گرینڈ جیوری منعقد کرا کر فرد جرم عائد کروا دی۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سابق امریکی صدر پر فرد جرم عائد

مین ہیٹن میں نیو یارک عدالت پہنچنے کے بعد ٹرمپ کو رسمی طور پر گرفتار کیا گیا اور فرد جرم عائد ہونے سے پہلے اس کی انگلیوں کے نشانات لئے گئے۔۔۔ایک ایسے شخص کے لئے انتہائی توہین آمیز ہے جس پر ہر وقت یہ بھوت سوار رہتا ہے کہ وہ کبھی بھی ”ہارا“ نہیں ہے۔۔۔اگرچہ اس کے نکتہ نظر سے یہ سب سیاسی طور پر فائدہ مند تھا۔ نیو یارک میں اگلی شخصی پیشی کی تاریخ 4 دسمبر ہے۔ اگر ٹرمپ کے وکلاء اس سے پہلے کیس ختم نہیں کرواتے تو پھر ٹرمپ کے مقدمے کی سماعت ہو سکتی ہے اور یہ عمل 2024ء انتخابات کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے۔

عدالت سے نکلنے کے فوری بعد ٹرمپ کی قانونی ٹیم کے سربراہ جو ٹاکوپینا نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ ”میرے لئے یہ بہت بڑا صدمہ ہے کہ ایک ریاستی وکیل اس طرح کا بھونڈا مقدمہ چلانے کی کوشش کرے اور فیڈرل انتخابی قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ بنانے کی کوشش کرے جبکہ وہ ریاستی وکیل ہیں۔ اس سے ہماری روز اول سے پوزیشن سچ ثابت ہوتی ہے کہ یہ ایک سیاسی ظلم و ستم ہے، ایک سیاسی مقدمہ ہے اور انصاف کے نظام کو مسلح کرنا ہے جس سے سچ پوچھو تو مجھے کراہت ہوتی ہے“۔

ایک پرانی کہاوت ہے کہ ایک گرینڈ جیوری ایک سینڈوچ پر بھی فرد جرم عائد کر دے گی۔ فرد جرم عائد کرنے کے لئے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ لیکن سزایابی کے لئے متفقہ فیصلہ درکار ہے اور جیورر (جیوری کا ممبر۔۔۔یہاں عدالت میں مقدمہ سننے اور فیصلہ کرنے والی جیوری کے بارہ ممبران کی بات ہو رہی ہے: مترجم) کو بغیر کسی شک قائل کرنا ہو گا کہ ایک جرم سرزد ہوا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف کیس آسان نہیں ہے لیکن اگر نیو یارک اسٹیبلشمنٹ کو یقین نہ ہوتا کہ اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو وہ کبھی بھی اتنے ہائی پروفائل کیس میں فرد جرم عائد کروانے کا خطرہ نہ لیتی۔

اگر ٹرمپ اس مقدمے میں باعزت بری ہو جاتا ہے تو اس کی اپنے حامیوں میں ساکھ مزید مستحکم ہو گی۔ لیکن اگر وہ سزایاب ہو جاتا ہے تو وہ لاکھوں کروڑوں افراد کا شہید بن جائے گا اور سیاسی ظلم اور ایک دھاندلی زدہ نظام کے حوالے سے اس کی پیش گوئی درست ثابت ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے روایتی طریقہ کار سے اس نے فرد جرم عائد ہونے کی پہلی خبر پر مظلومیت کا پتہ کھیلتے ہوئے لبرل اسٹیبلشمنٹ پر شدید حملہ کیا:

”تاریخ میں آج تک اس بلند سطح پر سیاسی ظلم و ستم اور انتخابات میں مداخلت نہیں ہوئی۔۔۔مجھے یقین ہے کہ یہ تخریب کاری جو بائیڈن کے لئے تباہ کن ہو گی۔ امریکی عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ریڈیکل لیفٹ ڈیموکریٹس کیا کر رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے۔ اس لئے ہماری تحریک اور پارٹی، متحد اور مضبوط، سب سے پہلے الوین بریگ کو شکست دے گی اور پھر ہم جو بائیڈن کو شکست دیں گے اور پھر ہم ہر مجرم ڈیموکریٹ کو (حکومت سے: مترجم) بے دخل کریں گے تاکہ ہم امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں!“

اس سارے گھڑمس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے نیش ول میں عوام پر گولیوں کی بوچھاڑ اور اموات کے بعد اسلحہ کنٹرول پر ایک مرتبہ پھر بننے والے بحث مباحثے پر ٹکر کارلسن نے تبصرہ کیا کہ ”اپنی AR-15 (سیمی آٹومیٹک رائفل: مترجم) واپس کرنے کا شائد یہ اچھا وقت نہیں ہے“۔

فرد جرم عائد ہونے کے بعد مارآلاگو (پام بیچ، فلوریڈا میں ایک تاریخی مقام جو اس وقت ٹرمپ کی ملکیت میں ایک تفریحی مقام ہے: مترجم) واپس آ کر ٹرمپ نے ”امریکہ“ کا نعرہ لگاتے ہوئے حامیوں کے ایک چھوٹے ہجوم سے بات کی۔ ”میراایک ہی جرم ہے کہ میں نے بیباکی سے اپنی قوم کو تباہ کرنے والے عناصر کا مقابلہ کیا ہے“۔ 2020ء کے ”چوری کئے“ انتخابات اور جو بائیڈن کا ذکر کرنے کے بعد اس نے کہا کہ ”ہمارا ملک جہنم بن رہا ہے“۔

کیس کی شنوائی کرنے والے جج جوان میرکان نے ٹرمپ کو چپ رہنے کا حکم جاری نہیں کیا ہے لیکن اس نے گزارش کی ہے کہ وہ اور استغاثہ دونوں ذاتی حملوں سے اجتناب کریں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ”مہربانی کریں کہ کوئی ایسا تبصرہ یا رویہ نہ ہو جس کے نتیجے میں کوئی تشدد ہو، عوامی بے چینی کا امکان ہو یا کسی بھی فرد کی حفاظت یا خیریت خطرے کا شکار ہو جائے“۔ لیکن ٹرمپ اپنی سرشت کے مطابق فرد جرم عائد ہونے کے بعد فوراً حملہ آور ہو گیا ہے اور جج میرکان اور سرکاری وکیل بریگ پر ذاتی حملے کر رہا ہے۔

ٹرمپ کا سارا ماضی اپنے خلاف ہر قسم کی تفتیش کو برباد کرنے میں گزرا ہے۔ اس پر کبھی فوجداری فرد جرم عائد نہیں ہوئی اور اس نے اپنی صدارت کے دوران دو مواخذے بھی بھگتائے ہیں۔ 21 مارچ کو پریشانی کے عالم میں ٹویٹ کے ذریعے اس نے اپنی ممکنہ گرفتاری کا اعلان کر دیا اور جب ایسا نہیں ہوا تو لگتا ہے اسے یقین ہو گیا کہ فرد جرم عائد نہیں ہو گی بلکہ اس نے ”سنہری ہتھکڑیوں“ کا مذاق بھی کیا۔

ساری عمر کامیابی کے ساتھ ہر نتیجے سے صاف بچ نکلنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں عوامی تعلقات، سوشل میڈیا اور قانون سب ایک ہیں۔ لیکن آل کاپون، جان گوٹی اور ایل چاپو (تینوں مافیا ڈان تھے: مترجم) سب کو بالآخر سیکھنا پڑا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہیں اور سب سے خوش قسمت انسانوں کی بھی ایک محدود زندگی ہوتی ہے۔

ٹرمپ کی بدقسمتی یہ ہے کہ نیو یارک میں عائد فرد جرم اس کے لئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ ذرائع کے مطابق جارجیا انتخابات میں مداخلت پر فرد جرم مئی کے اوائل میں عائد ہو گی۔ پھر کانگریس پر جنوری 6 بلوے کے حوالے سے اس کے کردار اور مارآلاگو میں خفیہ دستاویز رکھنے کے حوالے سے ممکنہ فیڈرل جرائم کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔

ٹرمپ کو مجرم ثابت کرنے کی کوششوں کے پیچھے کیا ہے؟

ہم پہلے بھی بحث کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف مختلف قانونی مقدمات سرمایہ داری کے زیادہ سنجیدہ نمائندوں کی جانب سے فطری ردعمل ہے کہ اس ”سرکش عنصر“ کو ایک سیاسی عنصر کے طور پر ختم کر دیا جائے۔ انتہائی دائیں بازو میں موجود کچھ افراد کی ہرزاسرائی کے برعکس یہ کسی ”خفیہ ریاست“ کی کوئی ایلومیناٹی (عام فہم شہرت میں ایک خفیہ تنظیم جو صدیوں سے پس پردہ عالمی معاملات کنٹرول کرتی ہے۔ ناولوں، فلموں، ٹی وی شوز، کامکس، ویڈیو گیمز اور میوزک ویڈیوز میں پاپولر ہونے کے باوجود اس خیال میں کوئی حقیقت نہیں ہے: مترجم) طرز پر سازش نہیں ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ مختلف سطحوں پر موجود ڈیموکریٹس کی پوری کوشش ہے کہ وائٹ ہاؤس میں دوسری مرتبہ ٹرمپ کے داخلے کو ہر صورت روکا جائے۔ اگرچہ ٹرمپ خود ایک سرمایہ دار ہے لیکن اس کی بے قابو انفرادیت ایک شدید مسئلہ ہے اور اس کے طبقے کی اکثریت بشمول ریپبلیکن پارٹی کے کئی ممبران اسے سیاست سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

حکمران طبقے میں موجود اکثریت کی نظر میں ٹرمپ کا دورِ صدارت ایک خوفناک مثال تھا کہ امریکی صدارت بے قابو ہو جانے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ بارہا اس نے ”روایات“ کو پاؤں تلے روند ڈالا اور اپنے مفادات کو پورے نظام کے مفادات پر مقدم رکھا۔ اس کا سب سے واضح اظہار اقتدار کی منتقلی کے دوران ہوا۔ حکمران طبقے کے لئے ضروری ہو چکا ہے کہ اسے یا ممکنہ طور پر اس راستے پر چلنے کے خواہش مندوں کو باور کرایا جائے کہ اس قسم کا کوئی رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

نام نہاد ”انصاف“ کا نظام عام طور پر ٹرمپ پر عائد وائٹ کالر جرائم (مالیاتی مفاد کے لئے افراد، کاروبار یا حکومتی اہلکاروں کی جانب سے عدم تشددجرائم۔ ”ایک ایسا شخص ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے جو سماج میں عزت یا اعلیٰ مقام رکھتا ہو اور اپنے کام یا پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر مالیاتی مفاد کے لئے جرم کرے“: مترجم) سے آنکھیں بند کئے رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پراپرٹی کے کام میں نصف صدی گزارنے کے دوران ٹرمپ نے ایسے ان گنت جرائم کئے ہوں گے جن کا کوئی قانونی حساب کتاب نہیں۔ لیکن اب اس کو مثال بنانا لازمی ہو چکا ہے تاکہ انہیں خبردار کیا جائے جو یہ کھیل کھیلنا تو چاہتے ہیں لیکن سرمایہ داروں کے مجموعی مفاد ات کے تحفظ سے انکاری ہیں۔ یہ ”قانون کی نظر میں سب برابر ہیں“ کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ایک طبقاتی سماج میں یہ ناممکن ہے۔ یہ سارا کھلواڑ سیاست دانوں۔۔۔اور ایک سابق صدر۔۔۔کو وارننگ ہے کہ درحقیقت ملک پر حاکمیت کس کی ہے۔

سب کو معلوم ہے کہ ٹرمپ کی حمایت میں ایک سرپھرا ہجوم ہے جو کچھ بھی ہو جائے، ٹرمپ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ لیکن 2008ء کے بعد پندرہ سال سرمایہ داری کے مسلسل بڑھتے عدم استحکام میں ذلیل و خوار ہوتی امریکی عوام کی اکثریت اب تنگ آ چکی ہے۔ ٹرمپ کا مطلب انتشار ہے اور اکثریت کے لئے ٹرمپ کے حالیہ قانونی مقدمات ایک معیاری مرحلہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ CNN کے مطابق یہ ”ایک اعصاب شکن داستان۔۔۔قوم تھکاوٹ کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے اور اس کی پولرائزیشن گہری ہو رہی ہے“ میں محض ایک نیا اضافہ ہے۔

فرد جرم عائد ہونے سے پہلے CNN نے ایک سروے کیا جس کے مطابق 60 فیصد امریکی فرد جرم عائد ہونے کے حق میں ہیں اگرچہ تین چوتھائی کے مطابق اس سارے معاملے میں سیاست کا کچھ جبکہ 52 فیصد کے مطابق کلیدی کردار ہے۔

فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر یہ ہوا تو ”موت اور تباہی کے امکانات“ ہوں گے۔ جارج فلائید کی حمایت میں عوامی تحریک اور 6 جنوری کو ٹرمپ کی شہہ پر بلوے کے بعد ریاست نے کوئی موقع نہیں دیا ہے۔ نیو یار ک کی پوری 35 ہزار افراد پر مشتمل پولیس کو چوکنا رکھا گیا۔

لیکن الوین بریگ اور مقدمے سے منسلک دیگر افراد کو اِکادُکا تشدد کی دھمکیوں کے علاوہ اہلکاروں کو 6 جنوری کی طرز پر احتجاجوں کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی یا کوشش کے شواہد نہیں ملے۔ کانگریس پر حملہ کرنے والوں یا اس کے احاطے میں داخل ہونے والے 1 ہزار سے زیادہ افراد پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس لئے ماضی میں ٹرمپ کے سب سے زیادہ متشدد حامیوں کو بھی اس مرتبہ ٹرمپ کے لئے خطرہ مولنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

نیو یارک ٹائمز اخبار کے مطابق ”مسٹر ٹرمپ کے ایک قریبی ساتھی نے ٹرمپ کو اپنا مخالف ہو جانے کے خوف سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابق صدر کو ممکنہ طور پر اپنے حق میں احتجاج کی کال پر مایوسی ہو گی۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ زیادہ تر افراد 6 جنوری بلوے کے بعد گرفتاریوں اور مسٹر ٹرمپ کی طرف سے صفر مالی امداد (مقدمات لڑنے کے لئے: مترجم) سے ’ڈسے‘ ہوئے ہیں“۔

نتیجتاً ایک دائیں بازو کے ریڈیو میزبان جیسی کیلی نے حامیوں کو کسی بھی قسم کے احتجاج سے خبراد کیا اور اعلان کیا کہ 6 جنوری کے مظاہرین سے ٹرمپ نے لاتعلقی کر کے ”اپنے حامیوں کو رسوا کیا اور (اس عمل سے: مترجم) مجھے نفرت ہے“۔ کانگریس پر حملے سے پہلے ”سٹاپ دا سٹیل“ (چوری کو روکو: مترجم) ریلیوں کے کلیدی منتظم علی الیکزینڈر نے بھی حامیوں کو نیو یارک جانے سے منع کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ”ہوشیاری افضل ہے“۔ حتیٰ کہ پاگل سازشی نظریہ دان الیکس جونز نے بھی کنارہ کشی اختیار رکھی۔

امریکی حکمرانوں کے آگے کنواں پیچھے کھائی

ٹرمپ کے سب سے زیادہ جنونی حامیوں کے غیر متحرک رہنے کے باوجود سابق صدر کی عام ریپبلیکن ممبران کی قابل ذکر تعداد پر آہنی گرفت ہے۔ اس لئے پارٹی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کو باریک بینی سے توازن برقرار رکھنا ہے اور چاہے ٹرمپ سے کتنی ہی نفرت ہے یا نہیں ہے، اسے بہرحال ایک فریق کو چننا ہے۔

سینیٹر ٹیڈ کروز نے فرد جرم کو ”انصاف کے نظام کو مسلح کرنے کی تگ و دو میں ہولناک اضافہ“ قرار دیا ہے۔ کانگریس اسپیکر کیفن میک کارتھی نے اعلان کیا ہے کہ وہ الوین بریگ کی تفتیش کرے گا اور فلوریڈا گورنر ران ڈی سانٹیس نے الزامات کو ”غیر امریکی“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی ریاست اپنے مخالف کی حوالگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ شائد اس اعلان میں یہ عمل بھی کارفرما تھا کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ٹرمپ کو ڈی سانٹیس پر 8 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی جو اب بڑھ کر 26 فیصد ہو چکی ہے۔

لیکن دیگر نے، جن میں سب سے اہم سینیٹ ریپبلیکن مچ میک کونل شامل ہے، ٹرمپ کو فرد جرم عائد ہونے والے دن ”بے یارومددگار“ چھوڑتے ہوئے فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت پر تبصرہ کیا۔

ہر قسم کی خبر کوئی اچھی خبر نہیں ہوتی لیکن فرد جرم عائد ہونے کے بعد ٹرمپ 2024ء انتخابی مہم آغاز کرنے کے نسبتاً کم پرجوش ردعمل کے بعد ایک مرتبہ پھر میڈیا کی زینت بن چکا ہے اور 24 گھنٹوں میں 40 لاکھ ڈالر فنڈ بھی اکٹھا کر چکا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی میگی ہیبرمان کے مطابق فرد جرم ٹرمپ کی انتخابی ساتھی بن چکی ہے۔ ایک ریپبلیکن تجزیہ کار کے مطابق ڈیموکریٹس نے محض ریپبلیکن پرائمری (صدارتی امیدوار کا اندرونی پارٹی چناؤ کے ذریعے انتخاب: مترجم) میں ٹرمپ کو فتح تھما دی ہے۔

کچھ تبصرہ یہ بھی ہے کہ درحقیقت ڈیموکریٹس ٹرمپ کو ریپبلیکن پارٹی امیدوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ 2024ء انتخابی مہم میں ٹرمپ کو ڈی سانٹیس جیسے ”ٹرمپ کے بغیر ٹرمپ ازم“ امیدوار کی نسبت شکست دینا زیادہ آسان ہو گا جس کا دامن کم داغ دار ہے۔ ریپبلیکن پرائمریز اور کاکس (صدارتی امیدوار یا اس کے چناو کے لئے مندوب/ مندوبین کے انتخاب کے لئے میٹنگ: مترجم) ہمیشہ زیادہ دائیں بازو کی پوزیشن اختیار کرتے ہیں اس لئے امیدواروں کو زیادہ پاگل عناصر کو متوجہ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ چناؤ جیت سکیں جبکہ اس کے ساتھ نام نہاد ”معتدل“ سوئنگ ووٹر ز(ایک ایسا ووٹر جو کسی پارٹی کا ممبر نہ ہو یا اگر کسی پارٹی کا ممبر ہو بھی تو پارٹی وفاداری سے بالاتر کسی بھی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو انتخابات میں من پسند ووٹ دیتا ہو: مترجم) کو جیتنے پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔

اگر تمام مخالف قوتوں کو شکست دینے کے بعد ٹرمپ پارٹی کا صدارتی امیدوار بن جاتا ہے تو ڈیموکریٹس کو امید ہے کہ اس اور دیگر مقدمات میں تمام منفی پریس کوریج کا خلفشار اتنے ووٹر توڑ لے گا کہ غیر جمہوری الیکٹورل کالج (صدر منتخب کرنے والے مندوبین کا اکٹھ جسے آئین کے تحت ہر چار سال بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ ہر ریاست اپنے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت اپنے کانگریس مندوبین یعنی ممبران اور سینیٹرز کے برابر ان مندوبین کو منتخب کرتی ہے۔ فیڈرل آفس ممبران بشمول کانگریس ممبران اور سینیٹرز اس کا حصہ نہیں ہوتے۔ موجودہ 538 مندوبین میں سے 270 یا زیادہ مندوبین کا کامل ووٹ صدر اور نائب صدر کو منتخب کرنے کے لئے لازم ہے۔ اگر کوئی فریق کامل ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو کانگریس کا ایوانِ ممبران صدر اور سینیٹ نائب صدر کو منتخب کرتا ہے: مترجم) میں فتح کا چانس بن جائے۔

آج امریکی سرمایہ داری اپنے انحطاط کے طویل سفر میں اتنی گل سڑ چکی ہے، اتنی غلیظ ہو چکی ہے کہ ہر موڑ تاریخی واقعات اور سیاسی بحرانوں سے لبریز ہے جن کی اکھاڑ پچھاڑ نظام کو مسلسل ریزہ ریزہ کر رہی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف مقدمات ”ثقافتی جنگوں“ کو مزید مہمیز دیں گے جس سے امریکی سماج میں مسخ شدہ پولرائزیشن مزید شدید ہو گی۔ دونوں پارٹیاں اس ہتھیار کو خوفناک معاشی بحران کی کوکھ سے ابھرتی ہوئی طبقاتی پولرائزیشن کے نامیاتی عمل کو کاٹنے کے لئے بے دریغ استعمال کریں گی۔

جیسے جیسے 2024ء کے انتخابات قریب آ رہے ہیں، کئی خطرناک عوامل کی کڑیاں آپس میں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ اُفق پر نمودار ہوتے ایک اور معاشی بحران کے سائے میں حکمران طبقے کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔ معاشی استحکام کو قائم کرنے کی ہر کوشش سیاسی اور سماجی استحکام کو مزید برباد کرے گی اور یہ دو طرفہ عمل مسلسل آگے بڑھتا رہے گا۔ اس پیرائے میں ایک خودپسند سماج دشمن بطور صدارتی امیدوار ریاست کے لئے مزید تباہی و بربادی کا پروانہ ہو گا۔ آج اگر سرمایہ دارانہ نظام کے ایک دائیں بازو کے ارب پتی محافظ کے ساتھ یہ سب کیا جا رہا ہے تو ذرا سوچیں کہ کل کو سوشلزم کی جدوجہد میں محنت کش طبقے کو متحرک کرنے والے آزاد طبقاتی امیدوار کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا جائے گا۔

ٹرمپ ازم کا ایک ہی تریاق۔۔۔سوشلزم!

یہ ساری صورتحال سرمایہ دارانہ حکمرانی کے تمام اداروں پر عدم اعتماد کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ درحقیقت دس میں سے صرف تین افراد ہی سمجھتے ہیں کہ فرد جرم ”امریکی جمہوریت کو مضبوط“ کرے گی۔ لیکن ٹرمپ کو ساری صورتحال سے بے دخل کرنے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا آسان کام نہیں ہے۔ اگر حکمران طبقہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو اس کے ان دیکھے اور زیادہ پرانتشار نتائج ہو سکتے ہیں۔ اگر ٹرمپ کو اپنی موجودہ پارٹی نظرانداز کرتی ہے تو کون ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مہم نہیں چلائے گا اور مایوس ووٹروں کی قابل ذکر تعداد کو ساتھ ملاتے ہوئے اس سارے عمل میں ریپبلیکن پارٹی کو پاش پاش نہیں کر دے گا؟

ٹرمپ شدید رجعتی ہے اور محنت کش طبقے کا جانی دشمن ہے لیکن مارکس وادیوں کو سرمایہ دارانہ انصاف یا ڈیموکریٹس سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں ہے۔ ٹرمپ ازم اور لبرل ازم ایک ہی سرمایہ دارانہ سکے کے دو رخ ہیں۔ ہمیں لبرل خوش فہموں کی خوشی میں شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو ”انصاف“ اور ”قانون کی بالادستی“ کا جشن منا رہے ہیں۔ کاغذات میں ”کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں“۔ لیکن ہر غریب شخص کو پتا ہے کہ اس فرمان کا اطلاق دولت و طاقت کے مالکان اور غلمان کے لئے مختلف ہے۔

امریکی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران نے ٹرمپ ازم کو جنم دیا ہے۔ جب تک یہ نظام جڑ سے اکھاڑ کر ختم نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک اس مظہر کے بانی پولرائزیشن اور انتشار مزید بڑھتے اور گہرے ہوتے جائیں گے۔

آج سیاسی منظر نامے میں محنت کش طبقے کی عدم موجودگی کی سب سے بڑی وجہ طبقاتی مفاہمت کے حامی محنت کش قائدین اور نام نہاد ”بایاں بازو“ ہے۔ اگر انہوں نے 2016ء یا اس سے پہلے ڈیموکریٹس کا دم چھلہ بنے رہنے کی گھٹیا پالیسی سے واضح قطع تعلقی کر کے طبقاتی طور پر خودمختار عوامی محنت کش پارٹی کی بنیاد رکھی ہوتی تو آج سیاسی منظرنامہ اور قومی بحث مباحثہ بالکل مختلف ہوتا۔ بپھرے محنت کشوں کی اکثریت کے لئے ٹرمپ کی شعلہ بیان اپیل ماند ہوتی اور دونوں سرمایہ دارانہ پارٹیاں دیوار سے لگی ہوتیں۔

اس لئے ہم ایک مرتبہ پھر دہراتے ہیں کہ ٹرمپ اور ٹرمپ ازم کا خاتمہ سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے! ایک سوشلسٹ انقلاب اور محنت کش حکومت کا اقتدار ہی نوع انسان کے لئے حقیقی مساوات اور انصاف کی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔